ناکامی کے پیچھے ہی کامیابی ہے!

        نقی احمدندوی

کامیابی خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، ساری کامیابیوں کے پس پردہ ناکامیوں کی ان گنت کہانیاں ہیں، جتنی بڑی کامیابی ملتی ہے اتنی ہی زیادہ ناکامیاں ہوتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ جانے کتنے لوگ اپنی کامیابی کا سفراس وقت ختم کر دیتے ہیں اور ہمت ہار بیٹھتے ہیں  جب وہ اپنی منزل سے صرف بالشت بھر قریب ہوتے ہیں۔ 
آپ کا مقصد چاہے جتنا بڑا ہو اگر آپ کو اپنے اوپر بھروسہ نہیں ہے کہ آپ اس کی تکمیل کر سکتے ہیں تو کبھی بھی آپ کو کامیابی نہیں ملے گی۔ نوجوانوں کا سب سے بڑا پروبلم یہ ہے کہ وہ چند بار کوشش کرنے کے بعد ہمت ہار جاتے ہیں اور پھر اپنی شکست اور ہار تسلیم کر لیتے ہیں۔ مگر دنیا میں جن لوگوں نے تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہیں ان لوگوں نے اتنی ہی ناکامیوں کا منھ بھی دیکھا ہے۔
آئیے! ہم دنیا کے چند نامور مصنفین، ناول نگاروں، سائنسدانوں اور کھلاڑیوں کی ناکامیوں پر نظر ڈالتے ہیں:
مشہور سائنس داں تھوماس ایڈیسن کو کون نہیں جانتا۔ جب وہ بچپن میں اسکول بھیجے گئے تو ان کے ٹیچر نے کہا کہ ”یہ اتنا بڑا احمق ہے کہ وہ کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ مگر تھوماس ایڈیسن کی ماں نے اپنے بچے کو بنیادی تعلیم خود ہی دی اور پھر دنیا کو ایسا عظیم سائنس داں ملا، جن کے انکشافات آج ہم اور آپ اپنی روز مرہ زندگی میں استعمال کر رہے ہیں۔ تھوماس ایڈیسن نے جب بلب کو ایجاد کرنے پر کام شروع کیا تو ایک ہزار مرتبہ ان کو ناکامی ہوئی۔ جب رپورٹر کے بلب کی ایجاد کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ ایک ہزار مرتبہ ناکامی کے بعد آپ کو کیسا محسوس ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک ہزار مرتبہ فیل نہیں ہوا بلکہ ایک ہزار مرتبہ کوشش کے بعد برس بلب کی ایجاد ہوئی۔
آج کی دنیا میں البرت آئینشائن اور ذہانت دونوں مترادف مانے جاتے ہیں۔ مگر یہ عظیم سائنس داں نو سال کی عمر تک روانی کے ساتھ بول نہیں پاتا تھا جس کی بنیاد پر ان کے ٹیچروں کو محسوس ہوتا تھا کہ وہ ”slow“ سست ہیں۔ اسکول سے ان کے باغیانہ ریوں کی وجہ سے خارج کر دیا گیا۔ مگر اس عظیم سائنس داں نے ”General Reactivity“ کا ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس پر انہیں نوبل پرائز سے نوایا گیا۔ ان کی تحقیقات کی بنیاد پر امریکہ نے نیوکلیربم بنانے میں کامیابی حاصل کی اور ان کے اس نظریہ نے سائنسی دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔
اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ جتنی بھی عظیم کامیابیاں ہیں وہ دراصل ناکامیوں کی کہانیاں بھی ہیں، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگ ناکامیوں کو نہیں دیکھتے، صرف رزلٹ دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ شخص کتنا خوش قسمت ہے۔ امریکہ کے اندر ایک آدمی تھا جو 21/ سال کی عمر میں بزنس میں فیل ہو گیا، اس نے 22/ سال کی عمر میں لیجسلیٹیو کا الیکشن لڑا، مگر ہار گیا۔ دوبارہ 24/ سال کی عمر میں بزنس کیا، پھر ناکام ہو گیا۔ جب وہ 26/ سال کا تھا تو اس کی بیوی اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ جب وہ 27/ سال کا ہوا تو Nervous Back Down کا شکار ہو گیا۔ 34/ سال کی عمر میں اس نے امریکہ کا کانگریس کے الیکشن لڑا، جو وہ ہار گیا۔ 45/ سال کی عمر میں امریکہ کے سینیٹ بننے کا الیکشن لڑا، اور وہ بھی ہار گیا۔ جب وہ 47/ سال کا ہوا تو امریکہ کا نائب صدر بننے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی، مگر یہاں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 49/ سال کی عمر میں پھر سینیٹ بننے کی کوشش کی، جو ناکام ہوئی۔ مگر 52/ سال کی عمر میں جب وہ پہنچا تو وہ امریکہ کا صدر بننے میں کامیاب ہو گیا۔ اس شخص کا نام ابراہیم لنکن تھا۔
کیا آپ ابراہیم لنکن کو ایک ناکام اور شکست خوردہ تسلیم کریں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنی پے درپے ناکامیوں کا منھ دیکھنے کے بعد اپنی ہار مان لیتے اور اپنی وکالت کی پریکٹس میں لگ جاتے جو ان کا پہلا پیشہ تھا۔ ابراہیم لنکن کے لیے ہر ناکامی اگلی کامیابی کے لیے پیش خیمہ تھی، نہ کہ سد راہ۔
ولیم گولڈنگ کی ایک بہت مشہور ناول ہے، جس کا نام ہے ”Lord of Flies“ 21/ پبلشروں نے اس ناول کی اشاعت کو ٹھکرا دیا۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ایک بیکار خیال آرائی اور تصور ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں۔
اگر ولیم گولڈنگ نے ہار مان لیا ہوتا تو دنیا کی یہ مشہور ناول آج کتب خانوں کا زینت نہیں بنتی۔ ساڑھے چودہ ملین نسخے اس ناول کے پوری دنیا میں بک چکے ہیں اور وہ دنیا کے سو بہترین ناولوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ گولڈنگ تو بعد میں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔
بچوں کی مشہور کتاب ”Harry Potter and the Sorcerer's Stone“ شائع ہونے سے قبل بارہ مرتبہ رد کر دی گئی تھی۔ مگر آج اس کتاب کے نہ صرف یہ کہ کروڑوں نسخے پوری دنیا میں بکتے ہیں بلکہ اس پر بنی مشہور فلم آج کے بچوں کی پسندیدہ فلموں میں سے ایک فلم مانی جاتی ہے۔ اگر آپ نے یہ فلم نہیں دیکھی ہے تو ایک مرتبہ ضرور دیکھیں، ناول نگارکی خیال آرائی کی پرواز آپ کو حیران وششدر کردے گی۔
غرض یہ کہ ہر کامیابی کے پیچھے ناکامی اور ہر شاندار جیت کے پیچھے ہار ہوتی ہے، مگر ہم لوگ صرف نتیجہ دیکھنے کے عادی ہیں۔ اس نتیجہ کے پیچھے ہونے والی محنت ومشقت، دل شکستگی اور بار بار ناکامیوں اور نامرادیوں کو نہیں دیکھ پاتے۔ اس لیے اگرا ٓپ بھی کسی فیلڈ میں شاندار کامیابی کی امید لگاے بیٹھے ہیں، تو ہمت مت ہاریے، اتنی محنت اور مشقت کیجیے کہ آپ کی کارکرگی شور مچادے کہ یہ شخص اس کام میں کامیابی اور کامرانی کی بلندی کو چھوچکا ہے، بیسٹ آف لک۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

مائیک سے اذان پر پابندی : مذہبی رواداری کے خلاف

کون کہتا ہے کہ احساس ہمارا جاگ اٹھا……. تلخ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچائی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے