رحمت عالمؐ کی مثالی دوستی

 

ساتھیوں کے درمیان معلمانہ و مشفقانہ کردار کی چند مثالیں

 

جاویدہ بیگم ورنگلی

نبی کریم ﷺ نے صحابہؓ کی اس انداز سے تربیت کی تھی کہ انبیا علیہم السلام کے بعد فضل ومرتبت میں صحابہ کرام کا مقام سب سے عظیم ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے مربی بھی تھے دوست بھی۔ آپ ان کے درمیان گھل مل جایا کرتے اور آپس میں تکلف کا کوئی ماحول نہ ہوتا بلکہ دوستانہ فضا بنی رہتی۔
آپ کے ایک صحابی جن کا نام عبد العزیؓ تھا جن کا نام آپ نے عبداللہ اور لقب ذوالبجادین رکھا۔ بچپن میں یتیم ہو گئے تھے، چچانے پرورش کی اور ان کی مالی حالت کو درست کیا۔ جب عبداللہ نے اسلام کے بارے میں سنا تو توحید کا نور دل پر چھا گیا۔ ایک دن اپنے چچا سے جا کر کہا ’’اے چچا! برسوں اس انتظار میں رہا کہ آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہو۔ میں اب مزید انتظار نہیں کرسکتا۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ مجھے اجازت دیجیے کہ مسلمان ہو جاؤں‘‘۔ چچا نے ڈرایا کہ اگر تو محمد کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے لے لوں گا۔ تیرے جسم پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا۔ عبد اللہ نے جواب دیا ’’میرے پاس جو کچھ ہے لے لیجیے۔ ایک دن ان سب چیزوں کو دنیا میں چھوڑ کر جانا ہی ہے۔ یہ کہہ کر عبداللہ نے جسم کے کپڑے تک اتار دیے اور برہنہ ہو کر ماں کے پاس گئے۔ سارا قصہ کہہ سنایا اور کہا کہ میں محمد (ﷺ) کے پاس جانا چاہتا ہوں، ستر پوشی کے لیے کپڑا دیجے۔ ماں نے ایک کمبل دیا۔ عبداللہ نے اس کو پھاڑا۔ آدھا تہہ بند بنایا آدھا اوپر اوڑھ لیا۔ اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اہل صفہ میں شامل ہو گئے۔ دن بھر بڑے شوق و ذوق نشاط سے قرآن پڑھتے۔ ایک دن حضرت عمرؓ نے کہا ’’ لوگ نماز پڑھتے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہے کہ دوسروں کی قرات میں خلل ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو یہ تو خدا اور اس کے رسول کے لیے سب کچھ چھوڑ کر آیا ہے۔ تبوک کے موقع پر عبد اللہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ائے اللہ کے رسول دعا کیجیے کہ میں بھی راہ خدا میں شہید ہو جاؤں۔ آپ نے ایک درخت کی چھال منگوائی ان کے بازو پر باندھا اور دعا کی کہ ’’الہی دشمنوں پر ان کا خون حرام کر‘‘ عبداللہ نے کہا یا رسول اللہ میں تو شہادت کا طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا ’’جہاد کی نیت سے راستے میں بخار آ گیا اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہی رہو گے۔ چناں چہ راستے میں عبد اللہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کی تدفین کا حال بلال بن حارث اس طرح بیان کرتے ہیں ’’رات کا وقت تھا بلال کے ہاتھ میں چراغ تھا۔ ابوبکر و عمر ان کی لاش لحد میں رکھ رہے ہیں، اللہ کے رسول بھی قبر میں اترے ہیں۔ ابوبکر و عمر سے کہہ رہے تھے ’’اپنے بھائی کا ادب ملحوظ رکھو‘‘ اور اللہ کے رسول نے اپنے ہاتھ سے قبر پر اینٹ رکھی پھر دعا کی الہی آج رات تک میں اس سے خوش رہا ہوں، تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘
ربیعہؓ بن کعب جنہوں نے ایمان لا کر اپنے آپ کو اللہ کے رسول کی خدمت میں وقف کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ایک روز اللہ کے رسول نے مجھ سے پوچھا ربیعہ! کیا تم شادی نہیں کرو گے۔ میں نے عرض کیا یہ میرا دل نہیں چاہتا کہ کوئی چیز آپ کی خدمت میں آڑے آئے اور میں اس قابل نہیں ہوں کہ بیوی کے اخراجات برداشت کروں۔ یہ سن کر آپ خاموش ہو گئے۔ چند دن اسی طرح گزر گئے۔ پھر ایک روز آپ نے پوچھا ’’ربیعہ کیا خیال ہے تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘ میں نے پھر وہی پہلے جیسا جواب دیا۔ مگر فوراً دل میں خیال آیا کہ مجھے یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ اللہ کے رسول مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ دین و دنیا میں میرے لیے کیا بہتر ہے اور میری مالی حالت سے بھی خوب واقف ہیں تو میں نے فیصلہ کیا کہ آپ شادی کے متعلق پوچھیں گے تو انکار نہیں کروں گا۔ میں نے عرض کیا ہاں اے اللہ کے رسول برضا و رغبت تیار ہوں۔ آپ یہ سن کر خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا تم فلاں کے گھر جاؤ، اہل خانہ کو سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ اللہ کا رسول تمہیں حکم دیتا ہے کہ ربیعہ کو اپنا داماد بناؤ۔ میں گیا اہل خانہ کو حضور کا پیغام سنایا۔ وہ بغیر کسی پس و پیش کے تیار ہو گئے۔ میں واپس بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور کہا کہ وہ آپ کے حکم سنتے ہی مجھے داماد بنانے کے لیےتیار ہو گئے ۔ مگر یا رسول اللہ میں اب اپنی بیوی کو مہر کہاں سے دوں؟ یہ سن کر آپ مسکرائے اور بنو اسلم کے سردار بریدہ کو حکم دیا کہ ربیعہ کے لیے سونے کی ڈلی کا انتظام کرے۔ اس نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ یہ سونے کی ڈلی لے جاؤ اور اہل خانہ کو کہنا یہ آپ کی بیٹی کا مہر ہے۔ انہوں نے اس مہر کو خوشی سے قبول کر لیا۔ میں نے آپ سے عرض کیا یا رسول میں اب ولیمہ کہاں سے کروں۔ آپ نے فرمایا کہ گھبر انہیں اپنے قوم بنو اسلم کے سردار کو بلا لاؤ۔ جب بریدہ آئے تو آپ نے فرمایا بریدہ! اپنے قوم کے اس فرد کی خوشی میں شریک ہوتے ہوئے ایک مینڈھےکا انتظام کرو تاکہ ولیمہ ادا کر سکے‘‘ بریدہ نے ایک موٹا تازہ مینڈھا خرید کر آپ کی خدمت میں حاضر کیا پھر آپ نے ارشاد فرمایا ’’عائشہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم کو آٹا دے دے۔ حضرت عائشہ نے حضور کا پیام سن کر کہا کہ برتن میں جو کا آٹا ہے وہ لے جاؤ۔ وہ تقریبا بیس سیر تھا۔ میں مینڈھا اور آٹا لے کر سسرال کے گھر گیا یہ دونوں چیزیں ان کے سپرد کیں۔ انہوں نے کہا ’’روٹیاں ہم تیار کر دیتے ہیں اور مینڈھا اپنے دوستوں سے کہو ذبح کر کے پکادیں۔لہذا میری قوم کے چند لوگوں نے مینڈھا ذبح کر کے پکا دیا۔ روٹیاں اور سالن تیار ہو گیا تو میں نے ولیمہ پر اللہ کے رسول کو بھی دعوت دی۔ جو آپ نے بخوشی قبول کی اور اس میں شرکت کر کے میری حوصلہ افزائی کی۔
حضرت حذیفہ بن یمان جو خاندانی اعتبار سے مکی، پیدائشی اعتبار سے مدنی تھے مسلمان ماں باپ کے آغوش میں تربیت پائی اور ایمان کی دولت پائی۔ بچپن ہی سے رسول اللہ ﷺ کے حالات سنے اور آپ کے اوصاف حمیدہ معلوم کرنے کا انتہائی شوق تھا۔ ہر دم یہی فکر رہا کرتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوں۔ جب حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تو دست بستہ عرض کی کہ حضور میں مہاجر ہوں یا انصاری؟ آپ نے ارشاد فرمایا ’’چاہو مہاجر کہلاؤ یا انصاری تمہیں مکمل اختیار ہے۔ انہوں نے کہا میں انصاری بننا پسند کروں گا۔ جنگ احد میں آپ کے والد حضرت یمان پہچانے نہ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ جب رسول اللہ کو حقیقت حال کا علم ہوا تو آپ نے حضرت حذیفہ کو ان کے باپ کی دیت دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضرت حذیفہ نے کہا یا رسول اللہ! میرے والد شہادت کی تمنا رکھتے تھے۔ ان کی تمنا پوری ہوئی۔ پھر کہنے لگے الہی تو گواہ رہنا میں نے یہ دیت مسلمانوں کے لیے وقف کر دی۔ اس بات نے آپ کا ایک مقام پیدا کر دیا۔ اس کے علاوہ حضرت حذیفہ میں کچھ خصوصی خوبیاں تھیں جیسے راز داری کو سینے میں محفوظ رکھنے کا ایسا ملکہ کہ کسی کو بھی خبر نہ ہو۔ مدینہ منورہ میں منافقین رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کو مسلسل نقصان پہنچانے کی سازشوں میں لگے رہتے تھے۔ آپ نے حضرت حذیفہ ان کو منافقین کے نام بتا دیے تھے۔ یہ ایک سربستہ راز تھا جو آپ نے حضرت حذیفہ کے علاوہ کسی کو نہ بتایا اور حکم دیا کہ ان منافقین کی حرکات کا خیال رکھیں تاکہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ان کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ اس دن سے حضرت حذیفہ کو راز دان رسول ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا۔
حضرت ابو سفیان بن حارث جو رسول اللہ ﷺ کے خاص چچا زاد بھائی آپ کے ہم عمر تھے۔ آپ نبوت سے سرفراز ہونے سے پہلے آپ کے خاص دوست تھے مگر جب آپ نبوت سے سرفراز ہوئے اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے سامنے حق کی دعوت پیش کی آخرت کے عذاب سے ڈرایا تو ابوسفیان بن حارث کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور آپ کو تکلیف پہنچانے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ عداوت کا دور بیس سال پر محیط ہے۔ جب ابوسفیان بن حارث کو حضور کی مکہ پر چڑھائی کی خبر مل گئی اور ادھر اہل خانہ ان کو ایمان لانے کی ترغیب دیتے رہے اور وہ حضور سے ملاقات کے لیے آئے تو آپ نے ان کی طرف سے رخ پھیرا اور بے رخی کا انداز اختیار کیا، جس کے نتیجے میں صحابہ کرام نے بھی بے رخی کا رویہ اختیار کیا۔ جنگ حنین کے موقع پر مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو ابوسفیان بن حارث سر بکف میدان میں نکل آئے۔ حضور اکرم ﷺ کے بائیں طرف کا مورچہ سنبھال لیا دائیں ہاتھ میں تلوار سے آپ کا دفاع کر رہے تھے۔ بائیں ہاتھ سے آپ کے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی۔ حضور ﷺ کی دائیں جانب حضرت عباس تھے جب اللہ کے رسول نے حضرت ابوسفیان بن حارث کو اپنا دفاع کرتے ہوئے دیکھا تو حضرت عباس سے پوچھا کون ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کا چچا زاد بھائی ابو سفیان بن حارث ہے، آج آپ اسے معاف کر دیں، اس پر راضی ہو جائیں، یہ سن کر آپ نے ارشاد فرمایا آج میں اس سے راضی ہوں اور ساتھ ہی یہ دعا کی۔
’’الہی اس کی ہر دو عداوت معاف کر دے جو اس نے میرے ساتھ روا رکھی تھی‘‘
ایک دن رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ ابوسفیان بن حارث پہلے ہی سے مسجد میں موجود تھے۔ آپ نے حضرت عائشہ سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’تم جانتی ہو یہ کون ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا میرا چچازاد بھائی ابوسفیان بن حارث ہے۔ یہ مسجد میں سب سے پہلے آتا ہے اور سب کے بعد جاتا ہے اور راستے میں چلتے ہوئے اپنی نگاہیں زمین پر گاڑے رکھتا ہے آنکھ اٹھا کر ادھر ادھر نہیں دیکھتا۔
حضرت جریر بن عبد اللہ علی، آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، حجرہ مبارکہ میں بہت سے صحابہ موجود تھے اس لیے حضرت جریرؓ دروازے پر ہی بیٹھ گئے۔ آپ نے دائیں بائیں دیکھا جب کوئی جگہ نظر نہیں آئی تو اپنی چادر مبارک لپیٹ کر حضرت جریرؓ کی طرف پھینک دی اور فرمایا اس پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت جریر چادر مبارک کو اپنے سینے سے لگایا بوسہ دیا۔ پھر آپ کو واپس کر دیا۔ احتراماً اس پر نہیں بیٹھے اور عرض کیا کہ
آپ نے میری عزت افزائی کی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو بھی عزت عطا فرمائے۔
حضرت نعمان ؓبن عمر انصاری جو بڑے خوش دل اور مزاح پسند صحابی تھے۔ مدینہ میں جب بھی کوئی نئی چیز آتی تو یہ ضرور خریدتے تھے۔ ایک مرتبہ کھانے پینے کا کوئی سامان خرید کر حضور کی خدمت میں پیش کیا اور کہا کہ یہ آپ کے لیے ہدیہ ہے۔ جب وہ سودا فروش قیمت وصول کرنے ان کے پاس آیا تو اسے لے کر آپ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اس کی قیمت ادا کر دیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اسے مجھے ہدیہ نہیں کیا تھا؟ کہنے لگے کہ خدا کی قسم میری خواہش تھی کہ آپ اسے تناول فرمائیں لیکن میرے پاس اس کی قیمت نہیں تھی کہ ادا کرتا۔ یہ سن کر آپ مسکرانے لگے اور قیمت ادا کرنے کا حکم دیا۔ ایک مرتبہ ایک اعرابی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی اونٹنی صحن میں باندھ دی۔ بعض صحابہ کرامؓ نے حضرت نعمانؓ انصاری سے کہا کہ گوشت کھانے کے لیے دل بہت چاہتا ہے وہ اونٹنی جو صحن میں بندھی ہوئی ہے اس کو ذبح کردو تو گوشت کا انتظام ہو جائے گا۔ چناں چہ حضرت نعمان انصاریؓ نے اس کو ذبح کر دیا۔ جب اعرابی باہر نکلا اور اپنی اونٹنی کو ذبح دیکھا تو بولے اے محمد! اسے کس نے ذبح کر دیا؟ ان کی آواز سن کر رسول اللہ ﷺ باہر نکلے پوچھا کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا ’’نعمان نے‘‘ آپ ان کی تلاش میں نکلے انہیں خباغہ بن زبیر بن عبدالمطلب کے گھر میں پایا۔ وہاں وہ ایک سرنگ جیسی جگہ میں چھپ گئے تھے۔ ایک آدمی نے آپ کو اس جگہ کی طرف اشارہ کیا پھر آپ نے ان کو وہاں سے نکالا اور پوچھا کہ کس چیز نے تم کو اس کام پر آمادہ کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ جن لوگوں نے آپ کی مجھ تک رہنمائی کی ہے انہی لوگوں کے کہنے پر میں نے یہ کام کیا ہے۔ یہ سن کر آپ مسکرا دیے اور ان کے چہرے سے مٹی صاف کی اور اعرابی کو اونٹنی کی قیمت ادا کی۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ کنویں پر نہا رہے تھے۔ ایک صحابی آپ کے پاس تھے۔ جب تک آپ نہاتے رہے وہ پردہ کے لیے کھڑے رہے۔ جب آپ فارغ ہو گئے تو صحابی نے نہانا شروع کیا تو حضور ان کی اوٹ کر کے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے منع بھی کیا لیکن جب تک وہ نہاتے رہے آپ اسی طرح کھڑے رہے۔ یہ چند واقعات ہیں جن کو پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اپنے دوستوں سے کیسی محبت تھی۔

 

«
»

مغربی بنگال کی جیلیں مسلم قیدیوں کا مقتل کیوں بن رہی ہیں؟

بچوں کے ادب میں اخلاقی قدروں کی اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے