ہندوستان کے مدارس اسلامیہ میں رمضان المبارک کی تعطیل کے بعد نئے داخلے کی کارروائی چل رہی ہے، اوربعض مدارس میں داخلہ کی کاروائی مکمل ہو چکی ہے اور اب تعلیمی سال کا آغاز ہوا چاہتا ہے، اساتذہ نئے حوصلے اور جذبے کے ساتھ تدریس میں لگیں گے طلبہ بھی اپنے کامیاب مستقبل کے لیے جد وجہد اور محنت کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
مدارس اسلامیہ دینیہ کی اہمیت کو غیروں نے زیادہ سمجھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ امت مسلمہ میں اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب وثقافت کی سپلائی یہیں سے ہوتی ہے، اسی لیے وہ ہمارے مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن سے اس کی اہمیت وافادیت نکال دی جائے اور سماج کو باور کرادیاجائے کہ یہ ادارے از کار رفتہ اورآؤٹ آف ڈیٹOut of Date)) ہو چکے ہیں، ان میں اساسی اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، بد قسمتی سے ہمارے دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہو گیا ہے، اور وہ تعلیم سے متعلق ہر سمینار، سمپوزیم اور مجلسی گفتگو میں ٹیپ کے بند کی طرح اسے دہراتا رہتا ہے؛ حالانکہ ہمارے مدارس اسلامیہ نے ماضی سے لیکر تا حال ملک وملت کی جو خدمت انجام دی ہیں، اس کی نظیر کسی اور قسم کے تعلیمی اداروں میں مشکل سے مل پائے گی،ہمارے اساتذہ نے اس تعلیمی نظام کو اجرت کے بجائے اجر خدا وندی کے حصول کے جذبہ سے پروان چڑھایا،اپنی زندگیاں کھپادیں، دنیا وی آسائش اور حصولیابیوں کی طرف سے منہہ پھیر لیا، مقصد رضائے الٰہی کا حصول تھا، یہ مقصد کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔
ہمارے مدارس کے طلبہ نے بھی اپنے اساتذہ کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کیا، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہاں مادی منفعت کے مواقع کم ہیں، سرکاری مراعات کا گذر نہیں ہے،اور جہاں گذر ہواہے وہاں کا ر طفلاں تمام ہوتا جارہا ہے،اور رشوت کی گرم بازاری نے ان اقدار سے انہیں منحرف کردیا ہے،جو ہمارے مدارس کا طرہ امتیاز رہا ہے، میں یہاں بات آزاد مدارس کی کر رہا ہوں، ملحقہ مدارس کی نہیں، ملحقہ مدارس میں بھی جن مدارس نے عزم کر لیا ہے کہ ہم بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں گے،ا ن کے یہاں اس مادی نظام کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے، البتہ ایسے مدارس انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور ان کی ہمارے دل میں بڑی وقعت اور قدروقیمت ہے۔ مدارس کے اس نئے تعلیمی سال کو مزید معیاری اور تربیت کے اعتبار سے مزید مثالی بنانے کے لیے ہمیں اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ کی نیتوں میں خلوص ہو، کیونکہ ہمارے اعمال کی کیا ری کو سر سبز وشاداب اور سدا بہار رکھنے میں اخلاص کے چشمۂ صافی سے ہی توانائی ملتی ہے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒفرمایا کرتے تھے کہ خلوص وللہیت کے جذبے سے جوکام کیاجا تا ہے اس میں اللہ کی نصرت ضرورآتی ہے، اعمال کا مدار نیتوں پر ہی ہے۔
مدارس اسلامیہ اصلاً قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے لئے ہیں، بقیہ علوم وفنون انہیں دونوں نصوص کی افہام وتفہیم کے طور پر پڑھا ئے جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان دونوں چیزوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے،یقینا قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا مزاج بڑھاہے،لیکن اب بھی بہت سارے گاو?ں اور دیہات ایسے ہیں، جہاں اس معاملے میں کافی کمی پائی جاتی ہے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ قرب وجوار کے ان گاؤں کی بھی فکرکریں، جو بنیادی دینی تعلیم سے آج بھی دورہیں، اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہمارے وسائل اس کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم چند ایسے گاؤں کو گود لے لیں،جو اب تک بنیادی دینی تعلیم سے محروم اور بے بہرہ ہیں،اس کی وجہ سے مدرسہ کو ہر قسم کا فائدہ پہونچے گا۔
حضرت مولانا ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی مدرسہ مالی بحران کا شکوہ کرتا ہے تو مجھے معاً خیال آتا ہے کہ وہاں قرآن کریم کی تعلیم صحت کے ساتھ نہیں ہو رہی ہے،وہ فرماتے تھے کہ نا ممکن ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر توجہ دی جائے اور ادارہ مالی بحران میں مبتلا ہو،اس لیے کہ اللہ بڑا غیور ہے، اس کی غیرت کس طرح گوارہ کر سکتی ہے کہ اس کے کلام پاک کا حق ادا کیاجائے اور حق ادا کرنے والے پریشان حال ہوں۔
معیاری تعلیم کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ جو کچھ پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے اس کے اچھے ہونے کااعتماد ہو، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں اچھا وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے،اس لیے اساتذہ اور طلبہ سب کو اعتماد ہو نا چاہئے کہ ہم جن کاموں میں لگے ہیں وہ دنیا کااچھا کام ہے، اس احساس کے نتیجے میں ہمیں نفسیاتی طور پر اطمینان نصیب ہوگا اورہم دینی تعلیم اورتہذیب وثقافت کے قدر داں ہوں گے اور دوسری تہذیب ہمیں متاثر نہیں کر سکے گی۔
عموماً دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ جب مدرسہ سے گھرکا رخ کرتے ہیں یا فارغ ہوکر دوسرے اداروں میں داخلہ لیتے ہیں تو ان کی وضع قطع بدل جاتی ہے،چہرے سے داڑھی تک غائب ہو جاتی ہے۔وضع قطع اس طرح مغربی ہوجاتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کبھی انہوں نے مدرسہ میں پڑھا ہے، یہ ہماری تربیت کی کمی ہے، ہم نے دوران تعلیم طالب علم کے ذہن میں اپنے تہذیبی سرمایہ اور ثقافت وکلچر کی اہمیت نہیں بٹھائی، وہ دوسری تہذیبوں سے متاثر ہوتے رہے اورذرا سا ماحول بدلا تو سب کچھ بدلتا چلا گیا، ہمیں خصوصیت سے تربیت کے اس اہم نکتہ پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے تاکہ ہمارا سرمایہ ضائع نہ ہو۔ حضرت مولانا محمدالیاس صاحب ؒ، فرمایا کرتے تھے کہ اپنی کھیتی میں کچھ نہ پیدا ہو یہ افسوس کی بات ہے، لیکن اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پیداوار ہماری ہو اور وہ دوسروں کے کام آئے۔
تعلیم کو معیاری بنانے کے لئے اساتذہ وطلبہ دونوں کے لیے مطالعہ کی پابندی نا گزیر ہے، اساتذہ متعلقہ کتابوں کا مطالبہ کرکے درس گاہ میں جائیں، بلکہ جدید طریقۂ تعلیم کے مطابق نقشۂ تدریس یعنی لیسن پلان رات کو ہی مرتب کر لیں، اس سے تدریس کے کام میں سہولت بھی ہوگی اورتدریس کا حق بھی پورے طور پر ادا کرنا ممکن ہو گا، لیسن پلان کی وجہ سے ہم اپنے سوالات مرتب کر سکیں گے، لڑکوں کی سابقہ معلومات کو سامنے رکھ کر ان کی معلومات میں تدریجا اضافہ کرنا ہمارے لیے ممکن ہو سکے گا، اور طلبہ بھی اساتذہ کے غیر ضروری سوالات سے بچ کر مورد عتاب نہیں ہوں گے۔
