روہنگیاپناہ گزینوں کے بچوں کی تعلیم   سے متعلق عرضی پر سماعت سےدہلی ہائی کورٹ کا انکار

منگل کو دہلی ہائی کورٹ نے غیر سرکاری تنظیم (این جی او) سوشل جیورسٹ کی دائر کردہ مفاد عامہ کی عرضی کو مسترد کر دیا جس میں تنظیم نے میانمار سے آئے روہنگیا پناہ گزینوں کے بچوں کے اسکولوں میں داخلہ کو محفوظ بنانے کی درخواست کی تھی۔
بنچ اینڈ بار کی رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس منموہن اور جسٹس تشار راؤ گیڈیلا پر مشتمل بنچ نے عرضی پر سماعت کرتے ہوئے درخواست گزار کو مشورہ دیا کہ کہ وہ اس مسئلہ کو مرکزی وزارت داخلہ کے سامنے پیش کریں اور ان کے ساتھ مل کر حل کریں، کیونکہ یہ معاملہ حکومت کے پالیسی کے دائرہ کار میں حساس بین الاقوامی تحفظات سے جڑا ہوا ہے۔
عدالت نے تبصرہ کیا کہ ہم اس معاملہ میں شامل نہیں ہوسکتے۔ آپ سب سے پہلے حکومت سے رجوع کریں۔ عدالت کو اس معاملہ میں ایک ذریعہ نہیں بننا چاہئے۔ این جی او سے جڑے سماجی ماہرین نے دلیل پیش کی تھی کہ روہنگیا بچوں کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حقوقِ انسانی کے جاری کردہ پناہ گزین کارڈ رکھنے کے باوجود، آدھار کارڈ اور بینک اکاؤنٹ نہ ہونے کی وجہ سے دہلی کے اسکولوں میں داخلہ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل ۲۱ (الف) کے تحت بچوں کے حقِ تعلیم کی خلاف ورزی ہے۔

بنچ نے سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے مشاہدہ کیا کہ غیر شہریوں کو تعلیمی حقوق فراہم کرنے کے باعث حفاظتی چیلنجز اور قانونی تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے تشویش کا اظہار کیا کہ روہنگیا بچوں کو سرکاری اسکولوں میں جانے کی اجازت بالواسطہ طور پر ہندوستانی معاشرے میں ان کے انضمام کو فروغ ملے گا۔ یہ معاملہ عدالتی اختیارات سے باہر ہے۔ سوشل جیورسٹ کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ اشوک اگروال نے دلیل دی کہ آرٹیکل ۲۱ (الف) کے تحت تعلیم کا حق تمام بچوں پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ کسی بھی قومیت سے ہو۔ تاہم، عدالت نے آئینی حقوق کی وسیع تشریحات کے خلاف احتیاط کرتے ہوئے تحمل سے کام لینے پر زور دیا۔ 

«
»

دنیا کے مدرسوں میں ایسا بھی مدرسہ ہے

امانت اللہ خان کی درخواست ضمانت پرسماعت پھرملتوی  پر غور 4 نومبر کو