فلسطینیوں کے اقدامی حملوں سے اسرائیلیوں میں خوف کی لہر
ڈاکٹر ساجد عباسی
امریکہ کی بے تحاشا مدد کے باوجود صیہونی طاقت حماس کو زیر کرنے سے قاصر وحشتناک بمباری کا صبر واستقامت سے مقابلہ۔ اہلِ غزہ کو مصرو اردن کی سمت دھکیلنے میں اسرائیل تاحال ناکام حالات مساعد ہوں یا نامساعد جنگ ہر حال میں ناگوار ہی محسوس ہوتی ہے لیکن اس میں اللہ نے بہت برکات رکھی ہیں جس سے کفر کے علمبرداروں کی سیاسی و عسکری بساط الٹ جانے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ غزہ میں وحشتناک بمباری کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جس قدر اسرائیلی ظلم بڑھتا جا رہا ہے اسی قدر اللہ تعالی ٰ مجاہدین کو غیبی مدد کے ذریعے اسرائیلی فوجیوں پر غلبہ عطا کر رہا ہے۔ مجاہدین اب تک صرف غزہ کے اندر رہ کر اندھے راکٹ فائر کر رہے تھے جن میں سے بیشتر آئرن ڈوم کی زد میں آکر تباہ کردیے جاتے تھے اور کچھ نامعلوم مقامات پر گرتے تھے، لیکن اب مجاہدین غزہ میں داخل ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کو ٹینک سمیت واصلِ جہنم کر رہے ہیں، مزید یہ کہ اسرئیلی مقبوضہ زمین میں داخل ہوکر اقدامی حملے بھی کر رہے ہیں اور اس میں ان کو کامیابیاں بھی مل رہی ہیں۔دوسری طرف اسرائیل کا حکمراں پاگلوں کی طرح حماس سے لڑنے کے بجائے معصوم اور نہتے شہریوں پر بمباری کرنے ہی کو اپنی کامیابی سمجھ رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ جنگ بچوں اور عورتوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر اور زخمیوں کو علاج سے محروم کرکے اور اہلِ غزہ کو غزہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ اسرائیلی حکمران کی کوششوں کا ہدف یہ ہے کہ فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں دھکیل دیا جائے اور اسرائیل کو فلسطین سے خالی کروادیا جائے۔ اس کے بعد حماس سے نمٹنے کا ایک ہی واحد حل یہ رہ جاتا ہے کہ ان پر نیوکلیر حملہ کرکے ان کا مکمل صفایا کر دیا جائے۔ اس کے پیچھے مذہبی مقاصد سے زیادہ معاشی و سیاسی مقاصد بھی ہیں۔ایک طرف غزہ کے سمندر میں دریافت شدہ تیل اور گیس کی نکاسی کرنی ہے تو دوسری طرف امریکہ یہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب کے اندر سے ایک ایسا تجارتی راستہ نکالا جائے جو اسرائیل سے ہوتے ہوئے تجارتی مال کو یورپ میں لے جایا جاسکے۔ اس سے وہ یہ چاہتے ہیں کہ مصر کی سوئز کنال کی افادیت بے سود ہو کر رہ جائے۔ اس لیے وہ ہرحال میں بمباری کے ذریعے تمام عمارتوں کو منہدم کرکے میدان بنانا چاہتے ہیں۔اس لیے حماس سے لڑنے سے زیادہ ان کے نزدیک اس بات کی اہمیت ہے کہ وہ غزہ کی شہری آبادی پر بے تحاشا بمباری کرکے ان کو غزہ سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ ان کی تدبیر ہے لیکن ہر زمانے میں اللہ ہی کی تدبیر کامیاب ہوتی ہے۔ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ ہر زمانہ میں وقت کے فرعونوں کی تمام چالیں ناکام ہوتی چلی گئیں: وَقَدْ مَكَرُواْ مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ (ابراہیم:46)’’انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں‘‘۔ اب تک کہا جا رہا تھا کہ فلسطینی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ دو ریاستی حلTwo State Solution پر کام ہو اور اسرائیلی ریاست کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست بھی قائم ہو۔ لیکن اب ایسے حالات رونما ہو رہے ہیں جس میں خود یہودی ریاست کا وجود خطرہ میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ یہودی خود اسرائیلی ریاست کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہو رہے ہیں جنہیں دنیا بھر سے لا کر یہاں بسایا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس دوسرے ملکوں کی بھی شہریت موجود ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی شکست خوردگی کو دیکھ کر امریکہ اور یوروپی ممالک حیرت اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ایسی حالت میں دنیا کی دوسری فوجیں آکر اسرائیلی فوجیوں کی جگہ پر نہیں لڑ سکتیں۔ قوی امکان ہے کہ ان کا بھی یہی حشر ہو۔ اس لیے یہ تصور یقین کی صورت اختیار کر رہا ہے کہ اسرائیلی فوج بے انتہا مہلک اسلحے اور امریکہ اور یوروپ کی حمایت کے ساتھ بھی حماس کو کنٹرول کرنے میں بالآخر ناکام ہوگی۔دوسری طرف حماس کی پشت پر ایران اور ایران کی حلیف قوتیں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ایران کو اس بات کی پروا نہیں ہے کہ غزہ میں کتنے فلسطینی مرتے ہیں۔ایران کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ حماس کے ذریعے اسرائیل کمزور ہو رہا ہے۔ ایران کے زیرِ اثر ایک طرف لبنان میں جزب اللہ ہے، یمن میں حوثی لڑاکے ہیں اور عراق اور شام میں ایران نواز ملیشیا ہیں۔ ایران چاہتا ہے کہ فلسطین کی جنگ میں ہر اول دستہ حماس اور نہتے سنی مسلمان ہوں۔ اب تک صرف ایران نواز طاقتیں ہی کچھ مزاحمت دکھا رہی ہیں جبکہ سنی حکومتوں کی طرف سے کچھ زبانی دعوے ہیں یا منافقت سے بھری خاموشی اور تذبذب ہے۔ایران کے جرأت مندانہ موقف کے پیچھے روس اور چین کی یقینی پشت پناہی ہے جس کو یوروپ،امریکہ اور اس حلیف عرب ممالک بھی محسوس کرتےہیں۔ امریکہ کو اس بات کی فکر بھی کھائے جا رہی ہے کہ اسرائیل اتنی مدد کے باوجود حماس کو قابو کرنے سے کیوں قاصر ہے۔ دوسری طرف اس کو اپنے فوجی اڈوں کی فکر ہے جو اس نے عرب ممالک میں قائم کر رکھے ہیں۔ جب اسرائیلی حکومت کا خاتمہ ہوگا تو امریکہ کے یہ فوجی اڈے بھی روس اور چین کے زیرِ اثر ان ممالک میں باقی نہیں رہ سکتے۔ اب بات صرف یہ نہیں ہے کہ اسرائیلی ظالمانہ حکومت باقی رہے گی یا نہیں بلکہ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ امریکہ کا ظالمانہ تسلط بھی عالمِ اسلام سے رخصت ہو سکتا ہے۔ اس جنگ نے پانسہ ہی پلٹ دیا ہے اور کئی ایسے امکانات کو جنم دیا ہے جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔یہ صرف اس لیے ہوا کہ حماس کی اسرائیلی فوج کے مقابلے میں کامیابیاں بالکل ہی غیر متوقع ثابت ہوئیں ہیں جن کا کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔ ۲۰۰۸ ء سے ۲۰۲۲ء تک کی جنگوں میں اہلِ غزہ کا یکطرفہ نقصان ہو رہا تھا اور اسرائیل کا بال بھی بیکا نہیں ہو رہا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا کہ اسرائیل کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا جس کے لیے وہ کسی بھی لحاظ سے تیار نہیں تھا۔ اس جنگ میں اسرائیلی فوجی بھی مر رہے ہیں،عام آبادی بھی نقلِ مکانی پر مجبور ہوئی ہے اور جنوبی یمن کے لڑاکے بحرِ احمر میں اسرائیلی جہازوں کی ناکہ بندی کرکے اسرائیل کو بھاری مالی نقصان سے دوچار کر رہے ہیں۔عسکری اور معاشی محاذوں پر اسرائیل بری طرح پٹ رہا ہے، اور ابھی تو ایران جنگ میں اترا بھی نہیں ہے۔ایران نے ٹھان لی ہے کہ اسرائیل کی ریاست کے ختم ہونے تک وہ اپنے حلیفوں proxiesکے ساتھ اسرائیل پر حملے کرتا رہےگا۔ جیسے ہی ایران پر حملہ ہوگا روس اور چین بھی جنگ میں داخل ہوجائیں گے۔ امریکہ اس جنگ میں براہِ راست اس لیے شرکت نہیں کر رہا ہے کہ اس کے فوجی اڈے اس جنگ کی زد میں آسکتے ہیں۔یہ واقعی معجزہ ہے کہ حماس کے جذبہ جہاد اور اہلِ غزہ کے صبر و استقامت کے نتیجے میں عالمی منظر نامہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح قرآن میں فرمایا: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (البقرۃ:216)’’تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ حالات مساعد ہوں یا نامساعد جنگ ہر حال میں ناگوار ہی محسوس ہوتی ہے لیکن اس میں اللہ نے بہت برکات رکھی ہیں جس سے کفر کے علمبرداروں کی سیاسی و عسکری بساط الٹ جانے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ اسی آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہےکہ آرام وآسائش کی چیزیں محبوب ہوتی ہیں لیکن اس میں زوال کے اسباب پوشیدہ ہوتے ہیں۔ امن کے علمبرداروں کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو دنیا میں امن و انصاف قائم ہوگا لیکن اگر ظالموں کے ہاتھوں میں اقتدار ہو تو پھر دنیا انسانی زندگی کے لیے ایک خطرناک مقام بن جاتی ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان جو امن و انصاف کے امین ہیں وہ دنیا کی فکری قیادت کے ساتھ عسکری طور پر اہلِ کفر وشرک پر غالب رہیں۔ ہم یہ دیکھیں کہ حق و باطل کے درمیان کشمکش کا راز کیا ہے؟ دنیا میں چونکہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کا امتحان لینا مقصود ہے اس لیے اس امتحان کے لیے کسی نہ کسی حد تک فکر وعمل کی آزادی دی جاتی ہے جس کے بغیر امتحان کا مقصد پورا نہیں ہوتا، اور جب وسائل کے ساتھ آزادی دی جاتی ہے تو ان وسائل اور اس آزادی فکر وعمل کا غلط استعمال بھی ہوگا جس کے نتیجہ میں ظلم،ناانصافی اور قتل وغارتگری ہوگی۔اسی بات کو فرشتوں نے سوال کے انداز میں پیش کیا تھا کہ: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (البقرۃ:39)’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں“ انہوں نے عرض کیا ”کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں“ فرمایا ”میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جواب دینے کے بجائے یہ فرمایا کہ تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پیشِ نظر ایک اعلیٰ مقصد ہے جس کے لیے اس عارضی دنیا میں ظلم و ستم کو ایک حد تک ہونے دیا جاتا ہے۔ اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان جیسی ذی شعور مخلوق کا امتحان لیا جائے۔ لیکن اس ظلم کو لامحدود طریقے پر ہونے نہیں دیا جاتا جس سے ظالموں کو ساری دنیا کےانسانوں کی نسل کشی کرنے اور ان کو تباہ وبرباد کرنے کی کھلی چھٹی مل جائے۔اگر ایسا ہوتا تو پھر انسانی نسل ہی خطرہ میں پڑ جاتی اور امتحان کا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا۔یہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا ایک اہم ثبوت ہے کہ اس دنیا میں ظالم کو ایسی چھوٹ نہیں ملتی کہ وہ اپنے ظلم کو لامنتاہی طور پر جاری رکھ سکے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:۔۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج:4) ﴿اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے جبار ومتکبر گزرے ہیں جن کو جب اقتدار دیا گیا تو وہ اپنے آپ کو خدائی کے مقام پر سمجھنے لگے اور انہوں نے اپنے پیش رؤوں سے سبق نہیں سیکھا اور سرکشی کی ان حدوں کو پار کیا جہاں سنتِ الہی کے مطابق اللہ مستکبریں کو پکڑتا ہے اور ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ نمرود نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر یہ سمجھا کہ وہ حق کی آواز کو ہمیشہ کے لیے دبا دے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بچاکر ان کو دنیا میں انسانیت کا امام بنایا۔فرعون نے یہ سمجھا تھا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرکے وہ بنی اسرائیل کی نسل کشی کرتے ہوئے ان کو دائمی غلامی میں رکھے گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو اچانک پکڑا اور اس کی لاش کو نشانۂ عبرت بنا دیا۔ابرہہ نے اپنے کلیسا کو آباد کرنے اور کعبۃ اللہ کو ڈھانے کے لیے ہاتھیوں کا لشکر لےکر مکہ پر چڑھائی کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ابابیل کو بھیج کر اس کے لشکر کو بھوسا بناکر رکھ دیا۔ابوجہل نے مکہ میں تیرہ سال رسول اللہ ﷺ اور اصحابِ رسول کو ظلم کی تمام حدوں کو عبور کرکے ہجرت پر مجبور کیا اور ہجرت کے بعد بھی مدینے کی ریاست کو نیست ونابود کرنے کی جسارت کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے استکبار میں شریک ستر سرادارانِ قریش کو ایک ہی ضرب میں کیفرِ کردار تک پہنچادیا۔ روم وایران کی حکومتیں جو اپنے وقت کی سوپر طاقتیں تھیں اور جو اپنے ہی عوام پر جبر واستبداد کے ساتھ حکومتیں کر رہی تھیں ان کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار کر دیا گیا۔خلافتِ راشدہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے عربوں کو دنیا کا فاتح بنادیا اور وہ دنیا میں چھ صدیوں تک قوتِ واحدہ بنے رہے، لیکن جب خلافت کے نام پر بدترین طریق ملوکیت پر گامزن رہے اور دعوت و عزیمت کے راستے کو ترک کردیا تو اللہ تعالٰی نے عباسی خلافت کو ۱۲۵۸ء میں تاتاریوں کے ہاتھوں شکست وریخت سے دوچار کر دیا۔اس کے بعد اللہ تعالٰی نے خلافتِ عثمانیہ کو دنیا میں موقع عطا فرمایا جو ۱۲۹۹ء میں قائم ہوئی اور اس کا خاتمہ ۱۹۲۲ء میں ہوا۔ خلافتِ عثمانیہ کا زوال پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر اس وقت ہوا جب اس کے حکمراں نے اس وقت کی سوپر پاور برطانیہ کے مقابلے میں جرمنی کے بلاک میں شامل ہونے کا غلط فیصلہ کیا تھا۔ برطانیہ کی فتح کے بعد خلافتِ عثمانیہ ہر لحاظ سے سر نِگوں ہوکر موجودہ ترکیہ کی حد تک سمٹ گئی۔ برطانیہ کا عروج سترہویں صدی کے اوائل سے شروع ہوتا ہے اور اس کی وسعت انیسویں صدی میں( ۱۸۱۵ تا۱۹۱۴)بامِ عروج پر پہنچتی ہے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد عظیم برطانیہ سارے عالم سے سمٹنے لگا اور ان تمام علاقوں سے دستبردار ہونے لگا جس کو نوآبادیاتی coloniesبنایا گیا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں بھارت بھی برطانیہ سے آزاد ہوا۔جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکہ بہت تیزی سے ترقی کرتا رہا اور سویت یونین سے عسکری مسابقت کی وجہ سے امریکہ فوجی لحاظ سے ناقابلِ شکست قوت بن کر ابھرا۔سویت یونین جب افغانستان میں گھسا تو وہ شکست و ریخت کے بھنور میں ایسا پھنسا کہ بالآخر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہا جس کے نتیجہ میں کئی مشرقی یوروپ کے ممالک آزاد ہوئے اور سویت یونین ایک ملک کی شکل میں باقی رہ گیا جس کو روس کہا جاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب جبر واستبداد کے ساتھ عالمی طاقتیں کمزور ممالک پر چڑھ دوڑتی ہیں تو وہی غریب ممالک ان کے لیے قبرستان ثابت ہوتے ہیں۔امریکہ نے بھی ویتنام کے بعد مسلم ممالک کا رخ کیا اور افغانستان وعراق میں لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کرکے وہ بھی کمزور ہوتا چلاگیا۔۱۹۴۸ء میں برطانیہ اور اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد امریکہ نے اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کو اپنے اوپر لازم کرلیا اور آج بھی کر رہا ہے۔اب حالیہ جنگ میں امریکہ کی غیر محدود مدد نے اسرائیل کو بدترین جرائم کا مجرم بنادیا ہے۔دو ماہ سے زائد عرصہ میں انتہائی خوفناک بمباری کرکے بچوں اور عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے ظلم کی وہ حد پار کر دی ہے جس حد کے عبور کرنے پر اللہ تعالٰی وقت کے فرعونوں کو ہر زمانے میں پکڑتا رہا ہے۔امریکہ کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے بنانے سے زیادہ بگاڑنے اور اصلاح سے زیادہ فساد کا کام انجام دیتا رہا ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانے کے ہر فرعون کو کم وبیش ایک صدی تک موقع دیتا رہا اور اس کے بعد اس کو سختی سے پکڑتا رہا ۔اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی پشت پناہی میں تقریباً ایک صدی سے اسرائیل فلسطین میں وحشت ناک مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت قریب آلگا ہے کہ سیاسی وعسکری طاقت کا توازن بدلے گا اور کسی اور ملک یا بلاک کو کو سیاسی ،معاشی و عسکری قیادت منتقل ہوگی ۔ غیر مسلم طاقتوں کے درمیان عروج و زوال کے پیمانے قوموں کے اندر بنیادی انسانی اخلاقیات basic ethics اور عسکری طاقت پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن امتِ مسلمہ کے بارے میں عروج و زوال کا بس ایک پیمانہ ہے وہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے جس کا امین بناکر اس کو دنیا میں برپا کیا گیا۔اسی ہدایتِ ربانی (قرآن) میں عروج کا راستہ بتلایا گیا ہے کہ دعوت اور جہاد کو جب بھی فراموش کیا جائے گا امت کا زوال شروع ہوجائے گا۔ ہر روز اہلِ غزہ کو ڈرایا جاتا ہے کہ ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا، ان پر نیوکلیر بم گرائے جائیں گے لیکن الحمدللہ وہ ہر دھمکی کو سن کر صبر وثبات کا چٹان بن جاتے ہیں اور اسی چھوٹی سی جغرافیائی پٹی میں جینا اور مرنا چاہتے ہیں لیکن جلا وطن ہونا نہیں چاہتے۔ جیسے غزوہ احد کے بعد مسلمانوں کو ڈرایا گیا تھا:الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ )آل عمران:173) اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ ”تمہارے خلاف بڑی فوج جمع ہوئی ہیں، ان سے ڈرو“ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے) جنگ کے خطرناک نتائج سے جب سچے اہلِ ایمان کو ڈرایا جاتا ہے تو ان کے سامنے دو چیزیں سامنے ہوتی ہیں، یا تو شہادت کی موت سے سرفراز ہو کر اللہ کے پاس مہمان بن کر رزق پا رہے ہوں گے یا وہ غازی بن کر دنیا میں سرخ رو ہوں گے۔اہلِ غزہ ان دنوں زندگی کو باقی رکھنے والی چیزوں سے زیادہ موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔آخرت کا یقین ان کے حوصلوں کو اور بڑھا دیتا ہے۔ ان کو اس بات کا بھی علم ہے کہ وہ اس جنگ میں شامل ہو کر کسی حماقت کا ارتکاب نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کو یقین ہے کہ یہ جنگ ظالم کے ظلم کے خلاف اللہ تعالیٰ کی اجازت سے لڑی جارہی ہے اور ان کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے اور ساری عالمی طاقتوں کے مقابلے میں اللہ سپریم پاور ہے۔ چونکہ ان کے نوجوانوں کو دنیاوی اعلٰی تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے اس لیے ان کے بچے اکثر حافظِ قرآن ہیں اور علومِ قرآن سے واقف ہیں۔ وہ جہاد سے متعلق آیات سے واقف ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (الحج:39) ’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے‘‘۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مجاہدین کو فتح نصیب فرمائے دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنادے۔ شہداء کے خون کو نتیجہ خیز بنا دے۔ مسجدِ اقصیٰ کو صیہونیوں کے تسلط سے آزاد کرادے اور ۷۵ سالوں کی جدوجہد کو اہلِ فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کی شکل میں کامیاب بنادے۔ آمین یا رب العالمین۔ بشکریہ : ہفت روزہ دعوت
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں