مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت نے عام انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا، انہیں معصوم بنایا، یعنی گناہوں کے ارتکاب سے ان کی حفاظت کی، پھر ان کی زندگی کو نمونہ بنا کر ان کی پیروی کا حکم دیا گیا، تمام انبیاء کی شریعتیں منسوخ ہو گئیں اور اب اسلام وہ ہے جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، یہ اسلام قیامت تک باقی رہے گا کوئی نیا نبی ورسول نہیں آئے گا، اس لیے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، اب ہر معاملات ومسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اسوہ اور نمونہ ہے، اور اسی پر چل کر انسان کامیابی وکامرانی حاصل کر سکتا ہے، فلاح دارین اسی میں ہے، دنیا بھی بنے گی اور آخرت بھی، ہمارا ایمان، یقین اور عقیدہ ہے کہ مثالی شخصیت صرف آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، دوسرا کوئی نہیں، دوسرے کسی کی اگر ہم مانتے ہیں تو اس لیے کہ وہ اللہ کے احکام کے مطابق حکم دیتا ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر خود بھی چلتا ہے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتا ہے۔ اللہ رب العزت سے محبت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ پوری زندگی سنت کے مطابق گذاری جائے او ر اتباع رسول کو زندگی کا نصب العین بنالیا جائے۔
ربیع الاول کا مہینہ آہی چلا ہے، یہ اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے، ربیع کے معنی عربی میں بہار کے آتے ہیں، اس کا پہلا حصہ وہ ہوتا ہے جس میں خزاں رسیدہ پیڑ پودوں پر ہریالی آتی ہے، درخت پتوں کا لباس پہنتے ہیں،غنچے چٹکتے ہیں، پھول کھلتے ہیں، اسی مناسبت سے عرب موسم بہار کے آغاز کو ربیع الاول کہتے ہیں ، دوسرا دور وہ ہوتا ہے جب پھل پکنے لگتے ہیں اور ان کی خوشبو مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہے، عرب اسے بھی موسم بہار سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن یہ ربیع الثانی ہوتا ہے۔
اس مہینہ میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اس بات کا اشارہ تھا کہ اب دنیا میں باد بہاری چلے گی، خزاں رسیدہ انسانیت میں روح پھونکی جائے گی، دنیا کو ظلمت وجہالت سے نجات ملے گی اور قتل وغارت گری کا بازار سرد پڑے گا۔ چنانچہ اس مہینے کی ۹؍ تاریخ، اپریل ۵۷۰ء میں بروز سوموار آقا صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے، سسکتی اور بلکتی انسانیت کے لیے سکون اور امن کا پیام لائے، اس مہینہ کی عظمت ہمارے دلوں میں اسی وجہ سے ہے، چیزیں نسبتوں سے ممتاز ہوتی ہیں، اس مہینہ کو آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص نسبت ہے، ایسی نسبت جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس مہینہ میں ولادت با سعادت کے علاوہ دوسرے اہم واقعات بھی ہوئے،اسی ماہ میں آپ نے ہجرت کا سفر کیا اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے، اذان کی ابتدا ہوئی، غزوہ بنی نضیر اور غزوۃ دومۃ الجندل اسی مہینہ میں پیش آیا، جس میں مشرکین جنگ کے بغیر فرار ہو گیے، اسی ماہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف فرمانرواؤں کو دعوتی خطوط ارسال کیے، قبائل تہامہ نے اسلام قبول کیا اور اسی مہینہ کی بارہ تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا سانحہ پیش آیا۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ربیع الاول کے مہینے میں آتی ہے، اور وہ صرف بارہ ربیع الاول تک ، بارہ ربیع الاول گذرا اور محبت کی ساری گرمی ، سردی میںبدل جاتی ہے، پھر اس مہینے میں بھی مسلمان محبت رسول کے نام پر جو کچھ کرتے ہیں، اس کا کوئی ثبوت نہ توحیات مبارکہ میں ملتا ہے، نہ ہی تابعین اور تبع تابعین کے دور میں ، یہ بعد کی ایجاد ہے اور اس میں بہت سارے امور غیر شرعی انجام دیے جاتے ہیں، جو محبت رسول کے خلاف ہے، جیسے ڈی جے پر گانے، نوجوانوں کا رقص ، اس درمیان آنے والی نمازوں سے غفلت وغیرہ۔
ہمیں اس ماہ اور موقع کو اللہ ورسول کی مرضیات کے مطابق گذارنا چاہیے، ہمارا حال یہ ہے کہ ہم میں سے بیش تر نے سیرت پاک کا مطالعہ نہیں کیا ہے، میں تقریر کرنے اور سننے کی بات نہیں کرتا، مطالعہ کی بات کرتا ہوں، مکمل حیات مبارکہ کے مطالعہ کی بات ، حیات مبارکہ کی جانکاری نہ ہو تو اپنی زندگی کو اس نمونہ پرکیسے ڈھالا جا سکتا ہے، اس لیے اس ماہ مبارک میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ از اول تا آخر پیدائش سے لے کر وفات تک آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں، اس کے لیے کوئی معتبر کتاب خواہ مختصر ہو یا مطول، اپنے ذوق کے مطابق منتخب کرکے مطالعہ شروع کردیں، مختصر کتاب میں رحمت عالم بھی ہو سکتی ہے اور علامہ شبلی، مولانا سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی بھی ، مولانا ابو البرکات دانا پوری کی اصح السیر بھی ہوسکتی ہے اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی ؒ کی سیرت المصطفیٰ بھی، اپنی پسند کے اعتبار سے از اول تا آخر مطالعہ کیجئے، حیات مبارکہ کے مختلف واقعات وحوادثات سے نتائج اخذ کیجئے اور اپنی زندگی کو اس راہ پر ڈال دیجئے، سیرت کا مطالعہ آپ کی زندگی کی بہت ساری الجھن اور پریشانی کے حل کا ذریعہ بن جائے گا۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت کا بڑا ذریعہ درود شریف کا کثرت سے اہتمام ہے، ہمارے یہاں درود شریف یا تو نماز کے قعدہ اخیرۃ میں پڑھی جاتی ہے یا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر منعقد جلسوں میں ، جو نماز سے محروم ہیں، دینی جلسوں سے جنہیں نفور ہے، انہیں سالہا سال درود شریف پڑھنے کی نوبت نہیں آتی، درود شریف پڑھنے کے طریقوں پر جھگڑے ہوتے ہیں، لیکن درود شریف پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی، ماہ ربیع الاول آ رہا ہے کیوں نہ اس ماہ میں درود شریف اس کثر ت سے پڑھیں کہ یہ عبادت سے گذر کر ہم لوگوں کی عادت بن جائے ، جب کسی چیز کی عادت ہوجاتی ہے تو اس کے بغیر چین نہیں آتا ، ایک ماہ کی اس مشق سے ہمیں درود شریف کثرت سے پڑھنے کی عادت پڑ سکتی ہے، پھر سال بھر یہ ہمارے معمول کا حصہ بن جائے گا، اس سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت بھی نصیب ہوگی، حوض کوثر پر پیالہ بھی ملے گا اور شفاعت کے بھی ہم حقدار ہوں گے ، فائدہ ہی فائدہ ہے اور نفع ہی نفع۔
اس ماہ میں ہم سوشل میڈیا کا استعمال کرکے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر احادیث کو دو سروں تک پہونچا سکتے ہیں، یہ دوسرے آپ کے دوست بھی ہو سکتے ہیں، مسلم بھی اور غیر مسلم بھی ، اگر ہم پورے التزام سے مہینہ بھر اس کام کو کریں تو ہم بہتوں کی غلط فہمی دور کرسکیں گے اور بہتوں کو خیر کے کاموں پر ابھار سکیں گے ، مثلا لوگوں میں اچھا وہ ہے جو لوگوں کے لیے نفع بخش ہو، راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا صدقہ ہے، لا یعنی باتوں اور فضول بحثوں میں نہ پڑو، سلام کو رواج دو، حسد مت کرو، بغض مت رکھو ، بھائی بھائی بن کر رہو، اعمال کا مدار نیتوں پر ہے ، دین آسان ہے، نظر بد حق ہے، حیا ایمان کا حصہ ہے، جلد بازی شیطان کا کام ہے، نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے، پاکی آدھا ایمان ہے، جو خاموش رہا اس نے نجات پائی، مردوں کی برائی مت کرو ، کسی نیکی کو حقیر نہ کہووغیرہ آپ کرکے دیکھیں، اس کے بہت سارے فوائد آپ کے مشاہدے میں آئیں گے۔
تجربہ سے معلوم ہوا کہ عصری درسگاہ ہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات میں اسلامی معلومات کی کمی ہوتی ہے، سیرت پاک کے حوالہ سے بھی ان کی معلومات عموما سطحی ہوتی ہے، اس لیے اس ماہ میں طلبہ وطالبات کے لیے الگ الگ سیرت کوئز ، مقابلوں کا انعقاد کرنا چاہیے،مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لیے بھی الگ سے مسابقاتی پروگرام ہونے چاہیے، کامیاب طلبہ وطلبات کو اچھا انعام دیا جائے؛ تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور آئندہ سیرت پاک کے بارے میں زیادہ جاننے کا شوق پیدا ہو، ان مسابقوں کی جماعت بندی ان کی عمر اور درجات کے اعتبار سے ہوتو زیادہ بہتر ہے، ورنہ بعض اچھے طلبہ کی حق تلفی کا امکان ہے۔
کوشش یہ بھی کی جائے کہ اس ماہ میں ہماری مجلسی گفتگو کا موضوع بھی سیرت پاک ہی ہو، اس سے عوامی بیداری آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے، سمجھنے کی پیدا ہوگی، اور عمل کا ماحول بنے گا، جن حضرات کو اللہ تعالیٰ نے صاحب قلم بنایا ہے، وہ سیرت پاک کے مختلف گوشوں پر آسان زبان میں صحیح معلومات لوگوں تک پہونچانے کا کام کریں، اس سے خود ان کو بھی مطالعہ کی توفیق مل جائے گی اور اشاعت کے بعد قارئین کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا، اس عمل سے بھی ایک ماحول بنے گا اور ہمارے لیے ممکن ہوگا کہ صحیح معلومات پر عمل کرکے اپنی دنیا وآخرت سنبھال لیں، کمر ہمت کس لیجئے، ہمت مرداں مدد خدا، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، انسان کو کوشش کے بقدر ہی ملتا ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں