گائے کے گوشت کی معمولی شکایت پر بھی پولیس جس مستعدی کے ساتھ کارروائی کرتی ہے اس سے سب واقف ہیں ۔خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف کارروائی کیلئے صرف گائے کے گوشت کا الزام ہی کافی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ روز پیر کا ہے۔بھوٹ تھانہ کے تحت دھنو پورہ گاؤں میں شادی کی تقریبات کا سلسلہ چل رہا تھا ،منگل کو بارات آنی تھی اور پیر کی شام کومہمان بھات کی رسم میں جمع ہوئے تھے اور کھانا کھا رہے تھے اسی دوران پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم گائے کے گوشت پکائے جانے کے شبہ میں گھر میں پہنچی اور کھانا کھانے کے دوران جمع مہمانوں سے بد سلوکی کی اور توڑ پھوڑ کرنے لگی ۔ جب انہوں نے احتجاج کیا تو انہوں نے گھر والوں کی پٹائی بھی کی۔ الزام ہے کہ پولیس اہلکاروں نے 3 لاکھ روپے بھی چھین لیے۔
رپورٹ کے مطابق بھوٹ تھانہ علاقہ کے دھنوپورہ گاؤں کے محمد احمد کی بیٹی کی شادی کی بارات منگل کو آنے والی تھی۔ اس کے لیے پیر کو مہمانوں کو کھانا کھلانے کا کام جاری تھا۔لواحقین نے بتایا کہ پولیس کو شبہ تھا کہ کھانے میں گائے کا گوشت استعمال کیا گیا ہے۔ الزام ہے کہ تفتیش کے لیے آئی پولیس نے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور کھانا بھی پھینک دیا۔ الزام ہے کہ پولیس والوں نے بھات میں دی گئی رقم بھی لوٹ لی
واقعہ کے بعد اہل خانہ میں خوف و ہراس ہے۔ جبکہ اس کے برعکس بھوٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج امر سنگھ راٹھور کا دعویٰ مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس ایک قاتلانہ حملے کے ایک ملزم کی تلاش میں نکلی تھی۔انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف الزامات کی تحقیقات کی جائیں گی۔
متاثرہ کے اہل خانہ نے بتایا کہ کچھ پولیس والے اچانک گھر میں گھس گئے اور ان کی پٹائی کی۔ تین لاکھ روپے بھی چھین لیے۔ اہل خانہ نے بتایا کہ بیٹی کی شادی کی بارات منگل کو گھر آنی تھی، پیر کی رات بھانجیوں کا کھانا جاری تھا۔ اسی دوران کئی پولیس والے وہاں پہنچے اور ان کی پٹائی کی اور چیزیں پھینک دیں۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے کئی لوگوں کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے اور تین لاکھ روپے بھی لے گئے۔ پولیس نے خواتین اور مردوں کو بھی زدوکوب کیا۔ واقعہ کے بعد لوگ خوفزدہ ہیں۔