پاکستان کا دھمکی آویز رویہ

اس طرح کی صورت حال کے باوجود پاکستان اگر ہند کے ساتھ جارحانہ پالیسی اختیار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اپنی غلط روش کا اظہارکر رہا ہے۔
پاکستان اپنی کسی دھمکی سے اپنا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کر سکتا بلکہ اپنے لیے تلخ راہ اختیار کررہا ہے جس سے اس کو صرف نقصان ہی ہے۔ اس لیے وہ اپہنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ترک کردے اور ہندوستان یہ ہی چاہتا ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی کو مکمل طور پر ختم کرے تب ہی کوئی بات ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان کئی بار کہہ چکا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کرے گا وہ غیر مشروط ہوگی؛ لیکن ہندوستان کی پہلی شرط یہ ہی ہے کہ وہ اس سے اسی صورت میں بات کرے گا کہ وہ پہلے دہشت گردی ترک کرے اور جو بات چیت ہوگی وہ اسی موضوع پر ہوگی کہ دہشت گردی ختم کی جائے۔ اس بات سے اقوام متحدہ کو مطلع کیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو ۲۳ اگست ۲۰۱۵ء کو بات چیت ہونے والی تھی وہ پاکستان نے ہندوستان کی مشروط بات چیت سے اتفاق نہ کرتے ہوئے مسترد کر دی اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات نہیں ہوسکے، حالانکہ اقوام متحدہ کو اطلا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے سیاسی آقا امریکہ کو مطلع کیا ہے اور وہ پاکستان کو کونسی پالیسی پر عمل کرنے کو کہتا ہے پاکستان کو اس پالیسی کا انتظار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ہندوستان کے ساتھ جو بات چیت سے متعلق ایجنڈا ہے وہ سب امریکہ کی مرضی کے مطابق ہے وہ جیسا اور جس طرح چاہتا ہے۔ ایجنڈا تیار کرتا ہے ۔ اس روشنی میں یہ ہی کہا جائے گا کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ جو اس طرح کی دھمکیاں دیتا ہے وہ امریکہ کی درپردہ حمایت پر ہے؛ لیکن پاکستان کو یہ یاد کرنا چاہئے کہ جب ہند۔پاک کے درمیان جنگ ہورہی تھی امریکہ نے پاکستان کی مدد کے لیے اعلان کیا تھا؛ لیکن وہ مدد کسی بھی طرح نہیں کی گئی جبکہ پاکستان ہند کے ہاتھوں پسپا ہوگیا تھا۔ 

«
»

فخرالحکماء حکیم سید ضیاء الحسن کی فنِ طب کیلئے خدمات

مسلم قیادت کا فقدان !ایک لمحہ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے