حکومت تو جس کی بھی ہو وہ اندھی اور بہری ہوتی ہے اور کوئی حکومت نہیں ہے جو پولیس، سی آئی ڈی، سی بی سی آئی ڈی اور ایس ٹی ایف کے بل پر نہ چلتی ہو؟ لیکن حیرت تو عدالتوں پر ہے کہ وہ ان جھوٹے اور بے ایمانوں سے یہ تک نہیں معلوم کرتی کہ جنہیں پکڑکر لائے ہو کیا وہ اس حیثیت کے ہیں کہ انہیں آر ڈی ایکس بھی مل جائے اور اے کے 47 بھی اور دستی بم بھی جو صرف فوج کے بہت بڑے افسروں کے علاوہ کسی کے پاس ہو ہی نہیں سکتے؟
جھوٹی اور انتہائی جھوٹی ایس ٹی ایف نے جس جلال الدین اور نوشاد کو گرفتار کیا تھا کیا عدالت نے انہیں دیکھ کر قیافہ شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ یہ سمجھ سکے کہ ان پر جو الزام لگائے جارہے ہیں اس کے متعلق تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے؟ آر ڈی ایکس کو ایس ٹی ایف نے کنڈے کی راکھ سمجھ لیا ہے کہ جو چاہے جس گاؤں سے جاکر بورے میں بھر لائے۔ اگر مسلمان لڑکوں کے پاس کوئی چیز مل سکتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ دیسی کٹےّ ہوسکتے ہیں یا ایسے پٹاخے جو بم کی شکل کے بنائے گئے ہوں اور کاریگر زیادہ تر مسلمان ہوں۔
ہمارے گھر لکھنؤ میں بھی اور انتہائی قریبی عزیزوں کے پاس سنبھل میں بھی نہ جانے کتنے لائسنسی اسلحے ہیں۔ نوجوانی اور جوانی میں بندوق سے بھی شکار کھیلا اور رائفل سے بھی۔ لیکن آج تک کسی کے منھ پر اے کے 47 کا نام بھی نہیں آیا۔ ایس ٹی ایف سے نہ حکومت کبھی معلوم کرتی ہے اور نہ عدالت کہ ایسے معمولی اور حقیر لڑکوں کے پاس وہ ہتھیار اور بم یا بم بنانے کا سامان کس فوجی گودام سے آتا ہے؟ اور یہ کیوں سننے میں نہیں آتا کہ ایس ٹی ایف آر ڈی ایکس کے لانے و الے لڑکوں کے ذریعہ فوج کے ان بے ایمان افسروں تک پہونچنے میں کامیاب ہوگئی جو ایک بوری نوٹ لے کر دو بوری آر ڈی ایکس اور اے کے 47 پسٹل، ریوالور اور ٹھیلے بھر بھر کارتوس دے دیتے ہیں؟
یہ کوئی 2014 ء کے بعد کی بات نہیں ہے۔ ان میں سے تقریباً تمام ہی کیس کانگریس حکومت کے زمانہ کے ہیں۔ ایس ٹی ایف نے صرف اس لئے کہ وہ جو حرام کی تنخواہیں لے رہی ہے اور انڈین مجاہدین نام کی خود اپنی ہاتھ بنائی ہوئی تنظیم سے نہ دودھ نکال پارہی ہے نہ موت۔ اس نے تھک کر ایک دوسری تنظیم حرکت المجاہدین (ہوجی) کا بھوت دکھاکر اپنی حکومت کے کم عقلوں اور عدالتوں کی کرسیوں پر بیٹھے انصاف کے بھگوانوں کو ہوجی کے بھوتوں سے ڈرانے کا ناٹک شروع کردیا ہے۔ ہماری حکومتوں اور عدالتوں نے کیوں یہ ضروری نہیں سمجھا کہ ان سے کہے کہ ہوجی کے دفتر اور اس کے عہدیداروں کی تفصیل لے کر آؤ۔ ’’انڈین مجاہدین‘‘ سے برسوں یہ ایجنسیاں کھیلتی رہیں۔ یہ جانے بغیر کہ یہ جہالت کا نمونہ کوئی تعلیم یافتہ مسلمان اپنے قلم سے لکھ ہی نہیں سکتا۔ پاکستان میں لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین نام کی جتنی تنظیمیں ہیں۔ ہر ہندوستانی وزیر اور جج کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی تنظیم میں پاکستان کا نام یا اشارہ نہیں ہے اور ہر ایک کے معنیٰ ایسے ہیں جو معمولی پڑھے لکھے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ حرکت المجاہدین کے معنیٰ ہیں مجاہدوں کی حرکت۔ حرکت مجاہد کی بھی ہوتی ہے اور شیطان یا بدمعاش کی بھی جیسے کہیں بھی کوئی شرمناک واقعہ ہوجائے تو ہر پڑھے لکھے کے منھ سے نکلتا ہے کہ ’’ہو نہ ہو یہ کسی ایسے کی حرکت ہے؟‘‘ یعنی ذلیل آدمی کی حرکت ہے۔ حرکت المجاہدین ان ہی جاہلوں کا رکھا ہوا نام ہے جنہوں نے انڈین مجاہدین رکھا تھا۔
