اللہ تعالیٰ کا فضلِ عظیم اور احسانِ عمیم ہے کہ ایک بار پھر ماہ مقدس ہم پر سایہ فگن ہونے والاہے اور اس کے انوارو برکات ہماری طرف متوجہ ہیں۔ہم کس زبان اور کن الفاظ سے حق تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمارے دلوں کی بنجر زمین کو سرسبز و شاداب کرنے اور ہماری روحانیت کو جلا و تازگی بخشنے کے لئے ایک بار پھر رحمت و برکت کی گھٹائیں بھیج دیں،جو تیس یوم تک بے حد وحساب ہر مسلمان پر برسیں گی اور ہر شخص اپنی ہمت و استعداد کے مطابق ان سے مستفید ہوگا،کچھ خوش نصیب وہ ہوں گے جو اس آبِ زلال سے بھر پور نفع اٹھا ئیں گے اور اس کو نعمت عظمی سمجھ کر قدردانی کی بھرپور کوشش کریں گے؛جبکہ کچھ حرماں نصیب اور تیرہ بخت وہ بھی ہوں گے جو ”چراغ تلے اندھیرا“ کے مصداق اس ربانی بخشش و انعام سے محروم رہیں گے۔ بدبختی و حرماں نصیبی: جن خوش نصیبوں اور سعادت مندوں نے رمضان المبارک،اس کی رحمتوں،برکتوں اور مقدس ساعتوں کی قدر کی، ان کو کارآمد بنایا، سابقہ غلطیوں پرندامت وپشیمانی کے ساتھ توبہ کی، آئندہ کے لئے گناہوں سے اجتناب کا عزم مصمم کیا اور نیکیوں پر کمربستہ ہوگئے،بلاشبہ ایسے لوگوں کے لئے رمضان،رحمت کا وسیلہ،مغفرت کا ذریعہ اور جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے نہ اپنی روش بدلی، نہ گناہ چھوڑے، نہ سابقہ گناہوں پر پشیماں ہوئے، نہ توبہ کی اور نہ ہی ان قیمتی لمحات کی قدردانی کی،وہ محروم رہے اور محروم ہی رہیں گے،ان کے لیے اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ آفتاب ِ نصف النھاراپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ افروز ہے اور وہ مثلِ بوم اپنے کو اندھا بنائے ہوئے ہیں!کھیت وکھلیان عین تالاب کے کنارے واقع ہیں اور وہ پانی نہ دینے کی قسم کھائے ہوئے ہیں۔(اللہ پاک ناقدری سے بچائے،آمین) ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺخطبے کے لیے تشریف لائے اور منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین۔ دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین اور اسی طرح تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے بھی فرمایا آمین، اس کے بعد آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور جب منبر سے اتر کر نیچے تشریف لائے تو قدرے تجسس کے ساتھ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا:”یا رسول اللہ! آج آپ نے تین بارآمین فرمایا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا، آپ کس بات پر آمین فرمارہے تھے؟“ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:”حضرت جبرئیل تشریف لائے تھے، جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو انہوں نے کہاکہ ہلاک و برباد ہو جائے وہ شخص جو اپنے بوڑھے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو اپنی زندگی میں پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکے،بلاشبہ اس کے لیے ہلاکت و بربادی ہے؛اس لئے میں نے آمین کہا۔ جب میں دوسری سیڑھی پر پہنچا تو جبرئیل نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا نام نامی لیاجائے اور وہ پھر بھی آپ پر درود نہ بھیجے؛ اس پر میں نے آمین کہا۔ پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیل نے کہاکہ ہلاک وبرباد ہوجائے وہ شخص جو رمضان جیسا برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو سکے،اس پر بھی میں نے آمین کہا۔“(رواہ الطبرانی) اللہ جل شانہ نے ہماری آسانی کے لیے اپنے نبی ﷺکی زبان مبارک سے بعض ایسے ہدایتیں ہمیں عطافرمائی ہیں جوہمارے لیے اس روحانی ترقی میں معاون ہیں اور جن پر عمل کے ذریعہ ر مضان کی ان ساعتوں کو وصول کرنامزید آسان ہوجاتا ہے۔ ماہ مضان،فضائل و خصوصیات: حضرت سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک اہم خطبہ دیا،جس میں فرمایا:“لوگو! ایک زبر دست اور با برکت مہینہ تم پر سا یہ فگن ہے، ایسا مہینہ جس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر اوربڑھ کرہے،اللہ پاک نے اس مبارک مہینہ کے دنوں میں اپنے بندوں پر روزہ فرض کیا ہے اورراتوں میں قیام یعنی تروایح کو نفل اورزائد عمل قرار دیا ہے اور اس ماہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں اگر کوئی کار ِخیر کر ے تو اس کو اتنا ثواب ملتا ہے جتنا دوسرے دنوں میں فرض کام کر نے پر ملتا ہے،اور فرض کا ثواب دوسر ے دنوں کے ستر فر ضوں کے برابر ملتا ہے،اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے،اور یہ مہینہ غمخواری کا ہے،اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق منجا نب اللہ بڑھا دیا جاتا ہے، مزید یہ کہ اگر کسی شخص نے کسی روزہ دار کو افطار کر ادیا تو اس کواس روزہ دار کے ثواب میں کمی کئے بغیر اس کے روزہ کا ثواب بھی دیاجاتاہے،اور یہ عمل افطار کرا نے والے کی مغفرت ِ ذنوب کا سبب بن جاتا ہے،اس پر صحا بہ کرام ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے ہرشخص اس کی استطا عت نہیں رکھتا کہ رو زہ دار کو کھا نا کھلا دے، آپؐ نے فر ما یا: جس اجرکی میں خبر دے رہا ہو ں وہ اللہ تعالیٰ ایک گھونٹ لسّی یا ایک کھجور؛بلکہ پانی کے ایک گھونٹ پر بھی عطا فر ما دیں گے، اس کے لئے کوئی بڑے اہتمام اور خاص مصارف کی بھی حاجت نہیں، البتہ جس نے کسی روزہ دار کو خوب سیر کرکے کھلایا تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائیں گے،جس کے بعد جنت میں داخلہ تک پھراس کو پیا س نہیں ستائے گی، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیا نی مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے گلو خلا صی کا ہے؛جس شخص نے اس ماہ میں اپنے خادموں کا بو جھ ہلکاکر دیا اللہ پاک اس کی مغفرت اور جہنم سے نجات کا فیصلہ فرمادیتے ہیں۔”(رواہ البیہقی فی شعب الایمان) رسول اللہﷺ کا یہ خطبہ رمضان کی تیاری اور استقبالِ رمضان کے حوالے سے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم اور موثر پیغام کی حیثیت رکھتاہے۔رمضان شریف کی آمد پر نبی رحمت ﷺ کے مذکورہ خطبہ سے اس موسم بہار کی درج ذیل خصوصیات واضح ہوتی ہیں: (۱)اس مہینہ کا عظیم اور بابر کت ہونا۔ (۲)اس میں ایسی رات کا پا یا جا نا جو شب ِقدر کہلاتی ہے اورجو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ (۳)روزوں کا اس میں فرض کیا جانا۔ (۴)اس کی راتوں میں ایک زائد خصوصی نماز یعنی تروایح کا مسنون ہونا۔ (۵)نفل کا موں کے اجر کو فرض کے اجر تک اور فرضوں کے اجر کو ستر فرضوں کے اجر تک بڑھایا جا نا۔ (۶)ایسے اعمال کا دیا جانا جن میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اوراس صبر کے ذریعہ جنت کا موعود ہونا۔ (۷)اس میں غربا ء وفقراء کے تئیں ہم دردی وغم خواری کے جذبہ کا عام کیا جا نا۔ (۸)مسلما نوں کی روزی کا بڑھایا جا نا۔ (۹)دوسرے روزے داروں کو افطار کرانے پر ان کے ثوابوں میں کمی کئے بغیر افطار کرا نے والے کوبھی اتنا ہی ثواب عطاہونا۔ (۰۱)اس کے ابتدائی،در میا نی اور آخری حصوں کو علی الترتیب باعث ِرحمت، وسیلہئ مغفرت اور جہنم سے نجات کا ذریعہ قراردیا جا نا۔ (۱۱)اپنے خادموں اور نوکروں کے کاموں اور ذمہ داریوں میں تخفیف یعنی کمی کر نے پرمغفرت کا ملنا وغیرہ۔ یہ صرف وہ فضائل وخصوصیات ہیں جوصرف ایک حدیث کی روشنی میں ہمارے سامنے آرہی ہیں، ان کے علاوہ بیسیوں اور حدیثیں فضائل ِ رمضان اور اس کی خصوصیات کے بیان پر مشتمل ہیں، ان سب کو سامنے رکھنے اور ان میں غور کر نے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ پاک نے اس ماہ کو تر قی ِباطن وتز کیہئ نفس کا موسم ِبہار بنا دیا ہے۔ کرنے کے اہم کام: ماہ مبارک کی آمد سے پہلے پہلے اس کے مقام،اس کی عظمت، اس کی فضیلت،اس کے مقصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کرلیں؛تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں اوراس بات کا پختہ ارادہ کرلیں کہ ہم اس ماہ مقدس میں اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا ماحصل اور لب لباب ہے۔ان معمولات کی تحدید کرلیں جو حقوق اللہ سے متعلق ہیں،ان معمولات کی بھی حدبندی کرلیں جو حقوق العباد سے متعلق ہیں،پھر ان معمولات کی بھی فہرست بنالیں جو رمضان المبارک میں ادا کرنے ہیں، اگراپنے ساتھ ملازمت وغیرہ کے تقاضے ہیں اورعبادت کے لیے خودکوبالکلیہ فارغ نہیں کرسکتے تو یہ دیکھیں کہ کن کن کاموں کورمضان کی خاطر چھوڑ سکتے ہیں اور کن کن مصروفیات کو مو خرکر سکتے ہیں۔اگر فہرست نہیں بنا سکتے تو کم از کم ذہن میں ایک خاکہ ضرور تیار کر لیں۔ ماہ رمضان کا یومیہ پروگرام ترتیب دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنا ہے،قرآن مجید کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہے اور فرض کے علاوہ نوافل کا بھی بہ کثرت اہتمام کرنا ہے،اس کے لیے یومیہ پروگرام ترتیب دیں جس میں درج ذیل باتوں کا بہ طور خاص ملحوظ رکھیں: (الف) تہجدکا اہتمام۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اور قیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتا ہے۔ (الزمر) (ب) سحری کھانے کا اہتمام۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: سحری کا اہتمام کیاکروکہ اس میں برکت ہے۔(متفق علیہ) (ج) دعا اوراذکار کا اہتمام خاص طورسے اذان اورنماز کے درمیان؛اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:اذان اور نماز کے درمیان کے وقت دعائیں ردنہیں کی جاتیں۔(متفق علیہ) (د)فجر کی سنت اور فرض سے فارغ ہونے کے بعد طلوع شمس تک ذکر اور تلاوت قرآن میں مصروف رہنے کا اہتمام۔نبی کریمﷺ فجرکی نمازکے بعدطلوع شمس تک اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔(مسلم) ایک جگہ ارشادنبوی ﷺہے:جوفجرکی نماز کے بعد طلوع شمس تک اللہ کا ذکرکرتارہا پھردورکعت نماز ادا کی اس کا اجرایک مکمل حج اورعمرے کے مانند ہے۔ (ترمذی) (ہ)دس گیارہ بجے بیدار ہوکر مسائل دین سیکھنے کا اہتمام،بعد ازاں نمازظہرکی تیاری،ظہر سے فراغت کے بعدتقاضا ہو تو قیلولہ کا اہتمام ورنہ قرآن مجید کی تلاوت۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:سحری کھا کر روزے پر اور قیلولہ (دوپہرکے وقت سونے) کے ذریعے رات کی نماز پر مددحاصل کرو۔ (ابن ماجہ) (و)نماز عصر کی تیاری،پھر اس کے بعد افطار تک دعامیں مشغولی۔نماز مغرب اور چھ رکعت صلاۃ الاوابین کا اہتمام۔رسول اللہ ﷺکا ارشاد مبارک ہے: ”جو شخص نماز مغرب کے بعد چھ رکعات (اوابین کی نماز) پڑھے گا، اور ان کے درمیان کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالے گا تو یہ چھ رکعات ثواب میں اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار پائیں گے۔(ترمذی) (ز)نماز عشاء اور مہینہ بھربیس رکعت تراویح کا اہتمام۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعات پڑھتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ) نوٹ: اگرصاحب حیثیت ہیں اور خدانے مال ودولت سے نوازا ہے توغرباپر مال خرچ کریں،رشتے داروں اور پڑوسیوں کااپنی وسعت کے مطابق خاص خیال رکھیں اورروزے داروں کو افطار کرانے کااہتمام کریں؛ کیوں کہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسندہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان رحمتوں سے مستفید ہونے کا موقع نصیب فرمائے اور رمضان کے اوقات کی قدردانی کاجذبہ عطا فرمائے!آمین مرحبا صد مرحبا پھر آمد رمضان ہے! کھل اٹھے مرجھائے دل تازہ ہوا ایمان ہے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں