کبھی بوکوحرام کے نام پر تو کبھی داعش کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم رکھتی ہیں۔ جنگ عظیم تک تو مغرب آمنے سامنے کی لڑائی لڑتا تھا لیکن اس کے بعد جو پس پردہ جنگ کی حکمت اختیار کی اس کا نام سرد جنگ رکھا گیا۔ یہ براہِ راست ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بجائے کسی اور کی ا?ڑ میں اپنا حساب کتاب چکانے کی حکمتِ عملی ہے۔
ممبئی اور پیرس کے حملوں میں ایک دلچسپ مشابہت یہ بھی ہے کہ دونوں حملے امریکی انتخابی مہم کے اہم ترین مرحلے میں ہوئے تھے۔ اوبامہ کی آمد سے قبل ممبئی حملہ ، اوبامہ کے دوبارہ منتخب ہونے سے پہلے اسامہ کی موت کا ڈرامہ اور اوبامہ کے جانے سے قبل پیرس کا حملہ۔ یہ سب محض اتفاق بھی ہوسکتا ہے مگر نہیں بھی۔ اس لئے کہ امریکی انتخاب میں دہشت گردی کے خوف سے زیادہ کچھ اور نہیں بکتا۔ بدقسمتی سیوہ تفتیشی ادارے جن کا کام حقائق کو بے نقاب کرنا ہے وہ ایسے حکمرانوں کے آہ? کاربنے ہو ئے ہیں جو انہیں حقائق کی پردہ پوشی پر مجبور کرتے ہیں۔ اس لئے وہ سچائی کبھی بھی بے نقاب نہیں ہوتی جو ان حکمرانوں کے اپنے یا ان کے آقاوں کے خلاف ہو۔ ذرائع ابلاغ کا کام بھی مسخ شدہ سرکاری موقف کو نشر کرنا ہوکر رہ گیا ہے اس لئے اکثر و بیشتر حقیقتِ حال پر پردہ پڑا رہتا ہے۔
کوئی بعید نہیں کہ ممبئی کی طرح آگے چل کر پیرس حملے کے پسِ پردہ بھی کوئی رچرڈ کولمن ہیڈلی جیسا پراسرار ماسٹر مائنڈ نکل آئے جو امریکہ سے نمودار ہوکر وہیں جاچھپاہو۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ ہندوستان کا بہترین حلیف ہوتے ہوئے بھی اور دہشت گردی کی جنگ دونوں ممالک کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے باوجود امریکہ نیاس اہم ترین مہرے کو تفتیش کی خاطر ہندوستان کے حوالے کرنا تو درکنار ہندوستان کی پولس سے ملنے بھی نہیں دیا۔ حقیقت تو یہ ہے اجمل قصاب کے مقابلے رچرڈ ہیڈلی نے ممبئی کے حملوں میں بہت بڑا کردارا دا کیا ہے۔ وہ ہندوستان کے اندر آکر عملاً سر گرم عمل رہا ہے پھر بھی حافظ سعید کی واپسی کا مطالبہ تو ہوتا ہے مگر رچرڈ ہیڈلی کا نام کوئی نہیں لیتا۔ ہوسکتا ہے پیرس حملے کا تعلق بھی کسی ہیمنت کرکرے جیسیایماندار افسر اور اس کے ساتھیوں کو راستے سے ہٹا کر فرانس میں جاری فسطائی دہشت گردی کی پردہ پوشی ہو۔
ہندوتوا وادی قوتوں کی مانند یوروپ بھر میں جرمنی کی پیگیڈیا اور برطانیہ کی انڈپینڈنٹ پارٹی جیسی میں انتہا پسند قوم پرست تنظیمیں سر گرم عمل ہیں۔ ان کے اپنے سیاسی عزائم ہیں۔ وہ بنیادی طور پر سارے غیر ملکیوں کے خلاف ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہے کہ وہ اپنے ہم وطن مسلمان باشندے کو بھی اپنی قوم کا حصہ نہیں سمجھتے۔ ایک جائزے کے مطابق قومی محاذ نامی فرانسیسی انتہا پسند جماعت کی رہنما لی میرین لی پین کی مقبولیت فی الحال دیگر تمام سیاسی رہنماوں سے زیادہ ہوگئی اور وہ آئندہ صدارتی انتخاب بھی جیت سکتی ہیں۔ ۱۹۱۱ میں یہ محاذ تیسرے نمبر پرتھا مگر ۲۰۱۴ میں پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ ایسے میں ان کا دہشت گردی میں ملوث ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ ان سے زیادہ اپنے آپ کو دیش بھکت ثابت کرنے کیلئے سرکوزی جیسے درمیانہ درجے کے انتہا پسند بھی اس سے حملیفائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اتفاق سے فرانس کی اور ہندوستان کی فسطائی محاذ کا نام یکساں ہے اور چارلی ہیبڈو حملے کے بعد پیرس کے دھماکوں نے اس کے وارے نیارے کردئیے ہیں۔
عالمی حالات پر اگر نظر ڈالیں تو یقیناًداعش تنازع کے مرکز میں ہے۔شام کے اندر فی الحال فرانس کے علاوہ امریکہ اور روس بھی بری طرح ملوث ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ داعش کی مغرب کے پروردہ دہشت گردتنظیم ہے۔ ناٹو نے افغانستان اور عراق میں اپنی شکست کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اب اپنی باقائدہ فوج ان علاقوں میں نہیں بھیجے گا، اس لئے کہ ایسا کرنے سے مقامی عوام ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ اس لئے کرائے کے فوجیوں کو اسلامی نام دے کر اور مقامی لوگوں کا نجات دہندہ بنا کر میدان میں اتار ا گیا۔ عوام چونکہ حکومت کے مظالم سے پریشان تھے اس لئے انہوں اس مصیبت کو اپنے لئیرحمت سمجھا اور اس کا استقبال کیا۔ اس تجربے کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ ان دہشت گردوں کے مظالم کی ذمہ داری مغرب پر نہیں آتی تھی بلکہ اس کا الزام اسلام پسندوں کے سرمنڈھ دیا جاتا۔ یہ تجربہ بہت جلد ناکام اس لئے ہوگیا کہ ان جرائم پیشہ لوگوں نے اسلام کے نام پر ایسی ایسی سفاکی کا مظاہرہ شروع کردیا جسکا تصور بھی اسلام جیسے دین رحمت میں محال تھا۔ ان احمقوں نے اپنی حرکات سے خود اپنے آپ کو بے نقاب کردیا۔
داعش کو روانہ کرنے کا اصل مقصد بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا تھا لیکن مغرب میں ناکام رہا اس لئے کہ داعش کے خلاف روس اور ایران کو بشار کی حمایت کا موقع مل گیا۔ داعش کو بھگانے کی آڑ میں روس نے بشار کے خلاف لڑنے والے مجاہدین آزادی کا قلع قمع شروع کردیا۔ اس طرح گویا داعش کے مجرمین نے اپنے علاوہ دیگرمتحارب گروہوں کا بھی بھلا کیا اور اس کے سبب بشار کے ظالمانہ اقتدارکو نئی زندگی مل گئی۔ داعش کے ذریعہ جو واحد کامیابی مغرب کو حاصل ہوئی ہے وہ کردستان کے لوگوں کو اسلحہ فراہم کرنا اورا نہیں فوجی تربیت دینے کا موقع ہے۔ کرد قوم سے وابستہ لوگ عراق ، شام اور ترکی میں آباد ہیں۔ اب انہیں ایک علٰحیدہ ملک بنانا اور وہاں بیٹھ کر اس پورے خطے میں بدامنی پھیلانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ کرد سنجر نامی اہم شہر داعش کے قبضیسے ا?زاد کراچکے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ یہ آندھی جس تیزی سے آئی تھی اسی سرعت سے غائب ہوجائے۔
شام کی خانہ جنگی کو چار سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اس دوران کئی لاکھ شامی مہاجرین ترکی ،اردن اور دیگر پڑوسی ممالک کے پناہ گزین کیمپوں میں ہجرت کیلئے مجبور ہوئے۔ ان لوگوں نے کبھی یوروپ کا رخ نہیں کیا۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب داعش کی ضرورت و افادیت ختم ہوگئی اور روس کے علاوہ امریکہ اور فرانس نے بھی اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو اچانک پناہ گزینوں نے یوروپ کا رخ کرنا شروع کردیا ؟ ممکن ہے کہ جو لوگ یوروپ سے مغرب کی نجی فوج میں داعش کا بھیس بدل کر آئے تھے وہ واپس جارہے ہوں اور ان لوگوں نے مظلوم شامیوں کو بھی ورغلا کر اپنے ساتھ کرلیا ہو۔ بلاشک شبہ داعش کے دن بھر چکے ہیں اور ان بدمعاشوں کیلئے مسلم دنیا میں کوئی جگہ نہیں اس لئے ان جرائم پیشہ افراد وکا لوٹ کر جانا فطری عمل ہے۔ مغرب کو ہے کہ واپس آنے کے بعد اگر کوئی طاقت ان پیشہ ور فوجیوں کی خدمات حاصل کرکے ایک نیا دستہ تشکیل دے اور اسے ان کے خلاف کھڑاکردے تو کیا ہوگا؟ پناہ گزینوں کے حوالے سے فرانس کا موقف جرمنی سے متضاد ہے۔ وہ شام میں بمباری تو کرنا چاہتا ہے مگر اس کے نتیجے میں بھاگنے والیپناہ گزینوں کی ذمہ داری قبول کرنا نہیں چاہتا۔ اس حملیسے قبل شامی پناہ گزینوں کی آمدپر پابندی لگانا مشکل تھا مگر اب سہل ہوگیا ہے۔
پیرس حملے کو اپنے گوں ناگوں مفاد کیپیشِ نظر ساری دنیا صرف داعش کیزاویہ سے دیکھ رہی ہے لیکن روسی طیارے کی تباہی سے بھی اسے جوڑا کر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ داعش مغرب کی پروردہ ہے اور اگر اس نے روس کا طیارہ تباہ کیا تو روس والے مغرب کے اس حملیکو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے۔ روس نے یہ بات تو تسلیم نہیں کی اس کا جہاز دہشت گردی کا شکار ہوا ہے۔ اس لئے کہ ایسا کرنے سیاس کی داعش کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ جو لوگ والدیمیر پوتن اور روسی حکمرانوں کے مزاج سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ انتقام کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے فرانس کا شمار بشار الاسد کے سب سے بڑے دشمنوں میں ہوتا ہے اور اگر اس حملیمیں شامی باشندے ملوث ہیں تو ان کا تعلق داعش کے علاوہ بشارالاسد سے بھی ہوسکتا ہے۔
اسرائیل کے مظالم میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اور یوروپی رائے عامہ اس کے خلاف ہونے لگتی ہے تب بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ چارلی ہیبڈو کے سانحہ کو بھنانے کی جو کوشش نیتن یاہو نے کی تھی وہ سب کے سامنے ہے۔ فی الحال اسرائیلی عدالتیں فلسطینیوں کیگھروں کو منہدم کرکے یہودیوں کیلئے مکانات بنانے کی اجازت دے رہی ہے۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف غزہ کے بعد مغربی کنارے میں بھی انتفاضہ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسرائیل کا جبر اپنے حدود سے گزر رہا ہے اور اس کے خلاف یوروپ کے انسانیت نواز حلقوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ نتن یاہو کی برطانیہ میں آمد کے موقع پر گرفتاری کی عرضداشت پر دس لاکھ لوگوں نے دستخط کئے جن میں بڑی تعداد غیرمسلمین کی ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے تعلق سے جس طرح رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے اس سے امریکہ اور اسرائیل پریشان ہیں۔ اس لئے موساد بھی اس طرح کے حملوں سے مسلمانوں اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت کا زہر پھیلا سکتی ہے۔
ان امکانات کا اظہار نفس مسئلہ کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئینہیں کیا جارہا ہے بلکہ حکومتوں کی جانب سے جعلی دھماکے کرواکر اپنے مفادات حاصل کرنے کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس معاملیمیں بلاتفریق مشرق و مغرب سب ملوث ہیں اتفاق سے مسلمانوں کا حصہ بہت کم ہے اور جو ہے وہ سب بھی پرویز مشرف یا السیسی جیسے سیکولر اورنام نہاد روشن خیال مسلمان ہیں :
149 ۱۹۳۱میں جاپانیوں ریلوے پٹری پر دھماکہ کیا اور اس کا الزام چینیوں کے سرمنڈھ کرمنچوریہ میں دھاوا بول دیا۔
149 نازی میجر نے یہ تسلیم کیا گسٹاپو کے حکم کی تعمیل میں اپنے ہی لوگوں پر حملہ کرکے اس کا الزام پولینڈ پر لگایاگیا تاکہ چڑھائی کی جاسکے۔
149 نازی جنرل فرانز نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ۱۹۳۳جرمن ایوان پارلیمان کو فوج نے ا?گ لگا کر اس کیلئے اشتراکیوں کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔
149 خروشچیف نے یہ تسلیم کیا ۱۹۳۹ میں سرخ فوج نے روس کے مینیلہ گاوں پر بمباری کرکے اس کا الزام فن لینڈ پر لگا دیا۔
149 گورباچیف اور پوتن نے اسٹالن پر الزام لگایا کہ ۱۹۴۰ میں ۲۲۰۰۰ پولینڈ کے لوگوں کو ہلاک کرکے اس کا الزام نازیوں پر لگا یا گیا۔
149 برطانوی حکومت نے ۱۹۴۶ سے ۱۹۴۸ کے درمیان ہٹلر کے خوف سے بھاگنے والے ۵ یہودی جہازوں کو تباہ کرکے عرب فلسطینیوں کی محافظ نامی خودساختہ تنظیم کو اس کیلئے موردِ الزام ٹھہرایا ۔
149 اسرائیل نے۱۹۴۵ میں مصر کی مختلف عمارتوں بشمول امریکی قونصل خانہ میں بم نصب کرکے عربوں کو ملزم قراردیا گیا۔
149 سی آئی اے نے ۱۹۵۰ میں ایران کے منتخبہ صدر کے خلاف ایرانیوں سے بم دھماکے کراکے الزام اشتراکیوں پر لگایا۔
149 اٹلی کے سابق وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ۱۹۵۰ پنٹا گون اور ناٹو نے اٹلی اور یوروپ کے دیگر شہروں میں بمباری کرکے اس کا الزام اشتراکیوں پر رکھا۔
149 برطانوی وزیراعظم کے مطابق۱۹۷۵ میں امریکی صدر نیتختہ پلٹنے کی خاطر شام پر حملہ کروا کر اس کا الزام شامی حکومت پر رکھ دیا۔
149 ۱۹۶۴ کے اندر شمالی ویتنام کے ٹونکن کھاڑی سے متعلق ایک جھوٹ گھڑ کے ویتنام پر حملے کا جواز پیداکیا گیا۔
149 ۱۹۷۰میں ترکیوں نے سائپرس کی ایک مسجد کو ا?گ لگا کر اس کا الزام مقامی باشندوں پر لگادیا۔
149 ۱۹۷۸میں جرمنی نے خود ایک جیل کی دیوار کو بم سے اڑا دیا اور اندر قیدسرخ فوج پر بم دھماکے کا الزام لگا دیا
149 ۱۹۸۴ نے موسادنے معمر قذافی کے گھر میں ریڈیو ٹرانسمیٹر نصب کرکے جعلی پیغامات نشر کئے جس کی بنیاد پررونالڈ ریگن نے بمباری کی۔
149 ۱۹۹۰ میں الجیریائی فوج نے عوام کا قتل عام کرکے اس کا الزام اسلام پسندوں پر لگا دیا
149 ۱۹۸۸ میں انڈونیشیا کے اندر ہونے والے فسادات میں فوج کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
149 ۱۹۹۹میں کے جی بی ایک رہائشی عمارت کو بم سے اڑا کراس کااالزام شیشان کے مجاہدین پر لگایا اور جنگ چھیڑ دی۔
149 ۱۱ ستمبر کا بہانہ بنا کر افغانستان اور عراق میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا وہ کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔
149 ۲۰۱۱میں مصر کے سرکاری ملازمین نے میوزیم کو لوٹ کر اس کا الزام مظاہرین پر لگادیا۔
149 ۲۰۱۳صدر محمد مورسی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے بربریت کا مظاہرہ اور الٹااخوانیوں پر الزام تراشی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے
اس طرح کی مذموم حرکات کا احاطہ کرنے کیلئے یہ مضمون ناکافی ہے۔ پیرس کے حملے کا ایک غیر متوقع فائدہ تو یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اپنے اوپر ہونے والے مغرب کے مظالم یاد آگئے۔ مسلمانوں نے اور ان کے ہمدرد غیر مسلمین نے مغربی ذرائع ابلاغ کے امتیازی سلوک کو اچھالنا شروع کردیا۔ اس شور شرابے کے پس پشت وہ خوش فہمی کارفرما ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ ا?زاد اورانصاف پسند ہیحالانکہ وہ نہ صرف حکمرانوں بلکہ سرمایہ داروں کے تلوے چاٹنے والے لوگ ہیں اس لئے ان سے یہ توقع رکھنا ہی فضول ہے کہ وہ مسلمانوں کے اوپر ہونے والے مظالم کو بھی یکساں اہمیت دیں گے۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے نہ سہی لیکن اپنی عوام پر ہونے ظلم کے حق میں تو کم از کم ہمدردی پیدا کی۔ جو کچھ انہوں نے اپنے لوگوں کیلئے کیا ویسا کرنے سے ہمیں کس نے روکا تھا اگر فرانس کے حملوں پر مغرب بھی ویسی ہی سرد مہری کا مظاہرہ کرتا جیسا کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر کرتے ہیں تو کیا ہمیں عراق ، لبنان، فلسطین اور شام یاد آتے؟
اس طرح کی صورتحال میں امت کوچاہئے کہ وہ حکومت اور عوام کے اندر فرق کرے۔ ہم دیگر اقوام سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کیلئے تمام امت کو موردِالزام نہ ٹھہرائیں یہی توقع دوسری اقوام کے لوگ بھی ہم سے کرسکتے ہیں۔ حکومتوں کے ناعاقبت اندیش فیصلوں کی قیمت بے قصور عوام چکاتے ہیں۔ ان لوگوں کو مارنے والے ہمارے نمائندے نہیں ہیں اس لئے ہمیں مدافعت میں آکر اپنی صفائی ہر گز نہیں پیش کرنی چاہئے لیکن ان سے ہمدردی کے اظہار میں بخالت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ عام لوگوں کو نہ تو ان کی حکومت کی سفاکی کی سزادینا مناسب ہے اور ان کے ذرائع ابلاغ کے امتیازی سلوک کیلئے ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے کہ اس لئے کہ ان دونوں پر عام لوگوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ خاموشی اختیار کرسنیمیں کوئی بھی حرج نہیں ۔ پیرس دھماکوں میں مغرب کی جنگ کے مغرب کی جانب لوٹنے کے ا?ثارنمایاں ہیں۔
جواب دیں