بی جے پی کے ایجنڈے میں یوں تو بہت سے ایسے اہم نکات ہیں جن کی بنیاد پر وہ عوام کے ایک طبقے کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ لیکن ان میں تین کلیدی ایجنڈے رہے ہیں۔ وہ ہیں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ اور ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ۔ اس نے دو ایجنڈے پورے کر لیے ہیں۔ یعنی ایودھیا میں رام مندر بن گیا اس کا افتتاح بھی ہو گیا۔ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ اب اس کی نظر ملک میں یکساں سول قانون یا یکساں سول کوڈ نافذ کرنے پر ہے۔ اس بارے میں وقتاً فوقتاً بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اب ایک نیا بیان یہ سامنے آیا ہے کہ جلد ہی اتراکھنڈ، گجرات اور آسام میں یکساں سول قانون نافذ ہونے جا رہا ہے۔ اس کے بعد ملک کی دیگر ریاستوں میں اسے نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مذکورہ تینوں ریاستوں میں اس قانون کا نفاذ لوک سبھا انتخابات سے قبل ہو جائے گا۔
اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اتراکھنڈ کی حکومت نے اس کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی تھی اس نے اپنی رپورٹ فائنل کر لی ہے جو عنقریب ریاستی حکومت کو پیش کی جانی ہے۔ اس کے بعد ایک روز کے لیے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے گا اور اس میں اس رپورٹ کو منظوری دی جائے گی اور اس طرح ریاست میں یکساں سول قانون نافذ کر دیا جائے گا۔ قانون کے اس مسودے میں کیا کیا ہے ابھی اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ تاہم ایسا سمجھا جاتا ہے کہ صنفی امتیاز کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یعنی خواتین کو اپنی موروثی املاک میں بھی حصہ ملے گا۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ شادیوں کے لیے کوئی قانون بنایا گیا ہو۔
جہاں تک عورتوں کو والدین کی املاک میں حصہ ملنے کی بات ہے تو اس پر کسی بھی مسلمان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کیونکہ اسلام نے ترکے میں بیٹیوں کو حصہ دینے کا حکم دیا ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں بیٹوں، بیٹیوں، بھتیجوں اور دیگر رشتے داروں کا حصہ لگا دیا گیا ہے کہ کس کو کتنا حصہ ملے گا۔ اس کے مطابق بیٹوں کو دو حصہ ملے گا تو بیٹیوں کو ایک حصہ۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شادی کے بعد بیٹیاں اپنی سسرال میں چلی جاتی ہیں اور ان کی کفالت کی ذمہ داری ان کے شوہروں پر عاید ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین کے ترکے میں انھیں بیٹوں سے کم دیا گیا ہے۔ کیونکہ انھیں شوہر کی جانب سے نان و نفقہ تو مل ہی رہا ہے۔ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوگا جب قانون یہ کہے گا کہ بیٹیوں کو بھی اتنا حصہ ملنا چاہیے جتنا کہ بیٹوں کو ملتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمان عام طور پر بیٹیوں کو ترکے سے ملنے والا حصہ نہیں دیتے اور اس طرح ایک قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہی۔
ویسے اس معاملے پر مسلمانوں سے زیادہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اعتراض ہوگا۔ کیونکہ خاص طور پر ہندو مذہب میں تو بیٹیوں کو والدین کے ترکے سے کچھ نہیں ملتا۔ بلکہ باپ تو بیٹی کا کنیا دان کر دیتا ہے۔ یعنی وہ بیٹی کو اس کے شوہر کو دان دے دیتا ہے۔ اس طرح اس کا رشتہ ایک طرح سے ختم ہو جاتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے جن قرآنی احکام کو چھوڑ دیا ہے ان پر موجودہ حکومت ان سے عمل کروا رہی ہے۔ مثال کے طور پر طلاق ثلاثہ کو ناپسند کیا گیا ہے اور تین طہر میں تین بار طلاق دینے کا حکم ہے۔ لیکن مسلمانوں کا اجتماعی معاملہ یہ ہے کہ بیک وقت طلاق طلاق طلاق بول دیتے ہیں اور پھر جب غصہ فرو ہو جاتا ہے تو کف افسوس ملتے ہیں اور علما کے پاس فتویٰ لینے کے لیے دوڑتے ہیں۔
مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی اور قابل سزا جرم قرار دینے کے لیے قانون بنا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب بھی لوگ اپنی بیویوں کو بیک وقت تین طلاقیں دے رہے ہیں اور نتیجے میں جیل کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس قانون میں جو خامیاں ہیں وہ اپنی جگہ پر۔ لیکن اس سے انکار نہیں کہ مسلم معاشرے میں تین طلاق کو ختم کرنے کی قانونی کوشش کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح یا شرعی احکام پر عمل کرانا نہیں بلکہ اسی بہانے مسلمانوں کو پریشان کرنا اور انھیں جیل میں ڈالنا ہے۔ اسی طرح ترکے میں بیٹیوں کو حصہ دلوانے کا مقصد مسلمانوں سے شرعی حکم پر عمل کروانا نہیں بلکہ ان کو پریشان کرنا اور مسلم معاشرے میں ایک خلجان پیدا کرنا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس معاملے پر ہندوؤں کا کیسا ردعمل ہوتا ہے۔
گجرات تو بہت پہلے ہندوتوا کی تجربہ گاہ بن چکی ہے۔ وہاں مسلمانوں کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما بھی آسام کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنانے کی تن من دھن سے کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے سیکڑوں مدرسوں کو ختم کر کے ان کو اسکولوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ متعدد علما کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے۔ کئی مدرسوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر منہدم کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ہزاروں مسلمانوں کو اس بات کی آڑ میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ انھوں نے کم عمری کی شادی کی ہے، کروائی ہے یا کرنے میں معاونت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ آسام روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا بیان دیتے ہیں جس سے ان کی مسلم دشمنی ظاہر ہوتی اور مسلمانوں کی دلآزاری ہوتی ہے۔
اتراکھنڈ بھی ہندوتوا کی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ اسے دیو بھومی قرار دے کر مسلمانوں کو نکالنے کی کوششیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان سرکاری زمین پر آباد ہیں اور ان کی کالونی گرائی جائے گی۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ مسلم دکانداروں کو دکانیں نہیں دی جائیں گی۔ جن دکانوں میں مسلمان کرایہ دار ہیں ان سے وہ دکانیں خالی کرائی جاتی ہیں۔ نان ویج کی فروخت پر پابندی ہے۔ اور بھی دیگر ایسے متعدد اقدامات کیے جاتے ہیں جو مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہوں۔ اب اسی ریاست میں یکساں سول قانون کے نفاذ کی تیاری کی جا رہی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ مرکزی حکومت قومی سطح پر یکساں سول قانون کے نفاذ کی بات کہہ کر ہنگامہ کھڑا کرنا نہیں چاہتی۔ اس سے قبل جب بھی اس کی جانب سے ایسا کوئی بیان آیا ہے تو اس پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ لہٰذا مرکزی حکومت اس کام کو ریاستوں سے شروع کرنا چاہتی ہے۔ پہلے اتراکھنڈ پھر گجرات اور پھر آسام میں اسے نافذ کر کے اس پر ہونے والے ردعمل کا اندازہ لگایا جائے گا۔ اگر اس پر کوئی زیادہ ہنگامہ نہیں ہوا تو دیگر ریاستوں میں بھی اس نسخے کو آزمایا جائے گا۔ اس سے حکومت کا مقصد ہندو عوام کو یہ بتانا ہے کہ ہم مسلمانوں کی منہ بھرائی یا تشٹی کرن کے خلاف ہیں۔ اس کا جو اندرونی مفہوم ہے اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ سمجھدار ہیں۔
بہرحال رام مندر کے افتتاح سے ملک کے کروڑوں ہندوؤں میں جو جوش پیدا ہوا ہے اس کو زندہ رکھنے کے لیے حکومت اور آر ایس ایس نے کئی منصوبے بنائے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر پروگراموں کو بھی شروع کیا جا رہا ہے تاکہ ایک بڑے طبقے کو اپنا ہمنوا بنایا جا سکے اور اس کی بنیاد پر ووٹ حاصل کر کے تیسری بار مرکز میں حکومت سازی کی جا سکے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں