حفیظ نعمانی
یہ بات اب سے پندرہ دن پہلے 17 ستمبر کی ہے کہ مس مایاوتی نے بھیم آرمی اور چندر شیکھر راون سے اپنے کسی بھی طرح کے تعلق سے انکار کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ تال میل اسی وقت ممکن ہے جب ان کی پارٹی کے لحاظ سے سیٹیں دی جائیں۔ یہ وضاحت اس لئے شاید انہوں نے ضروری سمجھی کہ سہارنپور کے معاملہ کے بارے میں اچانک ابھرکر سامنے آنے والے نوجوان دلت لیڈر چندر شیکھر نے جیل سے آنے کے بعد ایک انٹرویو میں مس مایاوتی کو ’بوا‘ کہا اور ان کی قیادت میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ بی ایس پی کی بہن جی ایسے کسی دلت کو ساتھ لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں جو اپنی بھی کوئی رائے رکھتا ہو وہ کہتی تو ہر بات پر ہماری پارٹی ہیں لیکن پارٹی کا مطلب صرف اور صرف مس مایاوتی ہوتی ہیں۔ چندرشیکھر کی اپنی بھی ایک ٹولی ہے اور سہارنپور کے وہ ہیرو ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اس بیان سے دس دن پہلے 2014 ء کے عام انتخابات میں اکھلیش یادو نے سیکولر جماعتوں کے عظیم اتحاد کا خاکہ پریس کو دیا تھا جس میں صاف صاف کہا تھا کہ اترپردیش کی 80 سیٹوں میں 32 بی ایس پی کو 32 سماج وادی پارٹی کو 13 کانگریس کو اور 3 سیٹیں آر ایل ڈی کو دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس خوبصورت منصوبہ سے سیکولر ذہن کے لوگوں کو بڑا سکون ملا تھا۔ لیکن جو لوگ سیاسی اعلانات کی حقیقت سے واقف ہیں وہ ہر دن اس کا انتظار کرتے ہیں کہ کوئی بری خبر نہ آجائے؟
مس مایاوتی کے بارے میں یہ چھپی ہوئی یا راز کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا ٹکٹ دیتی نہیں فروخت کرتی ہیں۔ اور وہ اس کا اعتراف بھی کرچکی ہیں اور اس دلیل کے ساتھ کرچکی ہیں کہ میں ٹکٹ ہی نہیں 20 فیصدی ووٹ بھی دیتی ہوں۔ اب اس پر انہیں کون آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ کس ریاست میں کتنے ٹکٹ فروخت کریں۔ اگر مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں وہ پانچ سو ٹکٹ فروخت کریں تو یہ ان کا کاروبار ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان تینوں ریاستوں میں سے کہیں بھی وہ حکومت نہیں بنا سکتیں۔ اور انہیں اس سے بھی دلچسپی نہیں کہ کہاں کتنی سیٹیں جیتیں۔ گجرات میں ان کا ایک بھی ایم ایل اے نہیں ہے لیکن گذشتہ الیکشن میں انہوں نے گجرات میں بھی ٹکٹ دیئے جن کی وجہ سے تین مسلمان ہار گئے لیکن اس سے ان کی صحت پر کیا اثر پڑا؟ جنہوں نے ٹکٹ خریدے نقصان ان کا ہوا کانگریس ان تینوں ریاستوں میں مایاوتی کو ان کی خواہش کے مطابق کیسے سیٹیں دے دے۔ مایاوتی یہ سوچ رہی ہیں کہ اتنی سیٹیں مل جائیں کہ اگر موقع ملے تو کرناٹک کی کہانی دہرا دی جائے۔ ورنہ حکومت میں حصہ داری ہو۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو جو اُمیدوار کسی بھی پارٹی کے ٹکٹ سے لڑنا چاہتے ہیں ان کا شوق پورا ہوجائے۔ ان تینوں ریاستوں میں جو الیکشن ہورہے ہیں ان کی حیثیت ملک کے دوسرے صوبوں سے الگ ہے جہاں آئندہ سال پارلیمنٹ کے الیکشن ہوں گے۔
اکھلیش بابو کے لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ ان تینوں ریاستوں کے بارے میں اپنی بوا سے کچھ نہ کہیں۔ یہ فیصلہ انہیں کرنے دیں کہ وہ کتنے ٹکٹ دیتی ہیں وہ صرف اترپردیش والے 6 ستمبر کے معاہدہ کو دانت سے پکڑے رہیں اور اپنی بوا کی خاطر چندرشیکھر سے کوئی بات نہ کریں تاکہ وہ شیوپال سے جواب میں کوئی بات نہ کریں۔ اترپردیش کی اہمیت ان کے لئے اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ خود لوک سبھا میں جاسکتی ہیں اور اپنے ساتھ زندہ باد کے نعرے لگانے والوں کو بھی لے جاسکتی ہیں جو صرف اکھلیش کے ساتھ مل کر ہی ہوسکتا ہے۔ ایک خدشہ کا اظہار بی ایس پی کی طرف سے کیا جارہا ہے کہ بی جے پی کے خلاف راہل گاندھی اور اکھلیش اپنے ووٹ بی ایس پی امیدواروں کی طرف ٹرانسفر کرا پائیں گے؟ جبکہ بی جے پی مقابلہ پر دلت لیڈروں کو کھڑا کرے گی؟
اس وقت ہر مخالف پارٹی کو نظر آرہا ہے کہ مودی سرکار سے عوام اتنا ہی دور ہوچکے ہیں جتنا 2014 ء میں کانگریس سے دور ہوگئے تھے اور اس بات سے بھی سب واقف ہوچکے ہیں کہ کانگریس سرکار پر جتنے الزام تھے وہ سب جھوٹے تھے۔ اور مودی سرکار کی نوٹ بندی، جی ایس ٹی، پیٹرول اور ڈیزل کی مہنگائی، روپئے کی ذلت سب دیکھ رہے ہیں اور اب یہ خبر کسی سے چھپی نہیں ہے کہ شراب کا سب سے بڑا بیوپاری اور ہوائی جہاز کمپنی کا مالک وجے مالیہ جب بینکوں کے 9ہزار کروڑ روپئے اور 65 سوٹ کیس لے کر ملک سے بھاگا تو وہ وزیر مالیات سے مل کر بھاگا تھا اور وزیر مالیات کو ماننا پڑا کہ وہ صرف 40 سیکنڈ کے لئے ملا تھا۔ اب اس کے بعد کسی وقت بھی یہ خبر آسکتی ہے کہ نیرو مودی جو 22 ہزار کروڑ بینکوں کا لے کر بھاگا ہے وہ مودی جی سے کہہ کر گیا تھا۔
مس مایاوتی کا ڈر اپنی جگہ لیکن وہ ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یاد آجائے گا کہ جب اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف ہوا چلی تھی تو اُترپردیش کی ہر سیٹ پر کانگریس ہاری تھی۔ خود اندرا کو راج نرائن نے ہی ہرایا تھا۔ عوام کو جب جوش آتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کون کس کا ووٹ ہے وہ صرف ایک بات دیکھتے ہیں کہ حکومت کے اُمیدوار کو کون ہراسکتا ہے اور پھر اسے ووٹ دے دیتے ہیں۔
ہر الیکشن سے پہلے گلی کے کتوں کی طرح چھوٹے چھوٹے گروپ ہمیشہ بنتے ہیں اور یہ صرف ان کا غصہ ہوتا ہے جنہیں ان کی مرضی کے مطابق عہدہ نہیں دیا جاتا۔ 2017 ء میں ہی شیوپال نے اکھلیش سے ملائم سنگھ کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اور جب دیکھا کہ وہ کامیاب نہیں ہوپائے تو صلح کرلی لیکن اکھلیش اور پورا خاندان ان کی صلاحیتوں سے واقف ہے اور سب جانتے ہیں کہ کم عقل ہیں اس لئے سب نے ان کو چھوڑ دیا ہے اب امرسنگھ جیسے لوگ ہیں جو صرف لگاؤ اور بجھاؤ کا کھیل کھیلتے ہیں وہ پہلے بھی شیوپال سے کھیلتے رہے ہیں اور اب اور زیادہ کھل کر کھیلیں گے کیونکہ شیوپال کے سر سے ملائم سنگھ نے ہاتھ ہٹا لیا ہے۔ لیکن یہ یقین ہے کہ جن کو کسی الزام کی بنیاد پر پارٹی سے نکالا گیا ہے وہی شیوپال کی چوپال میں آئیں گے۔
یہ بات بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ شری کانشی رام نے مایاوتی کی تربیت میں اس کا خیال کیوں نہیں رکھا کہ سب کو ساتھ لے کر چلو۔ کانشی رام کے بارے میں چند دوستوں سے یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ اگر کسی کو ملنے کا وقت دیتے تھے تو ان کی بات سننے کے بجائے اپنی بات کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ دوسرا معافی مانگ کر چلا آئے۔ انہوں نے برسوں دلتوں میں کام کیا لیکن صرف مایاوتی ان کی جانشین بن کر سامنے آئیں اور خودپسندی کی بیماری شاید ان کو کانشی رام سے ہی ملی ہے جنہیں یہ بھی گوارہ نہیں کہ ایک ابھرتے ہوئے چندرشیکھر کو جو سہارنپور اور مغربی اضلاع میں مقبول ہورہا ہے اپنا بنالیتیں جبکہ وہ خود آرہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ متحدہ محاذ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ صرف مایاوتی کی طرف سے فکرمند ہیں اس لئے کہ ان کو صرف دولت چاہئے۔ اور اپنی فکر اس لئے نہیں کہ وہ چماری ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والی دلت لڑکی ہیں جس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
25؍ستمبر2018(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں