نعیم کوثر کی افسانہ نگاری’آخری رات‘ کے تناظر میں

عارف عزیز (بھوپال)
اُردو شاعری میں غزل کو جو اہمیت حاصل ہے، وہی مقام اُردو نثر میں افسانہ کے لیے متعین ہے، غزل گو ہوں کہ افسانہ نگار، دونوں قاری کا زیادہ وقت نہیں لیتے، چندمنٹ میں اُسے ادبی لطف و مسرت سے ہم کنار کردیتے ہیں، غزل اور افسانے کی مقبولیت کا راز بھی یہی ہے، دونوں اصناف میں طبع آزمائی کرنے والوں کی کثرت بھی اِسی لیے نظر آتی ہے کہ اُن کی تخلیق نہ طولِ عمل ہے نہ دقّت طلب، نہ اِس میں زیادہ ذہن سوزی سے گزرنا پڑتا ہے، ہمارے یہاں ایسے غزل گو بھی ہوئے ہیں جو چلتے پھرتے غزل کہہ لیتے تھے، جہاں تک غزل و افسانہ کے معیار کا تعلق ہے تو اُس کا انحصار تخلیق کار کی ذہنی زرخیزی اور صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔
آج کی برق رفتار زندگی میں نہ لکھنے والوں کے پاس اِتنا وقت ہے کہ وہ طویل مثنوی لکھیں یا ناول نویسی کو اپنائیں، نہ پڑھنے والوں کو اِتنی فرصت ہے کہ وہ اِن اصناف کے مطالعہ کے لیے وقت نکالیں۔ فی زمانہ ناول نویسی اور مثنوی نگاری پر توجہ نہ دینے کی وجہ یہی ہے کہ مثنوی اور ناول سنانے کی محفلوں کا چلن نہیں ہے جب کہ مشاعرے اور افسانوں پر سیمینار اور ادبی محفلوں کی گرماگرمی ادبی روایت کا حصّہ رہی ہیں۔
جس طرح غزل ہر زمانے میں کہی گئی اور اپنے دور کے تقاضوں کا احترام کرتے ہوئے اُس نے عصری مسائل سے خود کو ہم آہنگ رکھا، اُسی طرح افسانے میں بھی اپنے عصر کے حالات و کوائف کی ترجمانی کو اوّلیت دی گئی ہے، پریم چند سے لے کر آج تک ایک صدی سے زائد مدّت ہوئی، افسانے نے کئی رنگ بدلے لیکن بحیثیت مجموعی وہ افسانہ ہی رہا، یہ صحیح ہے کہ اُردو میں افسانہ کی ابتداء عشقیہ و رومانی کہانیوں سے ہوئی لیکن جلد ہی اُس کے لکھنے اور پڑھنے والوں کو احساس ہوگیا کہ افسانہ کا موضوع عورت اور اُس سے محبت تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ زندگی کے دوسرے مسائل و مطالبات کو اِس میں نمائندگی ملنا ضروری ہے، فکرونظر کی یہی تبدیلی ترقی پسند افسانہ کی بنیاد بنی اور جو افسانے لکھے گئے وہ افسانوی ادب کا سنہری سرمایہ قرار پائے، جس میں موضوع، مواد اور اُسلوب کے ایسے کامیاب تجربے ہوئے کہ اُردو افسانہ مغربی افسانے سے آنکھیں چار کرنے کے قابل ہوگیا لیکن ترقی پسند تحریک کے غلبہ سے افسانے میں سیاست کا عمل ودخل بڑھ گیا، جس نے ساری لطافت اور حسن کو اُس سے چھین لیا، اِسی دور میں جہاں مارکسی و اشتراکی نظریات کی یلغار ہوئی، وہیں جنسی پیچیدگیاں افسانے کا موضوع بنیں اور نئے عہد کے وجودی افکار نے افسانے کو داخلیت پسندی، علاماتی اور اشاراتی کیفیت سے ہم آہنگ ہونے کی راہ ہموار کردی، اِس کا عمومی مزاج، غم و یاس، تنہائی، زندگی کی لایعنیت وغیرہ تک محدود ہوگیا۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں اُردو کے معتبر افسانہ نگار نعیم کوثر کی افسانہ نگاری کا آغاز ہوتا ہے، اُن کا پہلا افسانہ ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا اور سات مجموعے ’خوابوں کا مسیحا‘، ’کال کوٹھری‘، ’رگِ جاں کا لہو‘، ’اقرارنامہ‘، ’اگنی پریکشا‘، ’آخری رات‘، ’کہرے کا چاند‘۱۹۹۹ء سے ۲۰۲۰ء تک مسلسل شائع ہوتے رہے، اِن افسانوں کی خوبی یہ ہے کہ اِنھیں نعیم کوثر نے افسانہ ہی رہنے دیا اور تجریدی اشاریتی یا پلاٹ لیس قسم کے افسانوں سے دور رکھا ہے، جیسے کہ اُن کے بعض معاصرین نے لکھے ہیں ،اُن کا پڑھنا قارئین کا امتحان ہوتا تھا، اِس کے برعکس نعیم کوثر کے افسانوں میں ایک الگ ہی فضا ملتی ہے اور افسانوں کی وہ تمام خوبیاں جن سے اُس کا وقار و اعتبار قائم ہے، نظر آتی ہیں۔
جیسا کہ عام طور پر افسانے کے بارے میں ناقدوں کا خیال ہے کہ سب سے پہلے افسانہ کو افسانہ ہونا چاہیے، اگر اُس میں کہانی، قصّہ، افسانہ پن نہیں ہے تو وہ اور کچھ بھی ہو افسانہ نہیں ہوسکتا۔
نعیم کوثر کے افسانوں کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اُس کی کہانی ہوتی ہے وہ افسانوں کی فضا کو بھی برقرار رکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ کہانی کہنے کا ہنر اُنھیں آتا ہے۔ وہ نہایت دلچسپ پیرایہ میں کہانی سناتے ہیں، قلم پر اُن کی گرفت مضبوط ہے، جس سے افسانے دلچسپ اور مؤثر ہوجاتے ہیں۔
نعیم کوثر کے افسانوں کا مجموعہ ’آخری رات‘ کے سبھی افسانے میں نے پڑھے ہیں، وہ کردارنگاری کا فن جانتے اور افسانوں میں برتتے ہیں لیکن اِسی کے ہوکر نہیں رہ جاتے، اُن کے افسانے بہت زیادہ طویل نہیں ہوتے چار پانچ صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں، ’آخری رات‘ میں اُن کے 17افسانے ہیں، بعض افسانے پہلے بھی پڑھے اور دوچار اُن کی زبانی سننے کا اتفاق ہوا، افسانے پڑھنے اور سنانے کا اُن کا طریقہ بھی متاثر کرتا ہے، ’آخری رات‘ کا پہلا افسانہ’کالا دوپٹہ‘ ایک جذباتی افسانہ ہے، جس میں اظہر اور سورج کے کردار گہرا تاثر چھوڑتے ہیں، بعض افسانوں کے بارے میں نقاد گومگوں کی کیفیت کا شکار ہوکر کہتے ہیں کہ ایسا ہوتو نہیں سکتا لیکن ہوبھی سکتا ہے، یا افسانہ کا انجام چونکا دینے والا ہے۔
نعیم کوثر کے یہاں بھی یہ کیفیت بعض افسانوں میں ملے گی جیسے ’اُڑن چھو‘ میں۔ قصہ اپنی جگہ، منظرنگاری اور چُنی خالہ کا کردار متاثر کرتے ہیں اور معاشرے کے کئی چہروں کے نقاب اُلٹ جاتے ہیں، مثال کے طور پر ’انوپ نگر کے مردوں کا چُنی خالہ کے ساتھ برتاؤ، مردوں کی مرادرنگی نے اُن کے جسم کو کھوکھلا کردیا تھا۔ چہرہ اور گردن پر جھرّیوں کا جال بچھ گیا تھا، پنڈلی اور رانوں کی آب و تاب ماند پڑگئی، پھٹی ٹی شرٹ ناف کے نیچے آگئی۔ بالوں میں چاندی کے تار اُبھر آئے۔ آواز اِتنی کمزور ہوگئی کہ ’اُڑن چھو۔ اُڑن چھو‘‘ اِتنی آہستگی سے کہتیں مانو پھونک مار رہی ہوں‘۔ (ص: ۲۹) کردار نگاری کے لحاظ سے ممتا کی انگڑائی ایک مؤثر افسانہ ہے، اِس میں منظرنگاری بھی بے مثال ہے اور کردار نگاری بھی لاجواب ہے۔ نعیم کوثر کے اِس افسانے میں کہانی کی جملہ خصوصیات جمع ہوگئی ہیں خاص طور پر حشمت علی خاں کا کردار، دیکھئے وہ اِس بارے میں لکھتے ہیں:
’’حشمت علی خاں نے اُسی انداز میں مونچھوں پر تاؤ دینے کی کوشش کی، جیسے ۴۰ سال پہلے دفتر جاتے وقت وہ کیا کرتا تھا، اُنگلی اور انگوٹھے سے مروڑ مروڑ کر تیر کی نوک سی نوکیلی بناکر سینہ پھلا لیا کرتا تھا۔ بھرا ہوا چہرہ، گٹھیلا جسم، سرخ گال، بادام کی طرح آنکھیں، چوڑی پیشانی اور موٹی موٹی کلائیاں کہ ہر سال گھڑی کی چین بدلوانی پڑتی تھی اور اڑتالیس انچ کی چھاتی‘‘۔
نعیم کوثر کے دوسرے افسانوں میں بھی نہایت چابک دستی اور اختصار کے ساتھ کردارنگاری کے ایسے نمونے مل جاتے ہیں، خاص طور پر ’آخری رات‘ میں شنّو کا کردار یا ’رتی لال‘ میں رتی لال کا کیریکٹر اُردو کے افسانوی ادب کے مؤثر کرداروں میں شامل ہونے کے قابل ہیں۔ ’خدائی خدمت گار‘ بھی کردارنگاری کے لحاظ سے ایک تاثر چھوڑنے والا افسانہ ہے، کردار نگاری میں نعیم کوثر کا یہ بھی امتیاز ہے کہ کردار
جس معاشرہ اور پس منظر کا ہو اُس کے لیے وہ اُسی سطح کا لب و لہجہ استعمال کرکے افسانہ کے تاثر کو دوبالا کردیتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے افسانوں میں تخیل سے کام ضرور لیا ہے لیکن اُسے آزاد نہیں چھوڑا، ضرورت کے مطابق برتا ہے، اِسی لیے اُن کے یہاں حقیقت نگاری کا عنصر زیادہ ہے، اِس مقصد کے حصول کے لیے اُنھوں نے اپنے ماحول، اِردگرد کی زندگی، اپنے علاقے اور ملک کا منظر پیشِ نظر رکھا ہے۔ اُن کا افسانہ ’پناہ گاہ‘ ایک ایسی ہی تخلیق ہے، اِس میں متوسط طبقہ کے وہ مسائل جو اُسے آئے دن پیش آتے ہیں اور زندگی اجیرن بن جاتی ہے لڑکی کی شادی کا مسئلہ، جس سے ڈاکٹر نایک اور نِرملا نایک دوچار ہوتے ہیں، کو موضوع بنایا گیا ہے اور تعلیمی اداروں کا حال سامنے آجاتا ہے۔ افسانہ ’گیان کا مندر‘کا مرکزی خیال ایک غلط فہمی ہے، جو پڑھنے اور جائزہ لینے کا تقاضہ کرتی ہے۔
اِسی کے مثل ’چیلیں‘ معاشرتی پس منظر کا افسانہ ہے اور ’اماوس‘ لسانی و سماجی مسائل پر تحریر دلچسپ افسانہ ہے، جسے ہم انشائیہ کہہ سکتے ہیں، ’آخری رات‘ کے کئی افسانوں میں بھی کہیں کہیں یہ رنگ مل جاتا ہے، دیگر افسانے بھی پڑھنے کے لائق ہیں بالخصوص ’اُجلا اندھیرا‘، ’اُٹھو مومنو‘، ’چمتکار‘ ، ’چندن پور کا چاند‘، ’نجات‘، ’رتّی لال‘ اور ’للکار‘ میں چلتے پھرتے انسانوں کے کردار کوالفاظ و بیان کے ذریعہ نعیم کوثر نے اِس طرح سمودیا ہے کہ سچائی اور حقیقت کا وہ آمیزہ بن جاتے ہیں، یہ کسی بھی افسانہ کی کامیابی کی معراج ہواکرتی ہے، افسانہ لکھنے کے لیے افسانہ رقم کرنا عام بات ہے، کتنے ہی افسانہ نگار اِسی طرح لکھتے ہیں لیکن جب افسانہ خود افسانہ نگار سے اُسے لکھواتا ہے تو افسانہ نگار کی اپنی شناخت قائم ہوتی ہے، نعیم کوثر سنی سنائی باتوں سے سروکار نہیں رکھتے، اُن کی حالات و مسائل پر گہری نظر رہتی ہے اور ہر کیفیت کا احساس و ادراک بھی، اُن کے افسانوں کو پڑھ کر یہ نہیں سوچنا پڑتاکہ کیا ایسا بھی ہوتا ہے بلکہ یہ یقین ہوتا ہے کہ ہاں ایسا ہی ہوا ہے، خوب لکھا اور درست لکھا ہے۔

کرناٹک حکومت کا بڑا قدم : حصول اراضی کے لیے آن لائن نظام کا آغاز

یوپی حکومت پوری ریاست کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک رہی ہے :آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈنے مولانا توقیر رضا سمی تمام گرفتارشدگان کی فوری رہائی کا کیا مطالبہ