نئی دہلی : حالیہ دنوں میں آئے دن مسلمان مزدوروں ،ریہڑی پٹری چلانے والوں یا پھیر کرنے والوں کو ہندوتو شدت پسندوں کے اعتراض اور بسا اوقات مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس طرح کے واقعات ملک بھر میں پیش آ رہے ہیں ۔در اصل اس کے پیچھے ہندو تنظیموں کے ذریعہ مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کار فرما ہے۔گزشتہ روز ہفتہ کوراجستھان میں بھی اسی طرح کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک مسلم سبزی فروش کا نام پوچھ کر انشول نامی ایک ہندو نوجوان نے مار پیٹ کی اور مذہب پر مبنی قابل اعتراض تبصرہ کیا۔اس واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ۔جس کی بنیاد پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا ہے۔
راجستھان سے انڈیا ٹو مارو کے لئے رحیم خان کی رپورٹ کے مطابق معاملہ جے پور کے برہم پوری علاقے کا ہے، جہاں ہفتہ کو انشول نامی نوجوان نے ایک مسلمان سبزی فروش سے اس کے مذہب کے بارے میں پوچھ کر اس کی پٹائی کی بیچنے والے کے ساتھ بدسلوکی بھی کی اور ملزم نے اپنے دوست کے ساتھ اس واقعے کی ویڈیو بھی بنائی۔ اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا جو تیزی سے وائرل ہو گیا۔
کیس کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دونوں ملزمان، حملہ کرنے والے نوجوان اور ویڈیو بنانے والے کو گرفتار کرلیا۔ بعد ازاں ملزم نوجوان نے سوشل میڈیا پر اپنے کیے پر معافی بھی مانگ لی۔ سال 2017 میں بھی ملزمان نے پانی کی ٹینک پر چڑھ کر ہنگامہ برپا کیا تھا۔
اس معاملے میں پولیس نے سیتارام بازار گووند باڑی کے رہنے والے انشول ددھیچ اور شیتل ماتا کی ڈنگری کے رہنے والے ہمت سنگھ کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ ملزم انشول نے برہما پوری بس اسٹینڈ کے قریب ایک ریہڑی فروش سے اس کے مذہب کے بارے میں پوچھنے کر اس کے ساتھ بدسلوکی کی۔
اس نے پہلے ہی اپنے ساتھی ہمت سنگھ کو ویڈیو بنانے کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ ویڈیو میں سنا ہے کہ ایک خاتون نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ کسی طرح گاڑی کا مالک وہاں سے چلا گیا ۔
جے پور، راجستھان میں پولیس نے انشول نامی نوجوان کو گرفتار کیا جس نے ایک مسلمان سبزی فروش سے اس کا مذہب پوچھ کر مار پیٹ کی تھی۔ ملزم نوجوان بی جے پی ایم ایل اے بال مکنداچاریہ کا قریبی بتایا جاتا ہے۔ ملزم نے ویڈیو جاری کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے تفتیش شروع کر دی۔ اے سی پی شیو رتن گودارا نے کہا کہ ملزم انشول کی شناخت کر لی گئی اور اسے فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور اس کا موبائل ضبط کر لیا گیا۔ اس کے بعد ویڈیو بنانے والا ہمت سنگھ بھی پکڑا گیا۔ ان دونوں کے خلاف حملہ اور مذہبی جذبات بھڑکانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ کارروائی متاثرہ گاڑی کے مالک کی تحریری شکایت پر کی گئی، جو قریب ہی کرائے پر رہتا ہے۔ ملزم انشول کے موبائل سے کئی قابل اعتراض ویڈیوز بھی ملے ہیں۔ پولیس یہ بھی جانچ رہی ہے کہ اس ویڈیو کو کس نے لائیک اور شیئر کیا۔
ایڈوکیٹ اسلم خان نے کہا کہ 28 ستمبر 2024 کو جے پور شہر میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اقلیتی مسلم کمیونٹی کے ایک غریب سبزی فروش کو بنیاد پرست سوچ کے ایک رکن کی طرف سے مذہبی بنیادوں پر مارا پیٹتے ہوئے دیکھا گیا۔انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم اقلیتی ایڈووکیٹ ایسوسی ایشن کے رکن ایڈوکیٹ وسیم خان نے فوری طور پر اس واقعہ کا نوٹس لیا اور اپنے ساتھی ایڈوکیٹ احد نقوی کے ساتھ سماجی کارکن پپو قریشی سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ برہم پوری پولیس اسٹیشن پہنچے۔
شکایت کنندہ ان کے ساتھ تھانے میں رپورٹ درج کرانے گیا، لیکن جے پور پولیس کمشنر کے حکم کے مطابق، پہلے اطلاعی رپورٹ خود قریب موجود پولیس اہلکار نے پولیس اسٹیشن برہما پوری کو دے دی۔ وہ جگہ جہاں جرم ہوا، جس پر فرسٹ انفارمیشن رپورٹ نمبر 313 درج کی گئی۔
اقلیتی ایڈوکیٹ اسوسی ایشن نے پولیس کمشنر جے پور، پولیس اسٹیشن برہم پوری کے اسٹیشن آفیسر کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے مجرم کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کرکے اسے اس کے ساتھی سمیت گرفتار کرلیا۔
جب نوجوان پر حملہ کی ویڈیو منظر عام پر آئی تو پولیس نے از خود نوٹس لیا اور برہما پوری پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا۔ جے پور پولیس نے بی این ایس 126 (2)، 115 (2)، 3 (5)، 196 (1) (اے)، 196 (1) (بی)، 299، 302، 352، 353 (2) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ملزم انشول اور ہمت سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