ابونصر فاروق
اسلام کے متعلق جو اچھی باتیں لوگ تقریروں میں سنتے ہیں یا کتابوں میں پڑھتے ہیں، جب وہ اپنے سماج میں ان باتوں کو دیکھنا اور اس کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو اُن کو شدید مایوسی ہوتی ہے کہ ایسی باتوں کا تو آج کی دنیا میں کہیں کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب تصوراتی باتیں ہیں اس لئے عملی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔اور وہ سنی سنائی باتوں کی بنیادپر جس اسلام کو اپنائے ہوئے ہیں اُسی پرکسی خدشے اور خوف کے بغیرپورے اطمینان سے عمل کرتے رہتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ لوگ گناہ کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہی نہیں کہ اُن کا یہ گناہ اُن کو ایمان اور اسلام سے محروم کئے دے رہا ہے۔ وہ جنت کی جگہ جہنم کے حقدار بن رہے ہیں۔
جب کچھ خیر پسند اور اسلام کا صحیح علم رکھنے والے لوگوں کو سمجھانے اور سیدھی راہ د کھانے کی کوشش کرتے ہیں تو عام مسلمان جو کسی نہ کسی فرقے سے جڑا ہوا ہے، اُس کے فرقے والے پوری شدت کے ساتھ اُس کو سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جن لوگوں کی باتیں تم نے سنی ہے وہ خود گمراہ لوگ ہیں۔ نہ اُن کی باتیں سنو نہ اُن سے دوستی رکھو اورنہ اُن کے ساتھ کوئی تعلق رکھو۔اس طرح گھپ اندھیرے میں جہاں روشنی کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو شیطانی طاقتیں پوری قوت اور زور کے ساتھ اُس روشنی کی کرن کے چاروں طرف گہرے اندھیرے کی چادر تان دیتی ہیں تاکہ اُن کی پیروی کرنے والا جسے اُنہوں نے اپنا غلام بنا رکھا ہے کہیں اُن سے باغی نہ ہو جائے۔ یہ کام صرف ایک فرقے والے نہیں بلکہ اس وقت مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں سب کے سب یہی کر رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو بھی کافر، منافق، فاسق اور گمراہ قرار دے رہے ہیں اور عام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف ویسے ہی مخالف اور دشمن بنا رہے ہیں جیسے ہمارے ملک میں فرقہ پرست غیر مسلم اپنی قوم کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر اُن کے دماغ کو زہریلا بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ماننے والوں کو قرآن پڑھنے کی تعلیم نہیں دیتے۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو اپنے پیچھے چلنے والوں کو قرآن معنی اور مفہوم کے ساتھ پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ قرآن صرف عالم یا عربی زبان جاننے والا معنی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔اس طرح یہ لوگ وہی کام کرتے ہیں جو نبیﷺ کے زمانے میں کافر اور مشرک لوگ کر رہے تھے۔اس بات کو نیچے کی آیتوں میں پڑھئے:
منکرین حق کہتے ہیں اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اس طرح تم غالب آ جاؤ۔(۶۲)ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھا کر رہیں گے اور جو بد ترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں، اُن کا پورا پورا بدلہ اُنہیں دیں گے۔(۷۲)وہ دوزخ ہے جو اللہ کے دشمنوں کو بدلے میں ملے گی۔ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُن کا گھر ہوگا ۔یہ ہے سزا اُس جرم کی کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔(۸۲)وہاں یہ کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب،ذرا ہمیں دکھا دے اُن جنوں اور انسانوں کو جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں گے تاکہ وہ خوب ذلیل و خوار ہوں۔