معیاری تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے طلبہ کا ایک نشانہ اور ٹارگیٹ ہو کہ ہمیں دیگر مضامین میں کامیاب ہونا ہے،لیکن فلاں مضمون میں مہارت پیدا کرنی ہے،یہ دور اختصاص کا ہے، اس کے بغیردنیا میں کوئی قیمت نہیں لگتی اور عام طالب علموں کو ترقی کے مواقع نہیں ملتے؛ اس لیے کسی ایک فن میں اختصاص کی کوشش کرنی چاہیے۔
چونکہ یہ سارا کام رضاء الٰہی کے لئے ہی کرنا ہے اوردوسراکوئی مقصد نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کے حکم پر چلیں، گناہوں سے اجتناب کریں اور ان تمام امور پر کار بند ہونے کیلئے اللہ سے توفیق طلب کر تے رہیں، سارے کام اللہ کی توفیق ہی سے بندہ کر سکتا ہے،اس لیے اللہ سے مانگیں اس کے سامنے گڑگڑائیں، آہ سحر گاہی اور دعاء نیم شبی کا اہتمام کریں، اللہ سے اس طرح لو لگائیں کہ تعلیم میں مدرسہ اور تربیت وتزکیہ میں ادارہ خانقاہ نظر آئے اور جب کوئی بندہ ادھر سے گذرے تو اعلان کرے کہ ع در مدرسہ خانقاہ دیدم
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت مدارس اسلامیہ کے سامنے مختلف قسم کی مشکلات ہیں، اندرونی فتنوں کے ساتھ بیرونی فتنوں کا بھی تسلسل ہے، اس پس منظر میں چند باتوں کی طرف اساتذہ اور ذمہ داران مدارس کی توجہ مبذول کرانا ضروری معلوم ہوتا ہے: (۱) درجہ حفظ کے طلبہ کو اردو املاء نویسی کرائی جائے، دیکھا یہ جارہا ہے کہ درجہ حفظ سے فارغ طلبہ بہت مشکل سے اپنا نام لکھتے ہیں، جبکہ انہیں اردو لکھنے پڑھنے کی اچھی مشق ہونی چاہئے، ہندوستان میں ہندی زبان سے بھی واقفیت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ (2) خوش خطی کی طرف بھی دھیان دیا جائے اور تمام درجات میں خوش خطی کی مشق کا اہتمام کرایا جائے۔ (3) عام معلومات میں، جغرافیائی معلومات ملکی معلومات اور ریاستوں کے نام سے روشناس کرایا جائے، سوالات کے ذریعہ اس کا استحضار کرایا جائے۔ (4) عام احساس یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کے تربیتی نظام میں انحطاط آیا ہے، اس لیے تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے۔ (5) مدارس کے نظام میں طلبہ کے اوقات کی پوری حفاظت کی جائے، اور تضیع اوقات سے انہیں بچایا جائے۔ (6) ورزش کے درمیان کھیل سے متعلق عربی الفاظ کا سوال جواب بھی جاری رہے تمرین کی یہ اچھی صورت ہے۔ (7) مفرد کلمات کا ذخیرہ ہونا بھی ضروری ہے، اس سے مضمون نگاری اور انشاء پردازی میں مدد ملتی ہے، ہر طالب علم کے لیے عربی لغت کا رکھنا ضروری قرار دیا جائے۔ (8) لغت سے کیسے معانی نکالیں گے اس کی طرف رہنمائی کرنی چاہیے، اسی طرح لغت کے اشارات بھی بتا دیا جائے،عربی کے دوسرے اور تیسرے درجہ سے یہ مشق ضروری ہے۔ (9) معیاری و اصلاحی اشعار بھی اساتذہ کی نگرانی میں یاد کرائے جائیں، بیت بازی کے ذریعہ یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ (10) تقریری مشق میں صرف الفاظ نہ ہوں بلکہ آیات قرآنی اور احادیث کے عربی کلمات بھی یاد کرائے جائیں۔ (11) انجمن میں اگر نحوی وصرفی سوالات و جوابات (مکالمات) کا سلسلہ شروع کیا جائے تو اس سے بھی قواعد عربیت کا استحضار ہو گا۔
ایک مسئلہ نصاب تعلیم کابھی ہے، بہار کی حد تک تین قسم کے نصاب تعلیم جزوی طور پرترمیم کے ساتھ مدارس میں رائج ہیں۔ ایک دیو بند کا دوسرے ندوۃ العلماء کا اور تیسرا وفاق المدارس المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ کا، یہ تینوں نصاب اپنی اپنی جگہ اہم ہیں، ان میں تبدیلی پیدا کرکے مخلوط نصاب رائج کرنے کی تحریک طبقہ دانشوران کی طرف سے پیدا کی جاتی رہی ہے، لیکن دینی وعصری علوم کا امتزاج آج کے دور میں عملی نہیں ہے، یہ انتظامی مجبوری ہے کہ دونوں طریقہ تعلیم کو الگ الگ رکھا جائے۔
مدارس اسلامیہ زکوٰۃ وخیرات کی آمدنی سیگراں تنخواہ پر عصری علوم کے ماہرین کو نہیں رکھ بائیں گے اور عصری علوم کے لوگ تنخواہ پر مولویوں کی طرح رہنا پسند نہیں کرتے بیش تر لوگوں کی نگاہ متاع دنیا پر ہوتی ہے اور مولویوں کی نظر اجرت کے بجائے اجر خداوندی پر، یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں مدارس پھیلے ہوئے ہیں، اور ان میں دینی تعلیم سے طلبہ آراستہ ہوتے ہیں، مدارس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دینی علوم کے اساتذہ کو کم اور عصری علوم کے ماسٹر صاحبان کو زیادہ تنخواہ پر رکھیں اس لیے کہ اس سے دینی تعلیم کی بے توقیری ہوتی ہے اور یہ عدل کے بھی خلاف ہے، اس لیے نصاب میں جزوی تبدیلی انگریزی وغیرہ کی شمولیت کے ساتھ کی جاسکتی ہے، کمپیوٹر سکھایا جا سکتا ہے، لیکن سائنس، کامرس، آرٹس اور ان کی شاخ درشاخ کو مدارس میں پڑھانا بالکل ممکن نہیں ہے، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے مولوی آرٹس، سائنس، کامرس کا نصاب متعلقہ مدارس کو فراہم کیا ہے، لیکن اس نصاب کو اسی طرح ناکام ہونا ہے، جیسے گذشتہ تیس برسوں میں پڑھا یا جانے والا نصاب کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکا، یہ مدرسہ کے بنیادی مقاصد کو فوت کرنے جیسا ہے اور اس کی افادیت موہوم ہے، نصاب بڑھادیا گیا ہے اور اساتذہ وہی تیرہ ہیں، جہاں درجات کے اعتبار سے اساتذہ مہیا نہ ہوں وہاں تعلیمی اور وہ بھی معیاری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ہم طلبہ کو محنت، اساتذہ کو معیاری تدریس، انتظامیہ کو تدریسی سہولت کی فراہمی پر آمادہ نہیں کر پا رہے ہیں، اس لیے ہمیں رہ رہ کر نصاب کے کان مروڑنے کا شوق پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ ایک نصاب ہی ہے جو جتناادل بدل کیجئے آپ کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکتا، بے جان جو ٹھہرا۔
مدارس اسلامیہ کے بچوں کو اگر آپ میٹرک وغیرہ کرانا چاہیں تو نیشنل اوپن اسکولنگ سسٹم سے ان کے امتحانات دلوادیجئے، وہاں سہولت بھی ہے اور یہ چونکہ اوپن اسکولنگ ہے، اس میں طلبہ کا تدریسی نقصان نہیں ہوگا، اور مختصر تیاری کے ساتھ ان کے پاس عصری علوم کی سند بھی ہوگی۔
معروضات لمبی ہو گئیں، لیکن یہ مدارس کے ذمہ داران کے لیے غور وفکر کے چند گوشے ہیں،بات سے بات نکلتی ہے اور پھر کسی نتیجہ پر پہونچنا ممکن ہوتا ہے، اللہ کرے یہ معروضات قارئین کے ذہن ودماغ پر دستک دے سکیں اور مدارس اسلامیہ کی عہد زریں کی واپسی میں معاون ومددگار ثابت ہو سکیں
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں