نماز کی ادائیگی حکمِ الٰہی کے ساتھ بہترین ورزش بھی : نماز کی پابندی روحانی وجسمانی صحت کی ضامن
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ ہر شخص کو آرام کے ساتھ جسمانی ورزش کی بھی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ان میں سب سے بہتر طریقہ روزانہ پانچ وقت نماز کی ادائیگی ہے کیونکہ اہتمام کے ساتھ روزانہ پانچ وقت نماز کی ادائیگی روحانی وجسمانی صحت دونوں اعتبار سے بہت مفید ہے۔ ماہرین طب کی تحقیق کے مطابق جسم کے مختلف جوڑوں اور کمر درد میں نماز کے دوران ادا کیے جانے والے اعمال وارکان سے کافی مدد ملتی ہے۔ نیز رکوع اور سجدے کی حالتوں سے جسم کے ایسے اعضاء کو بھی تقویت ملتی ہے جن کو عموماً کسی دوسری ورزش کے ذریعہ نہیں مل پاتی۔ نماز کی ادائیگی کئی اعصابی اور دیگر امراض سے علاج کا مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ تجربہ سے معلوم ہوا کہ نماز کی ادائیگی سے تناؤ اور بے چینی کی کیفیت ختم ہوتی ہے۔ نماز سے ذہنی سکون بھی حاصل ہوتا ہے، ہر نمازی‘ نماز کی اس اہم خوبی سے اچھی طرح واقف ہے۔ نماز ایسی عبادت ہے کہ اس کے ذریعہ سر سے پاؤں تک جسم کے ہر حصہ کی حتی کہ ہاتھ پیر کی انگلیوں کی بھی ورزش ہوجاتی ہے۔ نماز کی پابندی سے وقت پر کام کرنے کی عادت پڑتی ہے، جو صحت کے لئے بے حد مفید ہے۔ ماہرین طب کی رائے کے مطابق جلدی سوکر سویرے اٹھنے والے زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔ نمازِ عشا اور فجر کی پابندی سے ڈاکٹروں کی اِن دونوں نصیحتوں پر بھی عمل ہوجاتا ہے جن میں صحت کا راز پوشیدہ ہے۔ نماز کی ادائیگی کے لئے بدن وکپڑے اور جگہ کا پاک وصاف ہونا ضروری ہے۔ صرف بدن وکپڑے اور جگہ کی پاکی وصفائی سے ہی بے شمار بیماریاں ختم ہوجاتی ہیں۔ ظاہری پاکی وصفائی کے علاوہ نماز کی ادائیگی کے لئے روحانی پاکی بھی ضروری ہے، یعنی جنابت (ناپاکی) کی حالت میں نمازکی ادائیگی نہیں ہوسکتی، لہٰذا پہلے غسل کرنا ضروری ہے۔ صفائی ستھرائی کی بات کسی نہ کسی حد تک ہر مذہب میں مل جائے گی، لیکن پاکی وطہارت کا جو نظام مذہب اسلام نے پیش کیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حقیقی بات تو یہ ہے کہ طہارت لفظ کا کسی دوسری زبان میں ایسا ترجمہ بھی نہیں ہوپاتا جس سے اس لفظ کے مفہوم کا حق ادا ہوجائے۔ تمام ظاہری صفائیوں کے باوجود مذہب اسلام میں نماز کی ادائیگی سے قبل وضو کو ضروری قرار دیا ہے، یعنی بے وضو نماز کی ادائیگی نہیں ہوسکتی ہے۔ وضو میں جسم کے اُن حصوں کو دھونے اور صاف کرنے کا حکم ہے جو اکثر کھلے رہتے ہیں اور باہر کی دھول، مٹی اور جراثیم ان پر لگتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ روزانہ پانچ مرتبہ وضو کرکے ان خطرناک بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ دنیا کے سائنسداں اور ماہرین طب کا اتفاق ہے کہ بے شمار بیماریاں صفائی اور ورزش کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ روحانی وجسمانی ہر طرح کی پاکی وصفائی اور اس کے بعد سر سے پاؤں تک ہر عضو کی ورزش نماز میں موجود ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں (ویدوں اور بھگوت گیتا) میں یوگا کی تعلیمات ملتی ہیں، جو صرف ایک ورزش نہیں بلکہ اس میں کیے جانے والے اعمال واوقات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا تعلق ہندو مذہب کے رسم وراج سے بھی ہے۔ یوگا چند سالوں سے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ اس موقع پر ہم مسلمانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ روزانہ پابندی کے ساتھ نمازوں کا اہتمام کریں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی ادائیگی کے ساتھ جسم کے لئے ضروری ورزش بھی موجود ہے۔ ایمان کے بعد سب سے پہلا حکم جو انسان کی زندگی سے متعلق ہے وہ نماز ہے، جس میں خالق ورازق کائنات سے مناجات ہوتی ہے، جو اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایمان کے علاوہ صرف نماز کی فرضیت مکہ مکرمہ میں ہوئی، باقی تقریباً سارے احکام مدینہ منورہ میں نازل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام احکام جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دنیا میں نازل فرمائے مگر نماز ایسا مہتم بالشان عمل ہے کہ اس کی فرضیت کا تحفہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو بڑے اعزاز کے ساتھ آسمانوں کے اوپر بلاکر معراج کی رات میں عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی آخری وصیت بھی نماز کے اہتمام کے متعلق تھی حالانکہ اس وقت آپ ﷺ کی زبان مبارک سے الفاظ بھی صحیح طریقہ سے نہیں نکل رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب کل قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہنمائی کے لئے نازل فرمائی ہے اس میں نماز کے اہتمام کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے، چنانچہ تقریباً ۰۰۷ جگہوں میں نماز کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مؤمنین کی صفات میں نماز کی وقت پر ادائیگی اور اس میں خشوع وخضوع کو خاص طور پر ذکر فرمایا ہے، بلکہ جنت الفردوس میں دخول کے لئے نماز کے اہتمام کو خاص سبب کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ کا اعلان ہے کہ جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اُس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے۔حضور اکرم ﷺ بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوج ہ ہوتے تھے۔نبی اکرم ﷺ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحےۃ الوضوء اور تحےۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقے کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ نماز ایسی عبادت ہے جو روزانہ پابندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ان گھروں (یعنی مسجدوں) میں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے جو زمین کے تمام حصوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور جوآسمان والوں کے لئے ایسے ہی چمکتے ہیں جیسا زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ اندھیروں میں بکثرت ان مساجد کو جانے والوں کو نبی رحمت ﷺکی زبانی قیامت کے دن پورے پورے نور کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور ان کے ایماندار ہونے کی گواہی دی گئی ہے۔ نماز ہی ایسی عبادت ہے کہ ہر نماز کو قائم کرنے سے قبل اس کی ندا لگائی جاتی ہے اور پھر ایک مرتبہ مزید اقامت کہہ کر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اس وقت صرف نماز کی ادائیگی مطلوب ہے تاکہ ہر شخص اپنی مصروفیات چھوڑکر اس اہم عبادت میں لگ جائے۔ نماز ہی ایسی عبادت ہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے پچپن سے ہی اس کے اہتمام کی تعلیم دی ہے چنانچہ والدین کو فرمایا کہ ۷ سال کی عمر میں ان کو نماز کا حکم کرو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ان کی پٹائی کرو تاکہ بلوغ کے بعد ایک نماز بھی فوت نہ ہو کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات میں نماز کے فوت ہونے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں بلکہ بعض احادیث میں کفر تک کی وعید وارد ہوئی ہے۔ انہیں احادیث کی بنیاد پر علماء کی ایک جماعت کا موقف یہی ہے کہ جان بوجھ کر نمازیں چھوڑنے والا کافر ہے۔ قرآن وحدیث میں نماز کی کوتاہی کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ نیز قرآن میں ہے کہ نماز میں سستی اور کاہلی کرنے والے کو ویل نامی جہنم کی وادی میں ڈالا جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کونماز میں کاہلی اور سستی کی شکلوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔ نماز ہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں زکاۃ کی طرح مال کی شرط نہیں نیز حج کی طرح استطاعت کی شرط نہیں بلکہ نماز کی ادائیگی ہر وقت مطلوب ہے خواہ مرد ہو یا عورت، غریب ہو یا مالدار، صحت مند ہو یابیمار، طاقت ور ہو یا کمزور، بوڑھا ہو یا نوجوان، مسافر ہو یا مقیم، بادشاہ ہو یا غلام، حالت امن ہو یا حالت خوف، خوشی ہو یا غم، گرمی ہو یا سردی، حتی کہ جہاد وقتال کے عین موقعہ پر میدان جنگ میں بھی یہ فرض معاف نہیں ہوتاہے۔ احادیث صحیحہ میں وارد حضور اکرم ﷺکے ارشادات کے پیش نظر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کی حساب لیا جائے گا۔ حضور اکرم ﷺ نے نماز کے اہتمام پر آخرت کی کامیابی کا وعدہ کیا ہے مگر ضروری ہے کہ نماز کو ان شرائط وآداب کے ساتھ ادا کیا جائے جو نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں موجود ہیں۔ نماز ہی ایسی عبادت ہے جس کے متعلق نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی ادائیگی میں ہے۔ نماز انسان کو بے حیائی اور گناہوں سے روکتی ہے۔ اس عظیم عبادت کے لوازمات مثلاً وضو وغسل ومسواک، مسجد کی طرف جانا وغیرہ خود مستقل عبادت ہیں جن کی شریعت میں خاص اہمیت وفضیلت ہے۔ یہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت فرض ہے۔ یہی ایسی عبادت ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے سجدہ کرنا فرض ہے اور نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجالانا ہے۔ اس اہم مقصد کے علاوہ نماز کی پابندی سے جو دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں اُن کوبھی جاننا اور دوسروں کو بتانا ضروری ہے۔ خاص کر ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر نماز میں ورزش کے پہلو کو اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ آئیے۔ ہم یہ عزم مصمم کریں کہ ان شاء اللہ موت تک اپنے پیارے نبی کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نمازیں نہیں چھوڑیں گے، خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کا وقت پر اہتمام کریں گے اور اپنے ساتھ دیگر احباب خاص کر اپنے بچوں کی نماز کی نگرانی کریں گے تاکہ وہ بھی نمازوں کا اہتمام کرنے والے بنیں، آمین، ثم آمین۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں