مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
علامہ محمد باقر مجتہد جعفری دہلوی بن محمد اکبر بن محمد اشرف سلمانی بن اخوند محمد شکوہ الہمدانی بن اخوندمحمدعاشور الہمدانی بن اخوند محمدیوسف الہمدانی بن اخوندمحمد ابراہیم الہمدانی ہندوستان کے پہلے صحافی تھے، جنہیں حب الوطنی اور اپنے اخبار کے ذریعہ جذبہ جہاد کو شعلہ جوالہ بنانے کی پاداش میں علی اختلاف الاقوال توپ سے اڑا دیا گیا یا گولی ماردی گئی۔
علامہ محمد باقر کے آباء و اجداد ایران کے مشہور شہر ہمدان کے رہنے والے تھے،ان کے پردادا کے والد مولانا محمد شکوہ شاہ عالم کے دور میں نقل مکانی کرکے دہلی آگئے تھے، دربار میں ان کی پذیرائی تھی، چنانچہ شاہ عالم نے ان کا وظیفہ بھی مقرر کررکھا تھا،علامہ محمد باقر مجتہد کی پیدائش دہلی میں ہوئی؛لیکن صحیح مہ وسال دستیاب نہیں ہیں،اس سلسلے میں۔۔اقوال 1780ء،1790ء اور1810ء مختلف سوانح نگاروں نے ذکر کیا ہے،آچارو قرآئن سے 1780ء مطابق1205ھ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد محمد اکبر سے حاصل کی، بعد میں انہوں نے میاں عبدالرزاق کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا جو دہلی کے نامور عالم تھے،1825ء میں اعلی تعلیم کے لیے دہلی کالج میں داخل ہوئے، ان کی غیر معمولی صلاحیت اور علمی قابلیت کے طفیل لارڈ ولیم پینٹنگ کی جانب سے انہیں اعزاز بھی دیا گیا۔
مادر علمی کے نامور فرزند ہونے کی وجہ سے فراغت کے بعد1828ء میں ان کی تقرری دہلی کالج میں ہوگئی،1836ء تک وہ اسی ادارہ سے منسلک ہو کر خدمات انجام دیتے رہے، اس زمانے میں کالج کے پرنسپل مسٹر ٹیلر تھے، انہوں نے علامہ باقر سے فارسی زبان وادب کی تعلیم حاصل کی،استاد و شاگردی کا یہ رشتہ جلد ہی دوستی میں بدل گیا، یہ ایسی دوستی تھی جو دو نظریہ کے حاملین کے درمیان تھی، وہ سولہ برس تک تحصیلدار اور کلکٹر بھی رہے،وہ شاہ جہاں آباد کے کلکٹر مٹکاف کے کہنے پر تدریسی کام چھوڑ کر کلکٹری کرنے لگے، بعد میں ترقی کرکے تحصیلدار بنے، علامہ باقر نے مسٹر ٹیلر سے دوستی کا فائدہ اٹھایا اور دہلی کالج کا ایک پریس جو کالج کی نصابی کتابوں کی طباعت کے لئے قائم کیا گیا تھااورنصابی کتابوں کی طباعت کے بعد بے فائدہ پڑا ہوا تھا، اسے مسٹر ٹیلر سے کہہ سن کر خرید لیا بعد میں دہلی اردو اخبار کی اشاعت کے لئے علامہ باقر کی یہ ضرورت بن گیا، علامہ چونکہ ملازمت میں تھے اس لیے عرصہ تک ان کا نام اخبار میں شائع نہیں ہوتا تھا،1848ء سے ان کا نام اس اخبارپر بحیثیت مہتمم نظر آتا ہے، اس کے قبل1843ء میں انہوں نے ایک مذہبی رسالہ''مظہر حق'' کے نام سے بھی نکالنا شروع کر دیا تھا،1805ء میں ملازمت ترک کرنے کے بعد وہ حوزہئ علمیہ میں درس وتدریس کاکام کرنے لگے۔
علامہ باقر کی شادی ایرانی خاتون امانی خانم سے ہوئی تھی، جن سے ایک لڑکا محمد حسین آزاد اور ایک لڑکی تولد ہوئی اورامانی خانم راہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئیں، دوسری شادی ماسٹر حسینی کے بہن سے ہوئی تھی۔
1836ء میں علامہ باقر نے پریس خریدا، 1837ء سے باقاعدہ ''دہلی اردو اخبار''نکالنا شروع کیا، انگریز حکومت کے ذریعہ پریس ایکٹ میں تبدیلی کے بعدیہ ممکن ہوسکا کہ کوئی دیسی اخبار نکالا جاسکے، اکیس برسوں تک اس اخبار نے انگریزوں کی نیند حرام کررکھی تھی،1857ء میں یہ اخبار آزاد ی ئ ہند کے متوالوں کا ترجمان بن گیا، اس دوران مسٹر ٹیلر کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالاگیا، ایک دن قبل وہ علامہ باقر کے گھر میں ٹھرا تھا،لیکن موقع کی نزاکت کی وجہ سے علامہ باقر کا زیادہ دنوں اپنے گھر میں ٹھرانا ممکن نہیں تھا، اس لیے انہوں نے اسے ہندوستانی کپڑوں میں اپنے گھر سے باہر جانے دیا کہ لوگ اسے نہیں پہچانیں گے،لیکن ایسا نہیں ہوا،تھوڑی دوری پر ہی آزادی کے متوالوں نے اسے پہچان لیا اور موت کی نیند سلا دیا۔
جب دہلی پر دوبارہ انگریزوں کا تسلط ہوا تو علامہ باقر کو مسٹر ٹیلر کے قتل میں ماخوذ کیا گیا اور گرفتاری کے دو دن بعد بغیر مقدمہ چلائے بعض قول کے مطابق توپ سے اڑا دیا گیا اور بعض نے لکھا ہے کہ گولی مارکر شہید کردیاگیا،تاریخ 16/ستمبر1857ء کی تھی، جس نے گولی ماری اس کا نام ویلیم اسٹیفن رائکس ہوڈسن تھا جسے ایک سال بعد1858ء میں لکھنؤ کی بیگم کوٹھی میں کسی نے گولی مارکر دنیا سے روانہ کردیا۔
علامہ باقر جعفری کا تعلق اثنا عشری شیعہ سے تھا، وہ مذہبی علوم میں درک رکھتے تھے اور عملی طور پر مذہب کے پابند تھے، اہل تشع میں انہیں مذہبی معلومات کی وجہ سے مجتہد کا مقام حاصل تھا۔
آغا محمد طاہر نبیرہ آزاد نے لکھا ہے کہ''علامہ محمد باقر شہید شیعوں کے مجتہد تھے''انہوں نے دہلی میں 1260ء مطابق1843ھ درگاہ پنجہ شریف کے قریب”آزاد منزل“ کے نام سے امام بارگاہ بھی بنوایا تھا،جس کی تاریخ استاذ ذوق دہلوی نے ''تعزیت گاہ امام دارین اور”مؤمن خان مؤمن“نے نذر شہداء سے نکالی تھی''لیکن اس میں اصحاب رسول پر تبرا کرنے سے انہوں نے روک دیا تھا، ان کے اس عمل کی وجہ سے اہل سنت والجماعت میں بھی ان کی شبیہ اچھی تھی،اپنے دوست ٹیلر کے مشورے سے ایرانی تاجروں کے لئے انہوں نے ایک سرائے بھی بنوائی تھی، وہ شہر کے مالدار لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔
علامہ باقر کشمیری کا قیام کشمیری دروازہ علاقہ میں کھڑکی ابراہیم خاں میں تھا۔وہاں انہوں نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی، جس کا نام کھجور والی مسجد تھا۔
علامہ باقر کی اہمیت ان کے مجاہد آزادی اور پہلے شہید صحافی کی حیثیت سے ہے، جنہوں نے حق لکھنے اور بولنے کی پاداش میں شہادت پائی، المیہ یہ ہے کہ نہ مجاہدین آزادی کی حیثیت سے انہیں یاد رکھا گیا اور نہ ہی شہید صحافی کی حیثیت سے،حالاں کہ ہر یوم آزادی پر ہم''جو شہید ہوتے ہیں ان کی ذرا یاد کرو قربانی''پڑھ کر اورسن کر ایک جذبہ اور جوش اپنے اندر محسوس کرتے ہیں،لیکن ہمیں انہیں یاد کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالو
چنانچہ علامہ محمد باقر جعفری نے کلکٹری اور تحصیلدای چھوڑ کر اخبار نکالنا شروع کیا، شروع میں اس اخبار میں دنیا جہاں کی خبریں، دربار معلی کے شعراء حضرات کے کلام اور انگریزوں کے نقل و حرکت سے متعلق چیزیں اشاعت پذیر ہوتی تھیں۔قلعہ معلی سے متعلق خبریں ''حضور والا'' اور انگریزوں سے متعلق خبریں ''صاحب کلاں ''کے عنوان کے تحت درج ہوتی تھیں، اخبار میں تعلیم کے فروغ پر بھی مضامین ہوا کرتے تھے۔دھیرے دھیرے یہ مجاہدین آزادی کا ترجمان بن گیا اور اس حد تک بن گیا کہ اس اخبار کا نام بدل کر بہادر شاہ ظفر کے نام پر ”اخبار الظفر“ کردیا گیا اور خصوصیت سے بہادر شاہ ظفر اور لال قلعہ دہلی کی حرکات و سکنات اور اس سے متعلق خبریں زیادہ شائع ہونے لگیں، دوسرے علاقوں کی خبریں جن کا تعلق آزادی اور ثقافت سے ہوتا وہ بھی اس اخبار میں جگہ پالیتیں۔
اس زمانہ میں پیغام رسانی اور ذرائع ابلاغ کا وہ پھیلاؤ نہیں تھا جو آج ہمیں دستیاب ہے،لیکن علامہ باقر کے اخبار میں دور دراز کی خبروں کی اشاعت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک بڑا وسیع تھا، شاید اس کام میں باغی فوجی دستے اور مجاہدین آزادی کا تعاون انہیں حاصل تھا۔
علامہ محمد باقر کی نگاہ بڑی دوررس تھی جب انگریزوں نے اس بات کا پرچار شروع کیا کہ کارتوس پر سور کی چربی نہیں ہے، اس کا مقصد مسلمانوں کے ذریعہ ہندؤں پر کارتوس کا استعمال تھا تو علامہ باقر نے اس سازش کو پہچان لیا اور اس کے خلاف اپنے اخبار میں لکھ کر ہندو مسلم دونوں کو آگاہ کیا تاکہ وہ اس سازش کا شکار نہ ہوں، انہوں نے انگریزوں کی دھوکہ بازی کو بے نقاب کیا اور ہندوستان کے راجاؤں کو للکارا کہ وہ انگریزوں کا ساتھ نہ دیں۔انہوں نے بنی آدم کو اعضائے یک دیگرند کہہ کر ہندو مسلم اتحاد کی دعوت دی اور لکھا کہ اسلام میں اہل کتاب کے ساتھ جس رعایت کا ذکر ہے وہ ان کے لئے نہیں ہے،کیوں کہ یہ اہل کتاب ہیں ہی نہیں۔
علامہ محمد باقر صرف صحافی ہی نہیں تھے،انہیں تصنیف تالیف کا بھی اچھا ملکہ تھا،وہ بلند پایہ مصنف اور اچھے مؤرخ تھے،ان کی تصنیفات میں سیف صارف المعروف بہ شمسیر تیر،ہادی التواریخ،رسالہ مباہلہ،ہادی المخارج،ہادی الایمان،مفیدا لعلوم،رسالہ نکاح،رسالہ قرأت،کتاب التقلیب،سفینہئنجات،کتاب حدوث مذاہب،رسالہ عید غدیر،تفسیر انما ولیکم،تفسیر ولایت،اعتقادات حسنہ، آیت تطہیرمشہور معروف ہیں،ان میں سے زیادہ کے موضوعات مذہبی اور مناظرہ بازی سے متعلق ہیں۔
علامہ باقر فارسی اور اردو کے اچھے شاعربھی تھے،ان کے اشعار کے نمونے مختلف کتابوں میں دستیاب ہیں،اس سے ان کی شاعرانہ عظمت کا پتہ چلتا ہے،اردو سے زایدہ فارسی اشعار میں پختگی معلوم ہوتی ہے،مزاج ان کا مناظرانہ تھا،اس لئے خیالات میں ترفع کی کمی ہے،اس کے باوجود ان کی شاعری خاصہ کی چیز ہے۔
۶۱/ستمبر ان کے یوم شہادت پر ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
علامہ محمد باقر کے آباء و اجداد ایران کے مشہور شہر ہمدان کے رہنے والے تھے،ان کے پردادا کے والد مولانا محمد شکوہ شاہ عالم کے دور میں نقل مکانی کرکے دہلی آگئے تھے، دربار میں ان کی پذیرائی تھی، چنانچہ شاہ عالم نے ان کا وظیفہ بھی مقرر کررکھا تھا،علامہ محمد باقر مجتہد کی پیدائش دہلی میں ہوئی؛لیکن صحیح مہ وسال دستیاب نہیں ہیں،اس سلسلے میں۔۔اقوال 1780ء،1790ء اور1810ء مختلف سوانح نگاروں نے ذکر کیا ہے،آچارو قرآئن سے 1780ء مطابق1205ھ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد محمد اکبر سے حاصل کی، بعد میں انہوں نے میاں عبدالرزاق کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا جو دہلی کے نامور عالم تھے،1825ء میں اعلی تعلیم کے لیے دہلی کالج میں داخل ہوئے، ان کی غیر معمولی صلاحیت اور علمی قابلیت کے طفیل لارڈ ولیم پینٹنگ کی جانب سے انہیں اعزاز بھی دیا گیا۔
مادر علمی کے نامور فرزند ہونے کی وجہ سے فراغت کے بعد1828ء میں ان کی تقرری دہلی کالج میں ہوگئی،1836ء تک وہ اسی ادارہ سے منسلک ہو کر خدمات انجام دیتے رہے، اس زمانے میں کالج کے پرنسپل مسٹر ٹیلر تھے، انہوں نے علامہ باقر سے فارسی زبان وادب کی تعلیم حاصل کی،استاد و شاگردی کا یہ رشتہ جلد ہی دوستی میں بدل گیا، یہ ایسی دوستی تھی جو دو نظریہ کے حاملین کے درمیان تھی، وہ سولہ برس تک تحصیلدار اور کلکٹر بھی رہے،وہ شاہ جہاں آباد کے کلکٹر مٹکاف کے کہنے پر تدریسی کام چھوڑ کر کلکٹری کرنے لگے، بعد میں ترقی کرکے تحصیلدار بنے، علامہ باقر نے مسٹر ٹیلر سے دوستی کا فائدہ اٹھایا اور دہلی کالج کا ایک پریس جو کالج کی نصابی کتابوں کی طباعت کے لئے قائم کیا گیا تھااورنصابی کتابوں کی طباعت کے بعد بے فائدہ پڑا ہوا تھا، اسے مسٹر ٹیلر سے کہہ سن کر خرید لیا بعد میں دہلی اردو اخبار کی اشاعت کے لئے علامہ باقر کی یہ ضرورت بن گیا، علامہ چونکہ ملازمت میں تھے اس لیے عرصہ تک ان کا نام اخبار میں شائع نہیں ہوتا تھا،1848ء سے ان کا نام اس اخبارپر بحیثیت مہتمم نظر آتا ہے، اس کے قبل1843ء میں انہوں نے ایک مذہبی رسالہ''مظہر حق'' کے نام سے بھی نکالنا شروع کر دیا تھا،1805ء میں ملازمت ترک کرنے کے بعد وہ حوزہئ علمیہ میں درس وتدریس کاکام کرنے لگے۔
علامہ باقر کی شادی ایرانی خاتون امانی خانم سے ہوئی تھی، جن سے ایک لڑکا محمد حسین آزاد اور ایک لڑکی تولد ہوئی اورامانی خانم راہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئیں، دوسری شادی ماسٹر حسینی کے بہن سے ہوئی تھی۔
1836ء میں علامہ باقر نے پریس خریدا، 1837ء سے باقاعدہ ''دہلی اردو اخبار''نکالنا شروع کیا، انگریز حکومت کے ذریعہ پریس ایکٹ میں تبدیلی کے بعدیہ ممکن ہوسکا کہ کوئی دیسی اخبار نکالا جاسکے، اکیس برسوں تک اس اخبار نے انگریزوں کی نیند حرام کررکھی تھی،1857ء میں یہ اخبار آزاد ی ئ ہند کے متوالوں کا ترجمان بن گیا، اس دوران مسٹر ٹیلر کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالاگیا، ایک دن قبل وہ علامہ باقر کے گھر میں ٹھرا تھا،لیکن موقع کی نزاکت کی وجہ سے علامہ باقر کا زیادہ دنوں اپنے گھر میں ٹھرانا ممکن نہیں تھا، اس لیے انہوں نے اسے ہندوستانی کپڑوں میں اپنے گھر سے باہر جانے دیا کہ لوگ اسے نہیں پہچانیں گے،لیکن ایسا نہیں ہوا،تھوڑی دوری پر ہی آزادی کے متوالوں نے اسے پہچان لیا اور موت کی نیند سلا دیا۔
جب دہلی پر دوبارہ انگریزوں کا تسلط ہوا تو علامہ باقر کو مسٹر ٹیلر کے قتل میں ماخوذ کیا گیا اور گرفتاری کے دو دن بعد بغیر مقدمہ چلائے بعض قول کے مطابق توپ سے اڑا دیا گیا اور بعض نے لکھا ہے کہ گولی مارکر شہید کردیاگیا،تاریخ 16/ستمبر1857ء کی تھی، جس نے گولی ماری اس کا نام ویلیم اسٹیفن رائکس ہوڈسن تھا جسے ایک سال بعد1858ء میں لکھنؤ کی بیگم کوٹھی میں کسی نے گولی مارکر دنیا سے روانہ کردیا۔
علامہ باقر جعفری کا تعلق اثنا عشری شیعہ سے تھا، وہ مذہبی علوم میں درک رکھتے تھے اور عملی طور پر مذہب کے پابند تھے، اہل تشع میں انہیں مذہبی معلومات کی وجہ سے مجتہد کا مقام حاصل تھا۔
آغا محمد طاہر نبیرہ آزاد نے لکھا ہے کہ''علامہ محمد باقر شہید شیعوں کے مجتہد تھے''انہوں نے دہلی میں 1260ء مطابق1843ھ درگاہ پنجہ شریف کے قریب”آزاد منزل“ کے نام سے امام بارگاہ بھی بنوایا تھا،جس کی تاریخ استاذ ذوق دہلوی نے ''تعزیت گاہ امام دارین اور”مؤمن خان مؤمن“نے نذر شہداء سے نکالی تھی''لیکن اس میں اصحاب رسول پر تبرا کرنے سے انہوں نے روک دیا تھا، ان کے اس عمل کی وجہ سے اہل سنت والجماعت میں بھی ان کی شبیہ اچھی تھی،اپنے دوست ٹیلر کے مشورے سے ایرانی تاجروں کے لئے انہوں نے ایک سرائے بھی بنوائی تھی، وہ شہر کے مالدار لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔
علامہ باقر کشمیری کا قیام کشمیری دروازہ علاقہ میں کھڑکی ابراہیم خاں میں تھا۔وہاں انہوں نے ایک مسجد بھی بنوائی تھی، جس کا نام کھجور والی مسجد تھا۔
علامہ باقر کی اہمیت ان کے مجاہد آزادی اور پہلے شہید صحافی کی حیثیت سے ہے، جنہوں نے حق لکھنے اور بولنے کی پاداش میں شہادت پائی، المیہ یہ ہے کہ نہ مجاہدین آزادی کی حیثیت سے انہیں یاد رکھا گیا اور نہ ہی شہید صحافی کی حیثیت سے،حالاں کہ ہر یوم آزادی پر ہم''جو شہید ہوتے ہیں ان کی ذرا یاد کرو قربانی''پڑھ کر اورسن کر ایک جذبہ اور جوش اپنے اندر محسوس کرتے ہیں،لیکن ہمیں انہیں یاد کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالو
چنانچہ علامہ محمد باقر جعفری نے کلکٹری اور تحصیلدای چھوڑ کر اخبار نکالنا شروع کیا، شروع میں اس اخبار میں دنیا جہاں کی خبریں، دربار معلی کے شعراء حضرات کے کلام اور انگریزوں کے نقل و حرکت سے متعلق چیزیں اشاعت پذیر ہوتی تھیں۔قلعہ معلی سے متعلق خبریں ''حضور والا'' اور انگریزوں سے متعلق خبریں ''صاحب کلاں ''کے عنوان کے تحت درج ہوتی تھیں، اخبار میں تعلیم کے فروغ پر بھی مضامین ہوا کرتے تھے۔دھیرے دھیرے یہ مجاہدین آزادی کا ترجمان بن گیا اور اس حد تک بن گیا کہ اس اخبار کا نام بدل کر بہادر شاہ ظفر کے نام پر ”اخبار الظفر“ کردیا گیا اور خصوصیت سے بہادر شاہ ظفر اور لال قلعہ دہلی کی حرکات و سکنات اور اس سے متعلق خبریں زیادہ شائع ہونے لگیں، دوسرے علاقوں کی خبریں جن کا تعلق آزادی اور ثقافت سے ہوتا وہ بھی اس اخبار میں جگہ پالیتیں۔
اس زمانہ میں پیغام رسانی اور ذرائع ابلاغ کا وہ پھیلاؤ نہیں تھا جو آج ہمیں دستیاب ہے،لیکن علامہ باقر کے اخبار میں دور دراز کی خبروں کی اشاعت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک بڑا وسیع تھا، شاید اس کام میں باغی فوجی دستے اور مجاہدین آزادی کا تعاون انہیں حاصل تھا۔
علامہ محمد باقر کی نگاہ بڑی دوررس تھی جب انگریزوں نے اس بات کا پرچار شروع کیا کہ کارتوس پر سور کی چربی نہیں ہے، اس کا مقصد مسلمانوں کے ذریعہ ہندؤں پر کارتوس کا استعمال تھا تو علامہ باقر نے اس سازش کو پہچان لیا اور اس کے خلاف اپنے اخبار میں لکھ کر ہندو مسلم دونوں کو آگاہ کیا تاکہ وہ اس سازش کا شکار نہ ہوں، انہوں نے انگریزوں کی دھوکہ بازی کو بے نقاب کیا اور ہندوستان کے راجاؤں کو للکارا کہ وہ انگریزوں کا ساتھ نہ دیں۔انہوں نے بنی آدم کو اعضائے یک دیگرند کہہ کر ہندو مسلم اتحاد کی دعوت دی اور لکھا کہ اسلام میں اہل کتاب کے ساتھ جس رعایت کا ذکر ہے وہ ان کے لئے نہیں ہے،کیوں کہ یہ اہل کتاب ہیں ہی نہیں۔
علامہ محمد باقر صرف صحافی ہی نہیں تھے،انہیں تصنیف تالیف کا بھی اچھا ملکہ تھا،وہ بلند پایہ مصنف اور اچھے مؤرخ تھے،ان کی تصنیفات میں سیف صارف المعروف بہ شمسیر تیر،ہادی التواریخ،رسالہ مباہلہ،ہادی المخارج،ہادی الایمان،مفیدا لعلوم،رسالہ نکاح،رسالہ قرأت،کتاب التقلیب،سفینہئنجات،کتاب حدوث مذاہب،رسالہ عید غدیر،تفسیر انما ولیکم،تفسیر ولایت،اعتقادات حسنہ، آیت تطہیرمشہور معروف ہیں،ان میں سے زیادہ کے موضوعات مذہبی اور مناظرہ بازی سے متعلق ہیں۔
علامہ باقر فارسی اور اردو کے اچھے شاعربھی تھے،ان کے اشعار کے نمونے مختلف کتابوں میں دستیاب ہیں،اس سے ان کی شاعرانہ عظمت کا پتہ چلتا ہے،اردو سے زایدہ فارسی اشعار میں پختگی معلوم ہوتی ہے،مزاج ان کا مناظرانہ تھا،اس لئے خیالات میں ترفع کی کمی ہے،اس کے باوجود ان کی شاعری خاصہ کی چیز ہے۔
۶۱/ستمبر ان کے یوم شہادت پر ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
جواب دیں