حفیظ نعمانی
برسوں یہ طریقہ رہا ہے کہ ملک کے عوام پریشان ہوئے اور کسی لیڈر نے آواز دی تو ہر طرف سے قافلے آئے اور حکومت سے مطالبہ شروع ہوگیا۔ یا کسی لیڈر سے اس کی کارگذاریوں کی وجہ سے اتنی محبت ہوئی کہ وہ جہاں گیا وہاں خلقت ٹوٹ پڑی۔ پھر وہ زمانہ آیا کہ عوام کو کچھ لالچ دے کر بلایا جانے لگا۔ یا پارٹی کے ٹکٹ کے طلب گاروں نے کرایہ کے آدمی لاکر اپنی مقبولیت دکھائی۔ اور اب برسوں سے یہ ہوگیا ہے کہ نااہل حکمراں ٹولہ کو یہ دکھانے کے لئے کہ وہ جو بھی کررہے ہیں ٹھیک ہے دیہاتوں اور قصبوں سے روز ملنے والی مزدوری شراب کی بوتل اور کھانے کے بدلے ٹرکوں میں بھر بھرکر ان کو لایا جانے لگا۔ اور یہ مقبولیت کا معیار ہوگیا کہ کس کے جلسے میں کتنے لاکھ آدمی آئے یا کتنی کرسیاں خالی رہ گئیں۔
نومبر کے آخری دو دنوں میں دہلی میں جو پورے ملک سے کسان آئے وہ خریدے ہوئے یا کسی لالچ کی وجہ سے نہیں آئے تھے ہریانہ، پنجاب، اترپردیش، بہار، بنگال ہی نہیں تمل ناڈو اور کیرالہ سے بھی جو کسانوں کے جتھے آئے یہ ان کے خلوص کا اثر ہے کہ ملک کی ہر مخالف پارٹی کا لیڈر ان کے استقبال اور ان کے موقف کی حمایت کرنے کے لئے زنجیر بناکر کھڑا ہوگیا کشمیر کے فاروق عبداللہ، مہاراشٹر کے شردپوار، سی پی ایم کے سیتارام یچوری، کانگریس کے راہل گاندھی، عام آدمی پارٹی کے کجریوال، کسانوں کے لیڈروں یوگیندر یادو، اتل کمار رنجان وغیرہ سے ملنے کیلئے دوڑے دوڑے آئے اور اپنی غیرمشروط حمایت کا یقین دلاکر ان کی حوصلہ افزائی کی۔
این ڈی ٹی وی انڈیا کے روش کمار دونوں دن گھنٹوں ان کے ساتھ رہے اور ہر طرف کے کسانوں سے یہ جاننا چاہا کہ جس وزیراعظم کی زبان کسان کسان کہتے گھسی جارہی ہے اور جو اپنی تقریر میں ہر جگہ یہ بتانا نہیں بھولتے کہ انہوں نے کسانوں کے لئے وہ کردیا ہے جو آج تک کسی حکومت نے سوچا بھی نہیں تھا تو پھر یہ تماشہ کس نے کھڑا کیا ہے اور کیوں کھڑا کیا ہے۔
وزیراعظم بار بار کہتے ہیں کہ انہوں نے فصل کی قیمت ڈیڑھ گنا کردی اور فصلوں کے بیمہ کا انتظام کرکے کسانوں کو یہ اطمینان دلادیا کہ فصل اچھی ہو یا سوکھا مار جائے یا سیلاب میں ڈوب جائیں انہیں بیمہ کے ذریعہ پوری رقم مل جائے گی۔ اور کسانوں نے جو بتایا اس کا حاصل یہ ہے کہ فصلوں کا بیمہ ہی غریب کسانوں کو دوہری مار مار رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ گجرات اور پنجاب جیسے صوبوں میں کسانوں کو گاؤں میں بینک اور بیمہ کی سہولت ہوتی ہو مشرقی اور جنوبی اترپردیش یا بہار، اُڑیسہ اور بنگال کے جیسے گاؤں میں جہاں ہر طرف کچے مکان جھونپڑے اور زیادہ سے زیادہ ٹین پڑی ہو وہاں کیسے بینک اور کیسی بیمہ کمپنی؟ ہم نے گورکھ پور کی دیہاتی سیٹ کا ایک الیکشن میں دورہ کیا تھا بینک بیمہ تو بڑی بات ہے کسی گاؤں میں گھنٹوں تلاش کرنے کے بعد کوئی ایسی دُکان بھی نہیں ملی جہاں سے کوئی کھانے کی چیز مل جاتی ایک گاؤں میں ایک مکان کے باہر فٹافٹ بھوجنالیہ لکھا دیکھا تو اس پر ٹوٹ پڑے۔ وہاں انہوں نے پانچوں کو ایک ایک تھال پکڑا دیا جس میں ستو اور گڑ کی ڈلی رکھی تھی۔
وزیراعظم جب کسان کا لفظ بولتے ہیں تو وہ غلط نہیں بولتے ان کی مراد اُن کسانوں سے ہوتی ہے جن کے ہر فرد کے نام کم از کم 50 بیگھہ زمین ہوتی ہے ہر فرد کے پاس موٹر سائیکل ایک ٹریکٹر اور ایک گاڑی ہر طرف پکی سڑکیں اور عالیشان یا کم درجہ کے گھر پکے مکان اور جن ہزاروں کسانوں نے دہلی پر ہلہ بولا تھا ان میں نہ جانے کتنے ننگے پاؤں تھے اور دہلی کی سردی کے مقابلہ کے لئے 90 فیصدی لوگوں کے پاس کمبل یا گرم چادر بھی نہیں تھی۔ سیکڑوں عورتیں بھی تھیں جو صرف رونق بڑھانے کے لئے نہیں اپنے ذاتی مسائل کے لئے آئی تھیں ان میں وہ بھی تھیں جن کے شوہر نے خودکشی کرلی اور اب وہ کھیت میں کام کررہی ہیں مگر سسرال والے زمین اس کے نام نہیں ہونے دیتے اور جو عورتیں باقاعدہ کھیتوں میں کام کررہی ہیں اور وہی مالک بھی ہیں لیکن ان کو کسانوں والی کوئی رعایت نہیں ملتی۔
چھوٹے بڑے کسانوں کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک بار چودھری چرن سنگھ کو حکومت بنانے کے لئے ممبروں کی ضرورت تھی اور اتنے ممبر راج نرائن کے پاس تھے۔ ہم ایک کام سے چودھری صاحب کے پاس گئے تو خلاف معمول مسکراکر کرسی کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ اور گہری سوچ میں چپ بیٹھے رہے۔ چند منٹ کے بعد ہم نے کہا کہ اجازت دیجئے میں کسی اور وقت آجاؤں گا۔ انہوں نے روک لیا چند منٹ کے بعد سکریٹری آئے اور انہوں نے ایک فائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے اندازہ سے بھی زیادہ ہے۔
ہم نے سکریٹری کے جانے کے بعد معلوم کیا کہ کوئی پریشانی کی بات ہے کیا؟ چودھری صاحب نے کہا کہ راج نرائن حمایت دینے کی یہ شرط رکھ رہے ہیں کہ جتنے کسانوں کے پاس 6 بیگھہ یا اس سے کم زمین ہے ان کا لگان معاف کردیا جائے تو حمایت دے دوں گا۔ (یہ الگ بات ہے کہ ہماری نظر میں ان کا مقام بہت بڑھ گیا کہ اپنے لئے کچھ نہیں مانگا)۔ ہم نے چودھری صاحب سے کہا کہ چھ بیگھہ بھی زمین کوئی مسئلہ ہے کتنے کسان ایسے ہوں گے کہنے لگے تم پچھم کے رہنے والے ہو تمہیں کیا خبر کہ پورب میں لاکھوں کسان ایسے ہیں کہ ان سے معلوم کرو کہ کیا کرتے ہو تو جواب دیں گے کہ زمیندار ہیں۔ اگر معلوم کرو کہ کتنی زمین ہے تو جواب دیں گے کہ پانچ بسوہ اور ان کا لگان ہی ختم کردیا جائے تو حکومت ہل جائے گی۔
ایسے کسانوں کی زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یا لالہ کے پاس سود میں چلے جاتے ہیں یا بیمہ کے پریمیم میں اس ملک میں 70 فیصدی کسان ہیں اور بڑی تعداد ان کی ہے جو اپنے کھیت میں ہی کام کرتے ہیں اور اتنے پیسے بھی نہیں ملتے جتنے مزدوری میں مل جاتے ہیں۔ بنیادی غلطی یہ ہے کہ ایک سیٹھ کو وزیر زراعت بنا دیا جاتا ہے وہ پانچ بسوہ والے کروڑوں کے چکر میں پھنسنے کے بجائے بڑے بڑے فارموں کے مالک کسانوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بناتے ہیں اور انہیں ہر اسکیم کا فائدہ دے کر ان سے ان کے پورے علاقے کے ووٹ لے لیتے ہیں وہ بڑے کسان جن کے پاس 100-100 بیگھہ زمین ہے وہ نہ دہلی آتے ہیں نہ ممبئی اور جو 15-15 کلومیٹر روزانہ پیدل چل کر آتے ہیں ان کے ریزگاری جیسے مسائل ایک وزیر زراعت کیا حل کرے گا؟ جب 70 فیصدی آبادی ان کی ہے تو ان کے لئے ایک کسان بورڈ بنایا جائے جس میں یوگیندر یادو، اتل کمار انجان اور کنہیا کمار جیسے 25 بااختیار ممبر ہوں اور وہ جو فیصلہ کردیں اس پر عمل کیا جائے اور تمام چھوٹے کسانوں کو بیمہ کے جال میں نہ پھنسنے دیا جائے جب وہ پڑھ اور لکھ نہیں سکتے تو کیا کرلیں گے
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:03ڈسمبر2018(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں