انعام کے رات و دن

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

 رحمت ومغفرت اور جہنم سے نجات کے جو چند ایام اللہ رب العزت نے ہمیں دیے تھے وہ ہم سے اب رخصت ہوا چاہتے ہیں،ابھی چند دن تو ہوئے تھے کہ ہم نے اس ماہ مبارک کا استقبال کیا تھا اور اب اس کو الوداع کہنے کو تیار بیٹھے ہیں ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس ماہ مبارک میں روزہ ، تراویح ، تلاوت قرآن ، ذکر واذکار ، سنن ونوافل ، تہجد واوابین کے ذریعہ اللہ کو راضی کر لیا ، اور اپنے اندر تقویٰ کی وہ صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ماسٹر کی اور شاہ کلید ہے، اور جس کے پیدا ہونے سے دل کی دنیا بدلتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے ، جینے کے طریقے بدلتے ہیں، معاشرت بدلتی ہے ، اور معیشت کا انداز بھی بدل جاتا ہے، جن لوگوں کے اندر یہ کیفیت پیدا ہو گئی ، انہوں نے روزے کے مقصد کو پالیا اور اب زندگی کے دوسرے مہینوں میں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے ،ان کی زندگی میں تبدیلیاں ہوں گی ان کا ہر قدم اور ہر عمل شاہ راہ حیات پر مرضیات الٰہی اور طریقۂ نبوی کے مطابق ہوگا، خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے اور اصل مبارک بادی کے وہی مستحق ہیں۔

 بد قسمتی سے بہت سے لوگ اس ماہ میں بھی اللہ کے فضل ومغفرت سے محروم رہ جاتے ہیں اور شب قدر جیسی مقدس اور بابرکت رات میں بھی اس ماہ سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے، ان میں سے بعض نے اپنی حد تک کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن وہ بعض منکرات سے اپنے کو دور نہیں رکھ پاتے ، اس لیے محرومی ان کا مقدر بن گئی ،ان میں بعض شراب کی لت نہیں چھوڑتے ، بعض اپنے والدین کو ناراض کیے ہوتے ہیں ، بعض قطع تعلق کے مجرم اور صلہ رحمی سے گریزاں ، بعض کے دل کینہ وکدورت سے پاک نہیں رہ پائے، ان چاروں گناہ کی نحوست نے انہیں جنت کی دہلیز سے اس ماہ مبارک میں بھی دور رکھا۔

 ایسے لوگوں کے لیے بھی چند ایام بچ گئے ہیں ، راتیں طاق بھی بچی ہوئی ہیں، جس میں شب قدر کے پا لینے کا امکان ہے ، اور رب کو راضی کرنے کے لیے تو تھوڑا وقت بھی بہت ہے، نہ جانے کون سی ادا اور کون سا جملہ اسے پسند آجائے اور مالک اس کے ساتھ عفو ودر گذر کا معاملہ کر دیں ، اللہ کے نزدیک تو بخشش کے لیے یہ بھی کافی ہوگا کہ اس نے صرف اللہ کی رضا کے لیے ان منکرات کو چھوڑ دیا ،جس کی وجہ سے شب قدر میں بھی اس پر مغفرت کے دروازے بند ہو نے والے تھے۔

رمضان کے مہینے مکمل ہو گئے ، عید کا چاند نکل آیا ، تراویح کا سلسلہ بند ہوا، فرض روزے کے ایام بھی جاتے رہے ، معتکفین کے اعتکاف بھی مکمل ہو گئے ، لیکن اب بھی بہت کچھ باقی ہے ، عید کی چاند رات ہمارے یہاں لہو ولعب کے لیے مشہور ہے، شیطان آزاد ہوتے ہی پوری جلوہ سامانی کے ساتھ بندوں پر ٹوٹ پڑتا ہے، نمازی مسجد سے غائب ہونے لگتے ہیں، ہمہ شما کا کیا ذکر ، اچھے خاصے دیندار اور خواص کو بھی عموما اس رات بڑی میٹھی نیند آتی ہے اور رمضان بھر کی ریاضت کے بعد وہ اپنے کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں ، حالاں کہ یہ رات تو اصل انعام کی رات ہے ، فرشتے اس رات کو لیلة الجائزہ کہتے ہیں، اس لیے خصوصیت سے اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے ، میں نے اپنے بڑے بھائی محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کو دیکھا کہ وہ چاند کے اعلان کے بعد اعتکاف ختم کرتے ، بہت کم وقت کے لیے گھر آتے اور عشاءکی نماز کے بعد سے صبح تک مسجد میں الحاح وزاری ، گریہ وبکا اور دعاءمغفرت میں مشغول رہتے ، میں نے اس رات کی جیسی قدر کرتے ان کو دیکھا ویسا کوئی دوسرا شخص میری نظر سے نہیں گذرا، انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پاک کی خبر تھی کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عید کی رات جاگے اور عبادت میں مشغول رہے گا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا، جس دن سب کے دل مرجائیں گے ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ نے لکھا ہے کہ اس سے مراد فتنہ وفساد کا وقت ہے، جب لوگوں کے دلوں پر مردنی چھا جاتی ہے ، اس وقت اس کا دل زندہ رہے گا، ایک دوسرا قول یہ بھی لکھا ہے کہ ممکن ہو صور پھونکے جانے کا دن مراد ہو، کہ اس دن اس کی روح بیہوش نہ ہوگی ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے جاگے، اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی ، ان پانچ راتوں میں ایک رات عید الفطر کی ہے، حضرت امام شافعی ؒ نے ما ثبت بالسنة میں عید الفطر کی رات کو دعا کی قبولیت کی پانچ راتوں میں شمار کیا ہے ۔

 اس لیے اس رات میں دعا کا خاص اہتمام کرنا چاہئے اور اسے سو کر گذارنا نہیں چاہئے ، یہ عجیب بات ہوگی کہ اللہ اس رات کو انعام تقسیم کررہے ہوں اور بندہ بے خبری کی نیند سورہا ہو ، شکر گذاری کے جذبے، دعا کی قبولیت اور دل کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اس رات میں بھی رمضان المبارک کی رات کی طرح ہی بار گاہ خدا وندی میں اپنی مناجات پیش کرتا رہے۔

 لیلة الجائزہ یعنی انعام کی اس رات کے بعد جو دن آ رہا ہے وہ عید الفطر کا دن ہے ، اس دن اللہ کے فرشتے تمام راستوں پر پھیل جاتے ہیں اور بندوں کو عید گاہ کی طرف چلنے کے لیے آواز لگاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ اس رب کریم کی بار گاہ میں چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور قصوروں کو معاف کرنے والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے پہونچتے ہیں، تکبیر تشریق کے کلمات ان کی زبانوں پر ہوتے ہیں، اللہ خوش ہو کر فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ ایسے مزدور کو کیا بدلہ دیا جائے جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟فرشتے کہتے ہیں :ان کوپوری مزدوری دے دی جائے، اللہ فرشتوں کو گواہ بنا کر اعلان کر تے ہیں ،کہ ہم نے روزے اور تراویح کے بدلے سب کو اپنی رضا ومغفرت عطا کردی ، اللہ رب العزت اس اجتماع میں ہر مانگنے والے کودیتے ہیں، آخرت کے لیے بندہ جو مانگتا ہے سب مل جاتا ہے ، دنیا کے بارے میں جو مانگتا ہے وہ اسے اپنی مصلحت اور حکمت کے مطابق دیتے ہیں، البتہ اس بات کا برملا اعلان ہوتا ہے کہ میں (اللہ) لغزشوں پر ستّاری کروں گا، اور انہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہیں ہونے دوں گا ، عید کی نماز ختم ہوتی ہے، اور بندہ بخشش کا پروانہ لیے گھر لوٹ آتا ہے ، اسے اللہ کی رضا نصیب ہوجاتی ہے ، جو اصل دولت اور ایمان والوں کے لیے سرمایہ حیات ہے۔

 ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی اس دن کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتے ،ہماری نئی نسل کو تو اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا، پہلے سنیما کے ٹکٹ خریدے جاتے تھے، فلم دیکھی جاتی تھی، اب تو موبائل میں فلم دیکھنے کی ایسی سہولت ہو گئی ہے کہ الامان والحفیظ ، گناہ کہیں جا کر کیا جائے اور جس طرح کیا جائے، گناہ تو گناہ ہی ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے اور انعام کے اس رات ودن کی خوب خوب قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

مدارس اسلامیہ……غورو فکر کے چند گوشے

آہ!ملت نے ایک عظیم "رہبر”” کھودیا”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے