پاکستان و برصغیر کے نامور اسلامی اسکالر، سلسلہ نقشبندیہ کے معروف روحانی پیشوا حضرت مولانا پیر حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی 14 دسمبر 2025 بروز اتوار وفات پا گئے، آپ کی عمر تقریباً 72 برس تھی۔ ان کے انتقال کی خبر پہلے دیوبند میں منعقد ایک علمی و روحانی نشست کے دوران سامنے آئی جس کے بعد دینی، روحانی اور علمی حلقوں میں غم و اندوہ کی فضا چھا گئی اور آپ کے ہزاروں شاگردوں، خلفا اور عقیدت مندوں نے گہرے رنج و صدمہ کا اظہار کیا۔
نمازِ جنازہ کا اعلان ہو چکا ہے کہ یہ 15 دسمبر 2025 بروز پیر، ساڑھے 11 بجے دن (11:00 AM) جھنگ میں ادا کی جائے گی۔ تدفین بھی وہیں معھد الفقیر الاسلامی کے احاطے میں متوقع ہے، جہاں ہزاروں شاگرد، خلفا اور عقیدت مندوں کی بڑی تعداد پہنچنے کی توقع ہے۔
حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی 1 اپریل 1953 کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ میں پیدا ہوئے اور بعد میں برصغیر کے ممتاز صوفی مشائخ میں شمار ہوئے۔ آپ نے عصری تعلیم کے طور پر لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، لیکن چالیس برس کی عمر میں اعلیٰ عہدہ چھوڑ کر خود کو مکمل طور پر دین کی خدمت اور اصلاحِ باطن کے لئے وقف کردیا۔
حضرت کا شمار سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے سرکردہ مشائخ میں ہوتا تھا اور آپ کو اپنے شیخ حضرت مولانا غلام حبیب صاحب چکوالی رحمہ اللہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ آپ کی روحانی مجالس، بیانات اور سفرِ ہائے اصلاح دنیا کے چالیس سے زائد ممالک تک پھیلے ہوئے تھے جن سے ہزاروں علماء، طلبہ اور عوام نے استفادہ کیا۔
دینی و تعلیمی خدمات
حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی نے جھنگ میں “معھدُ الفقیر الاسلامی” (Mahad-ul-Faqeer Al-Islami) کی بنیاد رکھی جو علومِ دینیہ اور روحانی تربیت کا اہم مرکز شمار ہوتا ہے۔ اس ادارے اور اس سے منسلک دیگر مراکز کے ذریعے قرآن و سنت کی روشنی میں تزکیۂ نفس، اصلاحِ اخلاق اور اتباعِ سنت کا پیغام عام کیا گیا۔
آپ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی بے حد سرگرم رہے، عربی، اردو اور انگلش سمیت مختلف زبانوں میں آپ کی درجنوں کتابیں شائع ہوئیں جن میں بعض فہرستوں کے مطابق سو سے زائد، اور بعض کے مطابق ڈیڑھ سو سے زیادہ عناوین شامل ہیں، جن کا محور اصلاحِ باطن، تربیتِ اولاد، حیا و پاکدامنی اور عملی زندگی میں سنت کی پیروی ہے۔ آپ کے بیانات (بیاناتِ اصلاحی و تربیتی) پوری دنیا میں مقبول رہے اور سوشل میڈیا و یوٹیوب پر لاکھوں لوگ انہیں سنتے اور اپنے حالات کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔
عالمِ اسلام کا ردِ عمل
حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کے انتقال کی خبر نشر ہوتے ہی پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، خلیجی ممالک اور مغربی دنیا میں بسنے والے ان کے سجادگان، خلفا، علماء اور عام مسلمانوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ مختلف علمی و روحانی اداروں کی جانب سے جاری بیانات میں انہیں عصرِ حاضر کی اہم روحانی و اصلاحی شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا اور ان کے لئے مغفرت و رفعتِ درجات کی دعا کی گئی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی ان کے ہزاروں شاگردوں اور سننے والوں نے اپنے تأثرات قلم بند کئے، بہت سے لوگوں نے لکھا کہ حضرت کے بیانات نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا، گناہوں سے توبہ، نماز کی پابندی، حلال روزی اور اخلاص و تقویٰ کی راہ اپنانے میں انہیں حضرت کے نصائح اور مجالس نے بنیاد فراہم کی۔
حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت تھے جنہوں نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو بھی تصوف اور شریعت کے ساتھ جوڑنے کی کامیاب کوشش کی، خود انجینئر ہونے کے باوجود انہوں نے عملی زندگی ترک کرکے دین و تزکیہ کو اپنی فکر کا محور بنایا۔ ان کے شاگرد آج دنیا کے مختلف خطوں میں خانقاہوں، مدارس اور تربیتی حلقوں کے ذریعے اسی فکر کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کا خلاصہ قرآن و سنت کی روشنی میں دلوں کی اصلاح، اخلاق کی تعمیر اور زندگی کے ہر شعبے میں سنتِ نبوی کی پیروی ہے۔
اہلِ علم کے نزدیک حضرت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے تصوف کو محض نظری مباحث کے بجائے عملی زندگی، معاملات، معاشرت اور خاندانی نظام کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا، ان کی درجنوں کتابیں، بیانات اور نصائح آنے والی نسلوں کے لئے بھی رہنمائی کا ذریعہ رہیں گی۔
حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی اپنے پسماندگان میں اہلیہ، دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت کے تمام دینی و روحانی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کی خطاؤں کو معاف فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ۔




