از: عبدالبر ابن مولانا اسامہ صدیقی ندوی متعلم اختصاص فی علوم الحدیث دارالعلوم ندوةالعلماء لکھنؤ
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین اما بعد! تحریک ندوۃ العلماء اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے یہ قدیم صالح و جدید نافع کی فکر کا داعی اول ہے اور یہ متنوع ثقافت کا مالک ہے علمی دنیا میں اس کی ایک الگ شان ہے اور روز اول سے اپنے طلباء کے علمی ثقافتی و ادبی فروغ کے لیے نئے نئے وسائل اپناتا رہتا ہے اور حالات کے مدنظر اس کے نظام میں تبدیلیاں بھی واقع ہوتی رہتی ہے جب مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی جو ایک طرف متقی و متواضع صاحب نسبت بزرگ ہیں تو دوسری طرف ایک فعال اور متحرک و منتظم فرد سابق ناظرعام مولانا سید حمزہ حسنی ندوی کے انتقال کے بعد ناظرعام منتخب ہوۓ تو حضرت والا نے دارالعلوم کے انتظام میں طلباء کی سہولت اور علمی میدان میں ان کی ترقی کے لیے بہت سے اضافہ کۓ جو الحمدللہ بہت مفید ثابت ہو رہے ہیں انہی میں ایک فضیلت کا تعلیمی نظام جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اس طرح چل رہا تھا کہ طلبہ عالمیت کے بعد فضیلت کے لیے مکمل دو سال فارغ کرتے تھے جس میں شعبوں کی تعداد پانچ تھی تفسیر ،حدیث ،فقہ ،دعوی،ادب لیکن اب چند وجوہات کی بنا پر اس نظام میں تبدیلی کی گئی اس طور پر کہ عالمیت کے بعد فضیلت کے بجائے تکمیل کا سلسلہ شروع کیا گیا اس کے نصاب میں صحاح ستہ وغیرہ شامل ہے پھر تکمیل کی تعلیم مکمل کرنے والے طلباء کے لیے اختصاص کے نام سے پانچ شعبہ قائم کیے گئے ١۔ تفسیر ۲۔ حدیث ۳۔ فقہ ٤۔ تاریخ و دعوی ٥۔ ادب ان شعبوں میں باقاعدہ امتحان لینے کے بعد طلباء کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ان کا داخلہ منظور کیا جاتا ہے اور ان تمام شعبوں کے لیے الگ الگ نصاب بنایا گیا ہے اور ہر طالب علم کے لیے پورے سال میں تین مقالات اور پچاس (۵۰ )کتابوں کے مراجع لکھنے کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی دامت برکاتہم نے اساتذہ کے راۓ و مشورہ سے طلباء کے لئے علمی ثقافتی و تربیتی اسفار کا سلسلہ بھی جاری کیا ہے۔ شعبہ اختصاص فی علوم الحدیث کے ذمہ دار ڈاکٹر مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی حفظہ اللہ ہیں جو ایک ماہر استاد بھی ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی تو انہی کی نگرانی میں اور انہی کی کوششوں کی وجہ سے ہم طلبہ اختصاص فی علوم الحدیث کو اسی علمی رحلات کی ایک کڑی کے طور پر بحکم ناظم ندوۃ العلماء رامپور کا سفر طے کیا گیا جس کا بنیادی مقصد رضا لائبریری رام پور کے قلمی نوادرات کی زیارت اور اس سے واقفیت و استفادہ تھا۔ چنانچہ ۲۱ نومبر ۲۰۲۳ عیسوی کو ۱۵ طلبہ اور ایک نگراں پر مشتمل یہ قافلہ بڑی پوری تیاری کے ساتھ رامپور کے لیے بذریعہ ٹرین روانہ ہوا رام پور میں ہم جامعۃ المعارف کے مہمان رہے۔ جامعۃ المعارف ندوہ کی ایک شاخ ہے جس کے مہتمم مولانا عبدالمقیت قاضیا ندوی بہترین طریقے پر اس کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں اس مدرسے کا نظام بالکل انوکھا ہے شاید کہ پورے ہندوستان میں کسی مدرسے کا نظام ایسا ہو ! سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں پر 100 فیصد طلبہ مقامی ہیں ہوسٹل کے نظام کے بغیر عشاء تک طلباء پڑھائی میں مشغول رہتے ہیں صرف ظہرانہ کے لیے گھر جا کر کھانے سے فارغ ہو کر لوٹ آتے ہیں ایک انوکھی بات یہ ہے کہ اس مدرسے میں طلباء کی حاضری سے تقریبا آدھے گھنٹے پہلے اساتذہ کی حاضری ضروری ہے اور تعلیمی اوقات کے دوران کسی بھی استاد یا طالب علم کو باہر جانے کی قطعا اجازت نہیں ہے اس کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں ہیں جو یقینا قابل دید بھی ہے اور قابل تقلید بھی! تقریبا رات نو بجے کے آس پاس ہمارا یہ قافلہ نوابوں کے شہر رام پور پہنچ گیا اور وہاں سے ہم جامعۃ المعارف چلے گئے۔ فورا مغرب و عشاء کی نماز باجماعت ادا کر لی پھر آن کی آن میں پرتکلف کھانوں سے دسترخوان سجایا گیا اور ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا اس کے باوجود بھی مولانا عوف صاحب خطیبی ندوی ہمیں کھلانے میں پرعزم تھے کبھی چاول سے پلیٹ سوکھا کرتے تو کبھی شوربہ سے گیلا کرتے اس کے بعد بھی کوئی شخص آتا اور کہتا مولانا صاحب یہ کباب بڑے لذیذ ہیں تھوڑا چکھ تو لیجیے، اور کوئی کہتا یہ زبردست نہاری ہے نوابوں کے پکاتی کے ہاتھ سے بنی ہوئی ہے اسی طرح کوئی نہ کوئی اتے رہتا اور کھانے کی تعریف کرتا تاکہ ہم خوب کھائیں آخر میں ایک صاحب نے آواز لگائی کہ گھبرائیے نہیں رام پور کا پانی بہت ہاضم ہے تو ہم ہکہ بکہ رہ گئے کہ یہ لوگ پانی کے بھی فضائل سنانے پر تلے ہوئے ہیں تو فورا ہم دسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوئے پھر ہم چہل قدمی کے لیے چلے گئے اور راستے میں چائے کی چسکیاں لی تقریبا ایک گھنٹے بعد ہم ٹہل کر جامعۃ المعارف واپس ہوئے سب طلباء نے سونے کی تیاری شروع کر لی جب ہم بستر پر لیٹنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مچھر ہمارے استقبال کے منتظر ہیں جب ہم لیٹ گئے تو کوئی مچھر سر گوشی کرتا تو کوئی بوسہ لیتا نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نے خوب ان کی خاطر داری کی۔
پہلے دن صبح ہمیں رضا لائبریری جانا تھا جس کے لیے رضا لائبریری کے ذمہ داروں سے آنے سے پہلے ہی ہم نے رابطہ کیا تھا،جسکے لیے انھوں نے ہمیں 11 بجے کا وقت دیا تھا تو اس لیے لائبریری کا رخ کرنے سے قبل جامعۃ المعارف کے نظام کو دیکھا اور اتفاقاً وہاں انعامی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا گیا تھا اس لیے صبح ہم نے اس میں شرکت کی اور بعض ساتھیوں نے حکم کے فرائض بھی انجام دیے اور ہمارے وفد کے نگراں مولانا ابو سحبان صاحب نے صدارت کی ذمہ داری سنبھالی۔
رضا لائبریری:
قریب صبح 11 بجے رضا لائبریری کا ہم نے پیدل رخ کیا۔رضا لائبریری رامپور میں واقع ایک قدیم کتب خانہ ہے جو ہند اسلامی ثقافت و تہذیب سے متعلق کتب ہائے نوادر قدیمی مخطوطات اور قلمی نسخوں کی وجہ سے مشہور ہے،نواب فیض اللہ خان نے اس کی بنیاد ڈالی تھی اس میں بڑا اہم علمی سرمایہ موجود ہے اور قلمی نوادرات کا ایک بڑا ذخیرہ بھی اس کو کتابوں کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے یہ کتب خانہ کئی معنوں میں دیگر کتب خانوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جیسے یہاں عربی، فارسی، اردو، ترکی، پشتو، سنسکرت اور ہندی کے مخطوطات کا بڑا وسیع ذخیرہ موجود ہے، مخطوطات کے علاوہ مختلف زبانوں میں مطبوعات کا ذخیرہ بھی یہاں موجود ہے اس کے علاوہ یہاں سے غالبیات اور اقبالیات اور آزادیات کے بھی اشارئیے مرتب کیے گئے ہیں۔ رضا لائبری کی خدمات کو دیکھتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: "میں اس کتب خانے سے بارہا متمتع ہوا ہوں ہندوستان کے کتب خانوں میں اس سے بہتر کیا اس کے برابر بھی کوئی کتب خانہ نہیں۔ میں نے روم و مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں ۔ لیکن کسی کتب خانہ کو مجموعی حیثیت سے میں نے اس سے افضل تر نہیں دیکھا" بہرحال قریب صبح ساڑھے بجے ہم لائبریری پہنچ گئے وہاں پر لائبریری کے ذمہ دار ہمارے استقبال کے لیے پہلے ہی سے کھڑے تھے اور ایک خاص تحقیقی کمرے میں ہمارے بیٹھنے کا انتظام کیا تھا۔ ہمارے وہاں بیٹھنے کے بعد وہاں کے ذمہ داروں نے مخطوطات کے مختلف کیٹلاگ (catalogue) ہمارے سامنے کیے۔ ہمارے ذمہ دار مولانا ابو سحبان صاحب کو ان مخطوطات کو دیکھنے اور پڑھنے کا بڑا اچھا ذوق تھا اس لیے وہ حدیث اور علوم حدیث سے متعلق نادر مخطوطات نوٹ کرتے، پھر اس کو نکلواتے پھر بعد میں اس کا مختصر اور عمدہ تعارف بھی کرتے پھر باری باری ہم طلباء بھی اس کی ورق گردانی کرتے لیکن مخطوطات کا پڑھنا بھی ایک فن ہے ماہر شخص ہی اس کو پڑھ سکتا ہے اس لیے کہ اس میں نقطے الفاظ وغیرہ بڑی دقت کے ساتھ ہی نظر اتے ہیں۔ پھر وہاں کے ذمہ داروں نے ایک ایسے قران مجید کے مخطوط نسخہ کا دیدار کروایا جو حضرت علی کی طرف منسوب ہے۔ اس میں 343 اوراق ہیں رسم الخط خط عربی کوفی ہے قران مجید اونٹ کی کھال پر لکھا ہوا ہے اور ہر دو ورق کے درمیان ہرن کے کھال کی جھلی ہے وہاں ہم نے تقریبا 26 مخطوطات کا سرسری مطالعہ کیا اور اس کا تعارف بھی نوٹ کیا۔ لائبریری اصلاً ایک پورا محل کا خطہ ہے تو اس لائبریری میں ایک میوزیم بھی ہے جو عام زائرین کو بھی دکھایا جاتا ہے نوابوں کے دور میں جہاں دربار لگتا تھا اسی میں یہ میوزیم واقع ہے اس میوزیم میں بہت سارے مخطوطات اور خوبصورت خوبصورت art رکھے ہوئے تھے جو نوابوں کے دور کے تھے خاص بات یہ ہے کہ اس دربار کی پوتائی سونے کی پینٹنگ سے کی گئی تھی یہ محل بڑا وسیع وعریض خوبصورت اور شاندار ہے ہم چند لمحہ اس پر غور کرتے رہے کہ دنیا میں جس کی کتنی ہی بڑی بادشاہت کیوں نہ ہو اور اس کے پاس کتنا ہی مال و جائداد کیوں نہ ہو آخر ایک دن اسے اس کو چھوڑ کر جانا ہے اس لیے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا میں اپنے اخرت کی تیاری کرتا رہے حدیث میں بھی اللہ کے رسول صلی االلہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے الكيس من دان نفسه، وعمل لما بعد الموت، والعاجز من اتبع نفسه هواها، وتمني علي الله (رواه الترمذي)
پھر تقریبا تین بجے ہم وہاں سے جامعۃ المعارف لوٹ آئے۔ مغرب بعد جامعۃ المعارف میں مولانا ابو سحبان صاحب کا بعنوان "علمی و دعوتی سفرناموں کی سیر"پر ایک بھرپور معلوماتی محاضرہ تھا اس نشست میں جامعۃ المعارف کے تمام اساتذہ اور رام پور کے قدیم ندوی فارغین کو دعوت دی گئی تھی مولانا نے اپنا بھرپور علمی و تحقیقی مقالہ پیش کیا دوران مقالہ چٹکلے بھی سامعین کی نذر کرتے رہے تاکہ کوئی اکتا نہ جائیں رات کے کھانے کے بعد ہمارا وفد رام پور کے تاریخی مقامات کی سیر کے لیے نکلا گاندھی سمادھی اور خصوصا باب حیات و باب نجات جو اعظم خان کی تعمیر کردہ ہے اس کی سیر کی۔ دوسرے دن تقریبا صبح ساڑھے گیارہ بجے ہمارا وقت لائبریری پہنچا اس دن لائبریری کی طرف سے ایک ورکشاپ مخطوطات کی اہمیت اور اس کی حفاظت کے عنوان سے منعقد کیا گیا تھا اس میں ان کے اسٹاف نے مخطوطات کی حفاظت کے طریقے بتائے اور اس کو پریکٹیکل کر کے دکھایا اور یہ قیمتی معلومات سے بھرپور ورکشاپ تھا طلباء نے خوب نشاط اور دلجمعی کے ساتھ اس میں شرکت کی اس ورکشاپ کے صدر مولانا ابوسحبان صاحب نے اس موقع پر ہندوستان میں بحث و تحقیق کے آغاز و ارتقا کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا ساتھ ہی ساتھ برادرم طلحہ عزیز خان نے نزھۃ الخواطر میں علمائے رام پور و مشاہیر کے ذکر پر مشتمل ایک چھوٹا سا مقالہ پیش کیا اور برادرم عثمان صدیقی نے ندوۃ العلماء کی مخطوطات و نوادرات سے دلچسپی اور رضا لائبریری کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور طلبہ کی طرف سےلائبریری کا شکریہ بھی ادا کیا تقریبا ساڑھے تین بجے ہم ورک شاپ سے نمٹ کر اپنی قیام گاہ لوٹ آئے مغرب کی نماز رامپور کی جامع مسجد میں باجماعت ادا کی جامع مسجد کی عمارت بڑی شاندار اور خوبصورت ہے اس کا صحن بھی بہت کشادہ اور وسیع ہے نواب فیض اللہ خان نے اپنے محل کی تعمیر سے پہلے اس مسجد کی بنیاد ڈالی تھیے نماز سے فارغ ہو کر تمام ساتھیوں نے خریداری کے لیے بازار کا رخ کیا اور سب منتشر ہو گئے جمعہ کے دن چونکہ لائبریری بند رہتی ہے اسلئے ہم رام پور سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پہاڑی علاقے نینیتال چلے گئے اور وہاں پر خوبصورت قدرتی نظاروں کا دیدار کیا اور شام چھ بجے وہاں سے ہمارا قافلہ کاڈگودام سے لکھنو کے لیے روانہ ہو گیا اور الحمدللہ ہمارا یہ قافلہ بخیر و عافیت صبح ساڑھے آٹھ بجے لکھنو پہنچ گیا اٰئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ لِرَبِّـنَا حَامِدُوْنَ، صَدَقَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَنَصَرَ عَبْدَهٗ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهٗ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں