رمضان المبارک: اپنی فیروز بختیوں کے لیے ہمارا لائحہ عمل کیسا ہو؟
از قلم: وزیر احمد مصباحی (جامعہ ملیہ اسلامیہ [دہلی])
اللہ کریم کا لاکھ لاکھ فضل و احسان ہے کہ انھوں نے ہمیں رمضان المبارک جیسا صاحبِ خیر و برکت ،جہنم سے آزادی ،گناہوں سے معافی اور نیک اعمال کے ذریعے جنت کا حقدار بننے والا یہ مبارک و مسعود مہینہ ایک دفعہ پھر عنایت فرمایا ۔رمضان المبارک اسلامی مہینے کا نواں مہینہ ہے ۔اور الحمد للہ!ماہِ رمضان کی پُربہار و بابرکت گھڑیاں امسال بھی ہمارے سروں پر سایہ فگن ہیں ۔اس کا ہر لمحہ قیمتی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں ایک بندہ مومن کے لیے عظیم دینی و دنیوی منافع لیے ہوے ہیں ۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں آسمان و زمین کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔شیاطین پابزنجیر کر دیے جاتے ہیں ۔اسے سال کے تمام مہینوں پر تفوق و برتری حاصل ہے ۔ایسا کیوں نہ ہو کہ جب صاحبِ شریعت ،خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی مقدس و محترم کتاب "قرآن کریم"کا نزول بھی اسی ماہ میں ہوا ہے ۔یقیناً یہ مہینہ خدا پرستوں کا سرچشمہ اور رحمتِ الہی کا منبع و مخزن ہے ۔ساتھ ہی صبر و تحمل ،ایثار و قربانی ،اخوت و بھائی چارگی ،پیار و محبت اور آمن و آشتی کا خوبصورت درس دینے والا بھی ۔
متذکرہ بالا تمام باتوں کا اندازہ اور ان کا اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے، جس میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو آمدِ رمضان پر مبارک بادیوں کے سوغات پیش کیا کرتے ۔صحابی رسول حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رمضان شروع ہونے سےقبل سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے ارشاد فرماتے :"رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو چکا ہے ،اللہ تعالی نے تم پر اس مہینے کے روزے فرض کیا ہے ،اس ماہ میں جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں ،دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابزنجیر کر دیا جاتا ہے ،اس ماہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل و اعلی ہے ۔جو بندہ اس مہینے کی برکتوں سے نامراد و ناکام رہا وہ حقیقی معنوں میں محروم کہلانے کا مستحق ہے "۔ (مسند احمد بن حنبل :١٤/٣٩٢،رقم الحدیث :٦٨٥١،و سنن نسائی شریف ٧/٢٥٦،رقم الحدیث :٢٠٧٩)
یقیناً آپ بخوبی سمجھ چکے ہوں گے کہ رمضان کا مہینہ اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے بندوں پر ایک بہت بڑا فضل و احسان ہے ،جس کی ہمیں دل و جان سے قدر کرنی چاہئے ۔یہ قسمت والوں ہی کا مقدر ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک میں عبادت و ریاضت کے ذریعہ خوب خوب رحمتیں بٹورتے ہیں اور اپنے دارین کو فلاح و ظفر کی قالب میں تبدیل کرکے بارگاہِ خداوندی میں مقام تقرب پر فائز ہو جایا کرتے ہیں ،ورنہ تو بہت سارے بندے ایسے ہوتے ہیں جنھیں قضائے الہی کے مطابق حصولِ برکاتِ رمضان سے قبل ہی آخرت کی جانب رختِ سفر باندھنا پڑتا ہے ۔اس مبارک ماہ میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ گاؤں ،دیہات اور چھوٹے چھوٹے قصبات و محلات کے وہ افراد جو روزے کی عظمت و رفعت سے ناواقف ہوتے ہیں ،وہ زیادہ تر روزے سے نہیں ہوتے یا اگر ہوتے بھی ہیں تو دن بھر کام کرنے کے سبب درمیان ہی میں روزہ توڑ دیتے ہیں ۔مشاہدہ ہے کہ جب ان سے اس بابت پوچھا جائے کہ آپ روزے سے کیوں نہیں ہیں ؟تو اس موقع پر وہ بلا جھجھک کہ اٹھتے ہیں کہ :"کیا میرے گھر میں کھانے پینے کے اسباب مہیہ نہیں جو ہم روزہ رکھیں ؟"۔حیف صد حیف !بھلا دیکھیے تو وہ نادانی و حماقت میں ڈوب کر انعامِ باری تعالی کا کس طرح آنِ واحد میں انکار کر بیٹھتا ہے ۔ایسے لوگوں کی بارگاہ میں مودبانہ عریضہ ہے کہ خدارا ! رحمتِ خداوندی ہرگز اتنی بے دردی سے نہ ٹھکرائیں ۔کیا پتہ کب تمھارے تمام نامہ اعمال تباہی کے گڑھے میں چلے جائیں؟اور تمھیں اس کی خبر بھی نہ لگے ،کم سے کم دوسروں کے پاس اس طرح کی گفتگو سے اجتناب تو کریں ۔یوں ہی وہ حضرات جو کام کاج کو بہانہ اور خواندگی ذمہ داری کو حیلہ بناکر روزہ نہیں رکھتے ۔ان سے میری گزارش ہے کہ خدارا! آپ روزہ رکھیں ،کیونکہ اس میں بڑی برکتیں اور عظمتیں پنہا ہیں ۔سال بھر تو آپ کام کرتے ہی ہیں کم از کم اس ماہ میں تو عبادت و ریاضت کر لیں ۔آپ اس کام کی ذمہ داری نہ لیں جو روزہ توڑنے کا سبب بن جائے ۔دن میں نصف روز تک ہی کام کریں لیکن روزہ نہ چھوڑیں ،کہ تارکِ صوم کے بارے میں بڑی بڑی وعیدیں آئی ہیں ۔یاد رکھیے جب آپ رب کی عبادت کریں گے اور روزہ رکھیں گے تو خود اللہ تعالی تمھارے رزق کا انتظام و انصرام فرما دے گا ،اس لیے کہ وہ رزاق کائینات ہے ۔پوری دنیا کو رزق فراہم کرتا ہے تو بھلا بتائیے کیا رب تعالی اپنے اس بندے کے لیے جو اس کی عبادت میں مشغول ہوں ،رزق کے اسباب فراہم نہیں کرے گا ؟ یقیناً ایسے موقع پر اہل علم اور طالبان علوم نبویہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو روزے کی اہمیت و افادیت سے باخبر کریں ،اپنے گاؤں اور محلے کا جائزہ لیں اور تبلیغ و ارشاد کا کام بحسن و خوبی انجام دیں کہ کہیں علم و عمل سے ناکارہ اور سیدھے بھولے بھالے عوام الناس رمضان کے فیوض و برکات سے شادکام ہونے کے بجائے ترکِ صیام کی بدولت گناہوں اور بدبختیوں کے دلدل میں پھنس کر مستحقِ نار نہ ہو جائیں۔اسی ضرورت کے پیشِ نظر کچھ بنیادی باتیں اور رہنما اصول مندرجہ ذیل سطور میں پیش کی جا رہی ہیں ۔امید ہے کہ ہم اس پر عمل در آمد ہو کر رمضان المبارک کی رحمتوں و برکتوں سے شادکام ہو پائیں گے ۔
(١) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ روزے کا اصل مقصد مومن کو پرہیزگار اور نیکوکار بنانا ہے ۔قرآن مجید میں ارشادِ باری ہے کہ :"ائے مومنوں تم پر اس طرح روزے فرض کیے گیے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پےر فرض کیے گیے تھے تا کہ تم پرہیزگار بن جاؤ"۔(القرآن ،سورہ بقرہ ،آیت نمبر ١٨٣) اللہ تعالی نے روزہ فرض کرنے کی وجہ بتائی کہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔اس آیت میں کسی کو مخصوص کرنے کے بجائے اسے مطلق رکھا گیا اور یہ عمومیت پر دلالت کرتی ہے ۔اس وقت ہماری اوّلیں ذمہ داری ہے کہ ہم گناہوں سے اجتناب کریں ۔جھوٹ ،چغلی ،کذب اور افترا جیسے خبیث افعال سے گریز کریں ۔اس لیے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ وہی بندہ محبوب ہوتا ہے جو تقویٰ شعار اور نیکوکار ہو. (٢)روزہ بندے کا اپنے رب سے تعلقات کے گہرے اور اسے مضبوط و پختہ کرنے میں موثِر کردار ادا کرتا ہے ۔اس لیے اس ماہِ مبارک میں ہر لمحہ انسان کو چاہئے کہ وہ ذکرِ الہی کرتا رہے اور فضول و لایعنی گفتگو کے بجائے تسبیح و تحلیل میں اپنا وقت صرف کریں ۔(٣)اپنے مال کو اللہ کی راہ میں زیادہ خرچ کریں ۔حدیثوں میں آیا ہے کہ رمضان آتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ سخاوت میں خوب خوب اضافہ ہو جاتا ۔(٤) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ :"جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے اس کی مغفرت ہو جاتی ہے ۔اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر ہم صاحبِ استطاعت ہیں تو دوسروں کو دعوتِ افطار بھی کرائیں ،اور جہاں اس میں ہم اہل ثروت حضرات کو شریک کریں وہیں غریب طبقوں کا بھی بھرپور فکر و خیال رکھیں ۔چناچہ معاشرے میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہر روز کہیں نہ کہیں افطار کی بڑی بڑی پارٹیاں ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس میں اکثر و بےشتر مالدار طبقوں ہی کی شرکت ہوتی ہیں ۔ان کو ہی دعوت دیتے ہیں اور ہم اپنے غریب رشتہ داروں و مفلس و لاچار پڑوسیوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں ۔ذرا سوچیں کہ ہمارا یہ عمل جسے ہم ثواب کی نیت سے انجام دیتے ہیں کیا یہ عند اللہ مقبول ہوگا ؟۔ (٥) رمضان کی ایک اہم ترین عبادت قیام اللیل ہے ۔قیامت کے دن تراویح اور قرآن کریم رب کے حضور گواہی دیں گے کہ فلاں بندہ تراویح میں شرکت کرتا تھا ،فلاں بندہ میری تلاوت کیا کرتا تھا اور فلاں فلاں نہیں ۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے مبارک ساعت میں مکمل پابندی کے ساتھ پورا ماہ تراویح میں شرکت کریں اور کم از کم ایک دفعہ مکمل تلاوتِ قرآن پاک کریں ۔(٦) رمضان میں فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ سنن و مستحبات کا بھی اہتمامِ خاص کریں ۔اس لیے کہ اس ماہ میں ہمارا ایک عمل دوسرے مہینوں کے اعمال کے مقابلے میں ستر گنا اجر و ثواب لے کر آتا ہے ۔کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کو اُسوہُ حسنہ کے قالب میں ڈھال لیں ۔ہو سکتا ہے کہ اس سے ہماری بقیہ زندگی بھی سنتِ نبوی کے پیکر میں ڈھل جائے ۔(٧) باجماعت نمازوں کا اہتمام ،تہجد کی ادائیگی ،تلاوتِ قرآن کریم ،زبان ،کان ،آنکھ اور دوسرے تمام اعضا کو گناہوں سے روکنے کی بھرپور کوشش ہونی چاہئے تاکہ ہم غضبِ الہی اور اس مبارک ساعت کی ضیاع سے بچ جائیں ۔(٨) اسی طرح صدقات و خیرات کے ذریعہ غریبوں و نادار طبقوں کی حتی الامکان مدد کرنی چاہئے تا کہ وہ اپنے ضروریات کی تکمیل بہتر طور پر انجام دے سکیں ۔اور یہ وہ نیکیاں ہیں جسے ہم بآسانی بجا لا سکتے ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن باتوں سے خدا نے ہمیں رکنے اور اس کے ارتکاب سے اجتناب کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ان سے رک جانا ہی اس ماہِ مبارک کا اصل مقصود و مطلوب ہے اور اسی مقصد میں رحمت و غفران کی دولتیں بٹور کر اپنی کھالی جھولیاں پُر کرنے و دارین کی سعادتوں سے شادکام و بہرہ مند ہونے کے قیمتی اسرار و رموز پنہا ہیں ۔(اللہ ہمیں اس ماہِ مبارک کی صحیح اور درست تعظیم و تکریم بجا لانے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین )
مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں