فلسطین ظالموں کے نرغے میں: شرم تم کو مگر نہیں آتی !
مفتی محمد سراج الہدی ندوی ازہری (دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد)
الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی سرخیوں اور ہیڈ لائنس میں گاہے بگاہےنہ تھمنے والے اسرائیلی ظلم و بربریت کو پڑھنے اور سننے کے بعد، ایک دن ہمارے اندرون نے ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے یہ کہا: "شرم تم کو مگر نہیں آتی"، میں نے فوراً ہی دریافت کیا: کہ تمہارا یہ خطاب کس سے ہے؟ اندرون(نفس)نے کہا: انسانوں کا ہر طبقہ میری مراد ہے، میں نے کہا: کچھ تفصیل تو بتاؤ، اس نے کہا: اگر سننے کی تاب رکھتے ہو تو سنو؛ لیکن اتنا ضرور یاد رکھنا اور ہرگز نہ بھولنا کہ حق بات کڑوی ہوا کرتی ہے، پھر یوں گویا ہوا اور بولتا چلا گیا کہ میرے اس ایک مصرع "شرم تم کو مگر نہیں آتی" سے تم پڑھے لکھے لوگوں کا طبقہ بھی مراد ہے اور دیگر حضرات بھی، پھراس ابہام کی یوں تفصیل بیان کی:
ذرا غور کرو! تم پڑھے لکھے لوگ ہو اور صرف یہی نہیں کہ پڑھے لکھے ہو؛ بلکہ علوم نبوت کے غوطہ خور ہو، علوم اسلامیہ کی صحرا نورد ی کے ساتھ ساتھ، عربی واردو زبان وادب کے خوشہ چیں ہو، تمہارے طبقہ کو اللہ نے تحریر و تقریر کی دولت سے بھی مالا مال کیا ہے، ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ اور سچ کہو کہ تم اہل علم یعنی پڑھے لکھے طبقہ نے اس خوں چکاں فلسطینی ماحول کے امن وسکون کے لیے اور اسرائیلی ظلم وبربریت کے خلاف کتنی تقریریں کیں، کتنے مقالات ومضامین لکھے، کتنی مسجدوں کے منبروں سے اسے موضوع سخن بنایا گیا، مسئلہ تو اتنا سنگین ہے کہ اس پر جتنا بھی بولا جائے، لکھا جائے اور عوام الناس کو جس قدر بھی بیدار کیا جائے کم ہے، آخر یہ لڑائی کیسی ہے؟ اس کے پس پردہ کیا سازش ہے؟ کون مداری ہے اور ڈور کس کے ہاتھ میں ہے؟ اللہ نے تمہارے طبقہ کو تحریر وتقریر کی لا جواب صلاحیتیں دیں، مسجد کے جمعہ کا منبر تو پبلیسٹی اور امت کو بیدار کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، ذرا سوچو! تم لوگوں نے اپنی اپنی صلاحیتوں کو کتنا استعمال کیا، تم تو دعاؤں اور تسبیح ومناجات کے فضائل و اثرات سے بھی واقف ہو، ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر، خدا کو حاضر وناظر سمجھ کر بولو، تم نے مذکورہ باتوں کا کتنا اہتمام کیا، معدودے چند افراد کے تم سب کی زبانیں اس کے حقیقی جواب میں گنگ ہوجائیں گی، اسی فلسطین کی جگہ اگر تمہارے مسلکی، ادارتی، علاقائی اور قبائلی جھگڑے ہوتے، تو نہ جانے تم اس کے لیے کیا کیا نہ کر گزرتے، مضامین اور کتابچوں کے ساتھ ساتھ اپنی مجلسوں میں دشنام طرازیوں اور ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے سے بھی باز نہیں آتے، یاد رکھو! تم انبیا کے وارثین ہو، جس طرح انبیا ایک ناحق خون پر بے چین ہوجایا کرتے تھے، اسی طرح تمہیں بھی بے چین ہونا چاہیے تھا، کیا بغیر محنت ولگن اور امت کی درمندی کے وارثین نبوت بننا چاہتے ہو؟ اگر تمہاری سوچ یہی ہے، تو ایسا نا ممکن ہے، اللہ تم سے ان مظلوم فلسطینیوں کے خون کے بارے میں پوچھے گا کہ تم کیا کرسکتے تھے اور تم نے کیا کیا؟ بیدار ہوجاؤ، آنکھیں کھول لو، میری باتوں کو بُرا مت مانو، تم اصحاب قلم وقرطاس اورشہسوارن خطابت، اتحاد ویکجہتی کے ساتھ مظلوموں کی مظلومیت کے بارے میں آواز اٹھاؤ، اس کے لیے ہر طرح کے میڈیا کو استعمال کرو اور ہر زبان میں ان باتوں کا اظہار کرو، پھر دیکھو اسرائیل کو کیسی منھ کی کھانی پڑتی ہے اور وہ مالیخولیا کاکیسا شکار ہوجاتا ہے، اگر ایسا نہیں کروگے تو اللہ تعالی کے نزدیک مورد الزام ٹھہروگے، اس سلسلے میں علما، دانشوران قوم وملت اور ہر پڑھے لکھے انسان کو آگے بڑھ کر آواز اٹھانی چاہیے اور اتحاد کا ثبوت دینا چاہیے، اس مسئلہ کو اسلام اور کفر سے ہٹ کر، انسانیت اور ظالم ومظلوم کے آئینہ میں بھی دیکھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے ایک سازش اور پلاننگ کے تحت یہ جنگ چھیڑی ہے، اور ابھی اس کا نشانہ بہت کچھ ہے، اے پڑھے لکھے، دینی وعصری تعلیم یافتگان! دور اندیشی اور حکمت عملی سے کام لو، اگر اللہ نے چاہا تو فتح و کامرانی تمہارا نصیب ہوگا اور ثواب کے توان شاء اللہ بہر صورت مستحق ہوگے۔
پھر میرے نفس نے کہا: "شرم تم کو مگر نہیں آتی" سے میری مراد تاجر حضرات(بزنسمین) اور عوام الناس کا طبقہ بھی ہے، جو اسرائیلی پروڈکٹ کو ہاتھوں ہاتھ لے رہا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، معیشت تباہ کردی جائے، اس سلسلہ میں بہت ساری تنظیمات اور اشخاص نے لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی، اشتہارات نکالے اور اسرائیلی مصنوعات کی وضاحت کی؛ لیکن چند افراد پر ہی اس کا اثر ہوا، اجتماعی طور پر اسے قبول کرنا چاہیے تھا، لوگ اس کے استعمال کرنے پر الٹی سیدھی دلیلیں دیتے ہیں، ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ظالم دشمن کی معیشت تباہ وبرباد کردی جائے، یہ ایک طرح کی ناراضگی کا اظہار ہے، اللہ کا ارشاد ہے: "اے ایمان والو! یہود ونصاری کو دوست نہ بنا، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست رکھے گا، وہ ان ہی میں سے ہوگا، بے شک اللہ ظلم شعار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے" (مائدہ:۵۱) کہنے والے کہتے ہیں کہ ہمارے ضبائیکاٹ کرنے سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں ہے؛ لیکن یہ عذر لنگ ہے، بائیکاٹ کرنا مسلمانوں سے دوستی اور دشمنوں سے نفرت کے اظہار کا اہم ذریعہ ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بسا اوقات ایک خاندان میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ایک دوسرے کی شادی بیاہ میں آنا جانا، دعوتوں میں شریک ہونا، یہاں تک کہ بات چیت بھی بند ہوجاتی ہے؛ حالاں کہ وہ خود بھی جانتا اور سمجھتا ہے کہ اس کی ناراضگی سے اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے؛ پھر بھی ایسا اس لیے کرتا ہے؛ تاکہ اپنے غصے کا اظہار کرے؛ لیکن ہائے افسوس ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے اپنی آسائشوں اور لذتوں کو خیر باد کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یورپی ممالک جن سے بھلائی کی بالکل امید نہیں کی جاسکتی ہے، وہاں لوگوں نے احتجاج کیا اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کابھی اعلان کیا، اللہ کرے یہ فیصلہ مؤثر اور دیرپا ہو۔
پھر مزید یوں گویا ہوا: "شرم تم کو مگر نہیں آتی" سے میری مراد مسلم حکمراں اور عرب تنظیمات بھی ہیں، ان لوگوں نے تو ایسا رویہ اختیار کر رکھا ہے، جس سے صاف صاف اسرائیل دوستی اور مسلم دشمنی نظر آرہی ہے، ان حکمرانوں کی اتحادی آواز اسرائیل کا زور توڑنے میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے؛ لیکن یہ ہمارے اپنے اسرائیل و امریکہ نواز ہیں، انہیں اپنے دشمنوں سے دوستی اور اپنے بھائیوں سے دشمنی اچھی لگتی ہے، ان کو اپنے عہدہ و منصب اتنے عزیر ہیں کہ اسلامی شریعت کے قوانین کے نفاذ کی آواز لگانے والوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیتے ہیں، ان کے دلوں میں یہ خوف سمایا ہوا ہے کہ اگر ہم نے اسرائیل یا مغربی ممالک کے خلاف آواز اٹھائی تو کہیں ہماری حکومت نہ چلی جائے، ایسا لگ رہا ہے کہ انہیں اللہ کی قدرت وطاقت پر کامل یقین نہیں ہے، اللہ جب ظلم کا انتقام لیتا ہے، تو بڑی بڑی سلطنتوں کو سکنڈوں میں تہہ وبالا کردیتاہے، انسان کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، اے مسلم حکمرانو! تمہاری نیکیاں، خیر خیرات اور صدقات سب اپنی جگہ قابل ستائش؛ لیکن ابھی اسرائیلی ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا، ان سے تعلقات توڑدینا ، سفارتی روابط منقطع کردینا اور فلسطینیوں کے لیے امن وسکون کا ماحول ہموار کرنا وقت کا سب سے بڑا جہاد ہے۔ ۱۹۴۸ء کے بعد ہی سے اتنا سب کچھ ہورہا ہے؛ لیکن اتنے عرب اور مسلم حکمراں ان مٹھی بھر افراد کو سبق نہیں سکھا سکے، ایسی صورت حال میں اس کے علاوہ کیا کہا جائے گا کہ ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچا جارہا ہے؛ لیکن تمہیں اپنی مجرمانہ خاموشی پر شرم تک محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ اس سے بری صورت حال یہ ہے کہ اس ظلم کے خلاف مغربی ممالک میں احتجاج ہورہے ہیں؛ لیکن تم اپنے ملکوں میں اس کے خلاف احتجاج بھی نہیں ہونے دے رہے ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو یاد رکھو: "جب تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اول اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے، اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے، یعنی دل سے برا سمجھے اور دل میں یہ ارادہ لیے رہے کہ اللہ تعالی جب بھی قدرت دیں گے، وہ اسے روکنے کی کوشش کرے گا" (ابوداؤد، حدیث نمبر:۴۳۴)۔
پھر میرے نفس نے کہا: "شرم تم کو مگر نہیں آتی" سے میری مراد اسرائیل، اقوام متحدہ اور دنیا کی وہ بڑی بڑی طاقتیں ہیں، جو انسانیت اور امن عالم کی بات کرتی ہیں، کیا انہیں سرزمین فلسطین میں خاک و خون میں تڑپنے والی معصوم لاشیں نہیں دکھائی پڑ رہی ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اسکولوں، اسپتالوں اور انسانی آبادیوں کو حملہ کا نشانہ بنایا جائے اور یہی نہیں؛ بلکہ خاک وخوں میں تڑپتی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں اور لطف اندوزی کا اظہار کرتے ہیں، آج سے چند سال پہلے کی بات ہے، سی این این ٹیلی ویزن کی ایک رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی کہ جب اسرائیلی جیٹ طیارے اسرائیل اور مصر کی سرحد کے درمیان محاصرے میں قید نہتے فلسطینیوں پر بمباری کررہے تھے، تو وہاں کے عوام کی اکثریت اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے یہ مناظر دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دے رہی تھی، سی این این کے ایک نمائند ے نے انہیں کہا کہ اس وقت فٹ بال ورلڈ کپ کے اہم میچ ہورہے ہیں اور تمام دنیا ان میچوں کو دیکھنے میں مگن ہے، تو ان بے حس یہودیوں نے جواب دیا کہ وہ ورلڈ کپ کے فٹ بال میچوں کی بجائے جیٹ طیاروں کی بمباری سے زیادہ لطف اٹھارہے ہیں۔ آپ خود سوچیے اب ایسے لوگوں سے انسانیت کی کیا امید کی جاسکتی ہے، ان کی اس بے غیرتی پر یہی تو کہا جائے گا کہ ظلم کر رہے ہو اور مظلومین کی تباہی پر شاداں وفرحاں بھی ہو ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔
اتنی باتیں کہہ دینے کے بعد بھی، میرا نفس ذہن ودماغ کو جھنجھوڑتے ہوئے، اپنے درد بھرے نصیحانہ انداز میں "شرم تم کو مگر نہیں آتی" کے مصداق مزید سمجھتا رہا اور بہت سارے سوالات قائم کرنے کے بعد کہنے لگا: کہاں تک شمار کراؤں اور تفصیل بتاؤں، اتنا سمجھو کہ میری مراد ہر وہ اصحاب قلم، اصحاب اقتدار، اہل دانش و بینش، اصحاب مدارس و مکاتب، ارباب علم و فن، اصحاب صحافت، ذمہ داران میڈیا اور عوام الناس ہیں، جو اس ظلم کے خلاف اپنی اپنی بساط کے مطابق مضبوط قدم نہیں اٹھارہے ہیں، احتجاج و مظاہرہ کرنا بھی غم و غصہ کا اظہار ہے؛ لیکن اس سے یہ لوگ سمجھنے والے نہیں ہیں، ایسا قدم اٹھایا جائے جس سے وہ کمزور ہوں، ان کو اپنے ظلم کا احساس ہو اور وہ اس سے باز آئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا اور خاموشی اختیار کیے رہنا بھی ایک طرح سے ظالم کا ساتھ دیناہے، اس سے اس کے حوصلے بڑھتے ہیں اور اس کے اندر ڈھٹائی پیدا ہوتی ہے۔ ہم انسانوں کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ بہت ساری جگہوں میں ہم یہ احساس لیے رہتے ہیں کہ صرف میرے آواز اٹھانے سے، یا میرے بائیکاٹ کرنے سے کیا ہوگا؟ یہ سوچ بالکل غلط ہے؛ کیوں کہ قطرہ قطرہ دریا می شود، ماحول بنانے سے بنتا ہے، ایک اینٹ کے رکھنے کے بعد ہی اس پر بڑی بلڈنگ تیار ہوتی ہے، یک بیک کوئی کام نہیں ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اے اللہ! ہم سب کو یعنی سارے انسانوں کو حق بات سمجھنے، اس کی حمایت کرنے، اپنی بے غیرتی کو ختم کرنے اور غیرت والا مردانہ کام کرنے کی توفیق دیدے ، آمین۔
(مضمون نگار مشہور اسلامی اسکالر، دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد کے سنیئر استاذ اور متعدد تعلیمی و تربیتی اداروں کے سرپرست اور رکن ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں