“وہ جو رخصت ہو کر بھی دلوں میں زندہ رہا : نوید بھائی کی ناقابلِ فراموش رفاقت”

وہ ایک دراز قد، خوبرو اور باوقار نوجوان تھا، جس کی شخصیت پہلی ہی ملاقات میں دل پر نقش چھوڑ دیتی تھی۔ دراز قد اور وجیہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خوش گفتار، متوازن مزاج اور سنجیدہ طبیعت کا حامل تھا۔ وہ ایسا نوجوان تھا جس کی سیرت اس کی صورت سے کہیں زیادہ دل کش تھی۔ باکردار، بااخلاق، سنجیدہ فکر اور حالات پر گہری نظر رکھنے والا انسان، جس کے ساتھ بیٹھ کر ایمان اور ہمت دونوں تازہ ہو جاتے تھے۔

ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ منگلور میں والدِ ماجد کے علاج کے سلسلے میں جانا ہوا تو اس سے خوب ملاقات رہی ، پرانی یادیں تازہ ہوئیں ، بار بار وہ مجھے اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تاکید کررہا تھا  لیکن کسے معلوم تھا کہ جو دوسروں کو صحت اور احتیاط کی نصیحت کر رہا ہے، اسے خود اپنی اندرونی کیفیت کا اندازہ نہیں۔ وہ اپنے جگری دوست یاسین اوٹی کے علاج کی غرض سے منگلور آیا ہوا تھا اور میں اپنے والدِ ماجد کے ہمراہ۔

کل عشاء کی نماز کے بعد جیسے ہی مسجد سے نکل رہا تھا کہ مولوی سید احمد ایاد ندوی کا فون آیا، اس نے پہلے ہی لمحے پوچھا کہ کچھ خبر ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ نہیں! اس نے دوبارہ پھر سہ بارہ پوچھا لیکن میرا جواب نفی میں تھا، دوبارہ انہوں نے پوچھا کہ نوید بھائی کی کچھ خبرہے؟ میں نے کہا کہ نہیں معلوم!  پھر آگے انہوں نے جو کچھ کہا اس سے میں چند لمحوں کے لیے وہیں ساکت ہو کر رہ گیا۔ زبان گنگ ہو گئی، اعضا جواب دے گئے، اور یوں محسوس ہوا جیسے وقت ایک دم رک سا گیا ہو۔۔ میں نے مولوی رضوان احمد ندوی کو فون ملایا جس کے بعد تصدیق ہوگئی کہ جس سے میں نے منگلور میں ملاقات کی تھی ، ماضی کی حسین یادیں تازہ کی تھیں وہ اب دنیا میں نہیں رہا۔

نوید بھائی سے میری شناسائی سن 2013 سے ہے، جب فکروخبر کے دفتر میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ وجیہ چہرہ، بارونق شخصیت، اپنے کام سے کام رکھنے والے، کم گو، حمیتِ دینی سے سرشار — ان کی کن کن صفات کا تذکرہ کیا جائے، کام میں معاونت کے دوران ان سے یارانہ تعلقات قائم ہو گئے۔ وہ اپنے مسائل مجھ سے بیان کرتے اور میں کسی مسئلے کے حل کے لیے ان سے رجوع کرتا۔ کام کے بعد دس پندرہ منٹ کی گفتگو معمول بن گئی تھی۔ دن بھر کے حالات بیان کیے جاتے، ملک اور عالمِ اسلام کے حالات پر تبادلۂ خیال ہوتا، اور پھر مجلس ختم ہو جاتی۔ بعض اوقات یہ نشست اتنی طویل ہو جاتی کہ وقت کا احساس ہی نہ رہتا۔

ان کی ہربات میں دینی فکر نمایاں رہتی۔ وہ ہمیشہ خدمت پر ابھارتے اور دنیاوی الجھنوں میں ضرورت سے زیادہ الجھنے کے بجائے دینی ترجیحات کی طرف متوجہ کرتے۔ کہتے ہیں نا کہ کسی کے اخلاق جانچنے ہوں تو اس کے ساتھ سفر کیا جائے۔ مختلف اسفار میں مولانا اظہر ندوی اور میں ان کے ساتھ رہا مگر کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں ملا۔ سفر میں بھی اپنے آرام سے زیادہ دوسروں کی فکر کرتے۔

ان سے دوستی کے بعد زندگی کے کئی اصول سیکھنے کو ملے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ حالات سے باخبر رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہر موضوع پر بولنا اور ہر بحث میں کود پڑنا ضروری ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ یہ جانتے ہوں کہ آپ کے اطراف کیا ہو رہا ہے — محلے میں، ملک میں اور عالمِ اسلام میں۔ کئی مرتبہ انہوں نے قدم قدم پر رہنمائی کی؛ صرف فکروخبر کے معاملات میں نہیں، بلکہ ذاتی زندگی کے اہم موڑ پر بھی ان کی رائے روشنی کا کام کرتی رہی۔ ان کی دور رس نگاہوں نے جو اس وقت دیکھ لیا تھا آج میں نے اپنی آنکھوں سے وہ چیزیں دیکھ لیں اور آج رہ رہ کر ان کی ہر بات یاد آرہی ہے۔

فکروخبر میں آنے کے بعد انہوں نے ادارہ کے لیے کئی ترقیاتی کام انجام دیے۔ انہی کے دور میں فکروخبر کا یوٹیوب چینل قائم ہوا، جس کے نتیجے میں بھٹکل اور اطراف میں سب سے پہلے ویڈیو نیوز پیش کرنے کا شرف فکروخبر کو حاصل ہوا۔ پھر یہ سلسلہ آگے بڑھ کر لائیو ٹیلی کاسٹ تک جا پہنچا۔ 2014 سے 2019 تک (کورونا سے قبل) ملک کے مختلف علاقوں سے بڑے پروگرام فکروخبر کے چینل پر براہِ راست نشر ہوئے، جن میں جمعیت علماء ہند کے اہم اجتماعات بھی شامل تھے۔ وہ سامنے آنے کے بجائے پسِ منظر میں رہ کر کام کرنے کو ترجیح دیتے لیکن ان کی محنت ہی اس پوری سرگرمی کی جان تھی، جس کا ذکر ایڈیٹر اِن چیف فکروخبر مولانا ہاشم ندوی اپنی بے تکلفانہ مجالس میں بار بار کیا کرتے تھے۔

 وہ ایک فکری اور سنجیدہ انسان تھے۔ ہمیشہ ایسے کاموں کو ترجیح دیتے جس کے اثرات دیر پا ہوں۔ شاید انہوں نے پہلے محسوس کرلیا تھا کہ زمانہ کی رفتار کے ساتھ فکروخبر نے بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں تو بہت جلد یہ مشہور ہوجائے گا جس کے بعد لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ فکروخبر نے بہت ہی کم مدت میں اپنے کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے انہیں دعوت نامے موصول ہونے شروع ہوئے ، ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی کہ ان کا پروگرام فکروخبر کے یوٹیوب چینل پر لائیو کیا جائے۔

ان کی نصیحت رہتی کہ آگے بڑھنے کے لیے صرف مضبوط ارادوں پر بھروسہ کافی نہیں، بلکہ عملی میدان میں اترنا بھی ضروری ہے۔ وہ مشورہ دیتے، راستہ دکھاتے، لیکن عمل کرنے والوں کے ہاتھ نہیں باندھتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ ہر شخص کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے اور آزاد ماحول میں انسان زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتا ہے۔ جب اس موضوع پر ان سے گفتگو ہوتی تو وہ برملا کہتے کہ تجربات ہی انسان کو آگے بڑھاتے ہیں، بس شرط یہ ہے کہ عزم مضبوط ہو اور راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کی سکت انسان کے اندر موجود ہو۔

کتابوں سے انہیں بڑی محبت تھی۔ اپنا فارغ وقت وہ مطالعہ میں گزاردیتے تھے۔  اگرچہ اردو لکھنے پڑھنے میں مکمل مہارت نہیں رکھتے تھے مگر اردو کی اہم کتابوں کے مستند انگریزی کتابوں کا انہیں وسیع مطالعہ تھے۔ اسی ذوق کی وجہ سے اہلِ سنہ لائبریری (ای لائیبریری) بنارکھی تھی جس میں مشہور علماء کی کتابیں موجود تھیں جنہیں ہر شخص مفت میں پڑھ بھی سکتا تھا اور اس کا پی ڈی ایف بھی حاصل کرسکتا تھا۔ ان کتابوں کے انتخاب میں وہ دوسروں سے ممتاز تھے۔ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہر چیز آن لائن پڑھنے کی نہیں ہوتی۔ سب سے پہلے فکرکو دیکھنا اور پرکھنا چاہیے اور اس کے بعد کسی بھی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اپنے ای لائبریری میں انہوں نے بڑے محتاط انداز میں صرف انہیں کتابوں کا انتخاب کیا تھا جو فکری اعتبار سے اہلِ سنت والجماعت کے موافق ہوں۔

آہ نوید بھائی! ہم آپ کی کن کن خوبیوں کا تذکرہ کریں اور کن کن کو چھوڑ دیں! سچ تو یہ ہے کہ آپ کی ہر بات رہ رہ کر یاد آ رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ بیتے ہوئے ایام آپ کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوئے، بلکہ آپ کے انتقال نے انہیں پرواز عطا کر دی ہے، جو ہمیشہ ہمارے ذہن و دل کے دریچوں میں زندہ رہیں گے اور زندگی کے مختلف مراحل میں ہمیں رہنمائی فراہم کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو غریقِ رحمت فرمائے ، آپ کی قبر کو نور سے بھردے ، جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اور آپ کے تمام متعلقین کو اس حادثۂ فاجعہ پر صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین

فکروخبر کے رفیق جناب نوید مصبا کے انتقالِ پُرملال پر تعزیتی نشست منعقد