(۹۲)جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے،یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (۰۳) ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہوگے تمہیں ملے گااور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔(۱۳)یہ ہے ضیافت کاسامان اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ (۲۳) اور اُس شخص سے اچھی بات اورکس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ (آیت: ۳۳) اور اے نبی نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں،تم بدی کو اُس نیکی سے دور کر و جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ جس کے ساتھ تمہاری عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ (۴۳) یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں۔اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔(۵۳)اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو،وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(حم السجدہ:۶۲تا۶۳)
ان آیتوں میں پہلی بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ قرآن کی تعلیم سے روکنے والے مومن یا مسلم نہیں کافر ہیں اور انہیں جہنم کی سخت سزا دی جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ جو لوگ اُن کے پیچھے چل رہے ہیں اور آنکھ بند کر کے اُن کی باتیں مان رہے ہیں جب وہ بھی جہنم میں جانے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ”اے ہمارے رب،ذرا ہمیں دکھا دے اُن جنوں اور انسانوں کو جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں گے تاکہ وہ خوب ذلیل و خوار ہوں۔
ٍ تیسری بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ جن لوگوں نے قرآن کی باتوں پر ایمان لاکر اللہ کو اپنا رب بنا لیا اور اُس کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو گئے اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُن کے پاس آتے ہیں اور اُنہیں خوش خبری دیتے ہیں کہ اب زندگی میں تمہارے لئے نہ جان جانے کا خوف ہے اور نہ کسی چیز کے نقصان کا غم ہوگا۔ اب ہم زندگی بھر تمہارے ساتھ رہیں گے دنیا سے لے کر آخرت تک۔ اس دنیا کے بعد جب تم دوسری دنیا میں جاؤ گے تو”وہاں جو کچھ تم چاہوگے تمہیں ملے گااور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔ یہ ہے ضیافت کاسامان اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔
چوتھی بات یہ کہی جا رہی ہے کہ جو اللہ کے سچے بندے ہوتے ہیں اُن کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی فرقے یا جماعت یا انجمن کی طرف نہیں بلکہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اور وہ ہمیشہ نیکی کے کام کرتے ہیں۔ اُن کی ذات سے کسی بدی کا اظہار ہوتا ہی نہیں ہے۔ اُن سے کسی کو کوئی نقصان پہنچتا ہی نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ نیک عمل کرتے رہتے ہیں اور اُن کی زندگی، اُن کے کام، اُن کے معاملات، اُن کا رکھ رکھاؤ، اُن کی باتیں، اُن کا رویہ اور اُن کا برتاؤ سب گواہی دیتا رہتا ہے کہ یہ سچے مسلمان ہیں۔
پانچویں بات یہ کہی جا رہی ہے کہ جب تم سچے اور پکے مسلمان بن گئے تو تم کو نیکی اور بدی میں فرق کرنا چاہئے۔جو تمہارے پرانے ساتھی ابھی بھی گمراہی میں مبتلا ہیں وہ اب تمہارے دوست نہیں رہیں گے بلکہ دشمن بن جائیں گے۔لیکن تم اُن کے ساتھ کبھی بھی بد اخلاقی کا طریقہ مت اختیار کرنا۔ نیکی اور بدی ایک طرح کی چیز نہیں ہے۔تم اُن کی برائیوں کاجواب اور بدلہ نیکیوں سے دینا۔ پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے رویے سے وہ بھی سچ اورجھوٹ کا فرق پہچان لیں گے اور وہ بھی اپنے پرانے ساتھیوں کو چھوڑ کر تمہارے جگری دوست بن جائیں گے۔
پانچویں بات یہ کہی جارہی ہے کہ یہ اچھااور دل موہ لینے والا طور طریقہ نقلی مذہب پر چلنے والوں میں کبھی پیدا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔یہ صفت توصرف اُن لوگوں کے اندر پیدا ہوتی ہے جو اللہ کے نام پر دین کی راہ میں آنے والی ہر آزمائش اور پریشانی کا سامنا ڈٹ کر بہادری کے ساتھ کرتے ہیں۔ حسین عمل کا یہ مقام صرف اُن لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو بڑے نصیبے والے ہیں۔
چھٹی بات یہ کہی جا رہی ہے کہ جب تم یہ طریقہ اپناؤ گے تو شیطان جو ایمان والوں کادشمن ہے وہ تم کو بہکائے گا اور اکسائے گا کہ جو لوگ تم کو برا کہہ رہے ہیں، تمہارے ساتھ برائی کر رہے ہیں، تم بھی اُن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دو، لیکن تم کبھی بھی ایسا مت کرنا، بلکہ اُس وقت شیطان کی اکساہٹ سے بچنے کے لئے کثرت کے ساتھ اللہ سے توبہ استغفار کرتے رہنا۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اورتم کو گمراہ ہونے سے بچا لے گا۔ وہ اپنے بندوں کی ہر وقت نگرانی اور حفاظت کرتا رہتا ہے۔ نیک بننے والوں کا مددگار اللہ تعالیٰ بن جاتا ہے اور اُن سے دشمنی کرنے والوں کی بدمعاشی کابدلہ بھی وہی دیتا ہے۔
”جن لوگوں نے اپنے ر ب کی دعوت قبول کر لی، اُن کے لئے بھلائی ہے اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو و ہ خد اکی پکڑ سے بچنے کے لئے اس سب کو فدیے میں دے ڈالنے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا،اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ بہت ہی بر ا ٹھکانہ۔“(الرعد:۸۱)
رب کی دعوت قبول کرنے کا مطلب ہے قرآن کی باتیں ماننا اوراُن پر عمل کرنا جو لوگ ایسا نہ کریں غور کیجئے کہ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ اُن کے متعلق کیا فرما رہا ہے؟ جو لوگ قرآن کے احکام اور اُن کی پیروی کرنے سے غافل ہوکر صرف دنیا اور دولت کمانے میں لگے ہوئے ہیں اُن کا کیا انجام ہونے والا ہے؟ اور جو لوگ دین کے نام پر قرآن کی تعلیم دینے کی جگہ عام مسلمانوں کو جن بیکار کی باتوں میں الجھانے میں لگے ہوئے ہیں وہ اُن کے ساتھ ہمدردی اورخیر خواہی کر رہے ہیں یا عداوت اور دشمنی کر رہے ہیں ؟ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ مومن مومن کا بھائی ہے۔اہل ایمان کو اپنا بھائی سمجھ کر اُن کی ہمدردی اور خیر خواہی میں اُن کو نصیحت کرنے، اُن کو صحیح راستہ دکھانے اور گمراہی سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور دین کے نام پر اُن کے ساتھ جو لوگ فراڈ کر رہے ہیں جب اُن کے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کیا جاتا ہے،تو یہ لوگ نصیحت کرنے والے کوکافر اور گمراہ بتا کر اور اُس کے خلاف محاذ کھول مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسائے رکھنے میں اور تیزی دکھانے لگتے ہیں۔ دین مبین اور مسلم ملت کے ساتھ یہ اُن کی ہمدردی اور دوستی ہے یا عداوت اور دشمنی؟
خدا کے واسطے غفلت کی نیند سے جاگئے اور اپنی دنیا او ر آخرت کو برباد ہونے سے بچانے کی فکر کیجئے۔جب موت کا فرشتہ آ کر آپ کو دنیا سے لے جائے گا اور اگر اُس وقت آپ کو ہوش آیا تو بیکار ہوگا کیونکہ قرآن کہتا ہے:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں، جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔(۹) جو رزق ہم نے تم کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اُس وقت وہ کہے کہ اے میرے رب کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔(۰۱)حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو اللہ اُس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا،اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے باخبر ہے۔(منافقون:۹تا۱۱)
اے غافل انسان سنبھل جا، شیطاں کی چالوں سے نکل جا
موت سے کوئی بچ نہ سکا ہے، تو بھی اس سے بچ نہ سکے گا
قبر میں جب تو تنہا ہوگا، تیری مدد کو کون آئے گا
اپنے سب بیگانے ہوں گے، حشر میں پھر تو پچھتائے گا
جواب دیں