ہندوستان میں 100 کروڑ ہندو بتائے جاتے ہیں۔ ووٹ کی طاقت کے لئے انہیں بھی ہندوؤں میں شامل کرلیا ہے جو ہندو نہیں ہیں۔ ہمارے نہ جانے کتنے جاٹ دوست کہا کرتے تھے کہ ہم ہندو نہیں ہیں۔ یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ سب ٹی وی اور بی جے پی کی دین ہے۔ چودھری چرن سنگھ جب تک زندہ رہے جاٹوں کے سب سے بڑے لیڈر مانے گئے۔ ان کے اکلوتے بیٹے کے تلک میں ہم بھی شریک تھے جب ہال مہمانوں سے بھر گیا تو انہوں نے کہا کہ دیر کاہے کی ہے؟ ان کے سیاسی ساتھیوں نے کہا کہ پنڈت جی آجائیں۔ چودھری صاحب بولے اور تم میں جو پندرہ سے زیادہ پنڈت (برہمن) ہیں وہ کس مرض کی دوا ہیں؟
چودھری صاحب کے اس جملہ کے بعد سب نے بہ آواز بلند اشلوک پڑھنا شروع کردیئے۔ مشکل سے دس منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے کہا کہ بس اب ختم کرو میں آریہ سماجی ہوں۔ اور چودھری صاحب سب سے الگ ایک کونہ میں بیٹھے رہے۔ سب کے تلک لگایا جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ میرے مسلمان ساتھیوں کا خیال رکھنا۔ یعنی ان کے نہ لگانا اور پھر برفی کا ایک ٹکڑا اور ایک الائچی سے تواضع کرکے سب سے اجازت لی اور اندر چلے گئے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک تلک سماجوادی لیڈروں کا وہ بھی تھا جس میں دولھا ملائم سنگھ کا پوتا تھا اور دُلہن لالو یادو کی بیٹی۔ جسے سب نے شاہی تلک کہا تھا۔ اور انہیں بھی ہندو کہا جاتا ہے جو تمل ناڈو میں رہتے ہیں۔ سب نے دیکھا ہوگا کہ پورا شمالی ہند دسہرہ اور درگا پوجا منا رہا تھا اور چنئی کا اسٹیڈیم 50 ہزار تماشائیوں کو گود میں سمائے ساؤتھ افریقہ اور ہندوستان کا میچ دیکھ رہا تھا اور وہ بھی ہندو ہیں جو بنگال میں رہتے ہیں اور گوشت کی دکانوں پر گائے کے گوشت پر چاندی کے ورق لگے ہوئے بکتا دیکھتے ہیں۔ اور وہ بھی ہندو ہیں جو ڈیڑھ برس سے اتنے نازک مزاج ہوگئے ہیں کہ گائے کی کمر پر مسلمان کا ہاتھ رکھا ہوا دیکھ لیتے ہیں تو مندروں سے اعلان کرا دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے گائے کاٹنے کا ارادہ کرلیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اتنے اختلاف کے باوجود سب ایسے پارسا ہیں کہ نہ ان کے پاس سے کبھی آر ڈی ایکس نکلتا ہے نہ اے کے 47 نہ بم اور نہ کارتوس؟ اور انہوں نے جو دو درجن سینا بنائی ہیں ان کے جیالے کہیں بم بناتے ہوئے مرجاتے ہیں کہیں اپنے بنائے ہوئے بم مالے گاؤں، حیدر آباد، اجمیر اور کہیں بھی رکھ کر بے گناہوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں ان میں سے کسی ایک کو گرفتار کرکے یہ نہیں کہا کہ ان کے پاس سے کتنا آر ڈی ایکس برآمد ہوا کتنے اے کے 47 ریوالور اور کتنے کارتوس؟
کل جن چھ مسلمان بے گناہ نوجوانوں کو ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً رہا کیا ہے۔ ان کے آٹھ برس کون واپس کرے گا؟ ہر وہ حکومت اور عدالت گندے کوڑے میں پھینک دینے کے قابل ہے جو یہ دیکھتی ہے کہ ایس ٹی ایف نے نوجوان مسلمانوں کو صرف اس لئے گرفتار کیا تھا کہ ان کی حرام خوری کی وجہ سے ان کا محکمہ ہی ختم نہ کردیا جائے؟ کل جو نوجوان باعزت بری ہوئے ہیں انہیں باعزت کہنا حکومت اور عدالت کا اپنے کو ماں کی گالی دینے سے زیادہ بدتر ہے۔ اب تک اس ملک کی اندھی حکومتوں اور عدالتوں نے سیکڑوں مسلمانوں کو صرف اس لئے بری کیا ہے کہ ان کے خلاف ثبوت ہی نہیں تھے اور ثبوت اس لئے نہیں تھے کہ جن بے ایمانوں اور حرام خوروں نے انہیں گرفتار کیا تھا اس وقت بھی ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ لیکن انہیں حکومت کی طاقت ملی ہوئی تھی۔
ہمارا ملک دنیا کا اس معاملہ میں سب سے بدترین ملک ہے کہ اس کے خزانہ میں انصاف نہیں ہے۔ اب تک ایسی ایجنسیوں نے جتنے بھی مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے ان کو ایسی ایسی اذیت دی ہے کہ اگر یہ مسلمان نوجوان ان کو اتنی ہی اذیتیں دیتے تو وہ دس گھنٹوں میں دھرم بدل دیتے اور جب انہیں عدالت کے سپرد کیا ہے تو وہ صرف اس لئے زندہ تھے کہ وہ مسلمان تھے اور ہر مقدمہ ثبوت کے نہ ہونے سے جب ختم کرنا پڑرہا ہے تو کوئی عدالت کیوں ایک مہینے میں فیصلہ نہیں کرتی جبکہ جو اُن کے پاس سے برآمد دکھایا ہے وہ ثبوت ہے؟ اور حکومت کیوں اس بارے میں مداخلت نہیں کرتی کہ انہیں بغیر مقدمے کے برسوں کیوں بند رکھا جاتا ہے؟ اور کوئی کیوں یہ نہیں کہتا کہ جھوٹے مقدمے قائم کرنے کے جرم میں ان مسلم دشمنوں اور حرام خوروں کو عمرقید کی سزا دی جائے؟
ہمیں حکومت نے 9 مہینے جیل میں بند رکھا۔ پھر 20 سے زیادہ مقدمات چلائے جو تین برس چلے اور ہر مقدمہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ جسے جرم کہا گیا ہے وہ آزادئ تحریر ہے۔ پھر ایک مضمون پر مقدمہ چلا وہ 20 برس چلا اور ختم ہوگیا۔ ہم نے اپنے دوست وکیلوں سے کہا کہ کیوں نہ استغاثہ کیا جائے یعنی ایسے مقدمے چلانے کے جرم میں جن میں کوئی قانون کی خلاف ورزی نہیں تھی۔ ہم اپنے ہرجانہ کا مقدمہ چلائیں؟ اتفاق سے سب نے ایک ہی بات کہی کہ آپ کو حق ہے اور آپ جیت بھی جائیں گے۔ لیکن اس کا آخری فیصلہ 25 سال میں ہو یا 50 سال میں اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اور آپ کا جتنا روپیہ خرچ ہوگا اس سے تو بہت زیادہ ضرور مل جائے گا لیکن جو وقت خراب ہوگا کیا آپ اسے برداشت کرپائیں گے؟ اور اس کا مظاہرہ آخری بیس برس چلنے والے مقدمہ سے ہوا کہ اس کے درمیان ہم حج بھی کرآئے سات مہینے اپنے بیٹے بیٹی کے پاس مدینہ منورہ میں رہ آئے اور مقدمہ کی پیشیاں ہوتی رہیں اور فیصلہ اس لئے نہیں ہوا کہ حکومت کے چوٹی کے افسر اس میں پھنس رہے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک جھوٹے مقدمے قائم کرنے والوں کو بدترین سزا نہیں دی جائے گی اور وہ اس لئے نہیں ہوگا ہندو افسروں کو انعام دیا جاتا ہے سزا نہیں۔
جواب دیں