ہندوستانی سیاست کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں مولانا ابوالکلام آزاد سے لیکر ڈاکٹر ذاکر حسین تک ،فاروق عبداللہ سے لیکرغلام نبی آزادتک، سلمان خورشید سے سے لیکر احمد پٹیل تک ،مختار عباس نقوی سے لیکر سید شہنواز حسین تک ،کے آر رحمٰن سے لیکراے پی جے عبدالکلام تک ،یو پی اسمبلی میں 50سے زائدممبر اسمبلی مسلم ہونے کے باوجود اتر پردیش میں کس کس طرح کا کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن یہ سب ممبران کو سانپ سونگ گیا ہے وہ اپاہچ پن کے شکار ہیں ۔سیکولر بننے کی ہوڑ میں چنن ٹیکا سے لیکر اپنی معاشرتی اور خانگی زندگی کو بھی بر باد کرڈالتے ہیں ،غیر مسلم داماد بنانے اور غیر مسلم بیوی رکھ کرسیکولر ہونے کادم بھرتے ہیں ۔لعنت ہو ایسے رہبر پر جو سیاست کا عروج حاصل کرنے کیلئے اپنی قوم اپنا دین اور اپنی فیملی تک کو قربان کر دیتے ہیں ۔
خدارا ایسی مرعوبیت پسند لیڈران کو رہبر ی سونپنا پوری مسلم قوم کو دلدل میں ڈھکیلنے کے مترادف ہے ۔ہاں دل کو تسلی حاصل کرنے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی حصہ داری کو ثابت کرنے کیلئے مسلم سیاست داں ٹھیک ہیں لیکن عملاً یہ مسلم لیڈر ابھی رہبری کے لائق نہیں ہوئے ہیں ۔جو واقعی اعلی ظرف رہبر تھے وہ سن 47کے بعد یا تو شہید ہو گئے یا پھر ملک سے ہجرت کر گئے باقی پسماندہ ذہنیت اور کم ظرف مسلم لیڈران رہ گئے خدار ان کی تربیت میں ابھی سو سال اور لگیں گے ۔چونکہ ان کا ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ان کا دل تنگ ہوتا ہے ،ان کا بس چلے تو پوری مسلم قوم کو اپاہچ اور بے روزگار کرکے سیکولر ہونے کا دم بھرنے میں دیر نہیں کریں گے،نئی نسل کو بے روزگاری کے دلدل میں جھونکنے کا ان ہی رہبروں کا سب سے زیادہ یوگدان ہے چاہے وہ کسی بھی سطح پر براجمان ہوں ان سب کا رویہ بہت افسوس ناک ہوتا ہے۔
یہ تو ہندوستانی سیاست کا طرہ امتیاز بن چکا ہے کہ کسی بھی مسلم لیڈر کو وزیر بنا کر مسلمانوں کی آوازکو دبادیا جائے ،اور پارٹی پر کوئی داغ نہ لگے کہ پارٹی مسلمانوں کی خیر خواہ نہیں ہے بلکہ یہ تاثر جائے کہ مسلم لیڈر اپنی قوم سے خوب اچھی طرح واقف ہیں وہ جو فیصلہ لیں ہم ہمیشہ تیار بیٹھے ہیں ،اور ہمارے مسلم لیڈران ہمارے ووٹ سے منتخب ہونے کے با وجود پارٹی میں یہ باور کراتے ہیں کہ ہم تو اپنے بل بوتے انتخاب جیتے ہیں اور پوری مسلم قوم ہمارے پیچھے کھڑی ہے ۔سیکولر بننے کیلئے وہ مسلم اوقاف کو خرد برد کرنے میں حکومت کا ہاتھ بٹاتے ہیں یہاں تک کہ مسلم پرسنل لاء کو دبانے میں ان کی خاموش تائید حاصل ہوتی ہیں مسلمانوں سے متعلق جتنے بھی معاملات ہوتے ہیں ان سب کو دبانے میں سب سے پہلے ان ہی کی مہر لگتی ہے تاکہ پارٹیاں بے قصور اور مسلم لیڈر قصوار سمجھیں جائیں ۔اس چال کو مسلم لیڈر بحسن خوبی انجام دیتے ہیں ۔
جب خدا نے ان کے سروں سے سرداری کا تاج اتار پھینکا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ان کی وکالت کرنے والے یہ تو خدا کا فیصلہ ہے کہ جو بھی قوم تنگ نظری اور کم ظرفی کی شکار ہو گی ،انصاف اور حق کی آواز دبائیگی بزدل اور مرعوبیت کی شکار ہو گی ہم اس کے سر سے سرداری کا پگڑی اتار پھینکے گے اور کسی بھی دوسری قوم کو ان پر مسلط کر دیں گے ۔
جواب دیں