مسلمانوں کا زوال اور ہندوستان کی صورتحال

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی بڑی کمپنیوں میں ڈائریکٹر سطح کے ٹاپ عہدوں پر دیئے جانے والے 100 روپے کے کل تنخواہ میں مسلمانوں کے حصے میں محض 3.14 روپے آتے ہیں۔ کئی ماہرین نے اس صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔گزشتہ دنوں ملک کے نائب صدر حامد انصاری نے حکومت سے کہا تھا کہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی ترقی اور تحفظ کو یقینی کرے جس پر ان کے خلاف ہندتووادیوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔اکانامک ٹائمز کے ریسرچ کے مطابق بھارت کے کارپوریٹ ورلڈ میں ڈائریکٹر سطح کے بی ایس ای ۔500 کمپنیوں کے عہدوں پر مسلمانوں کی نمائندگی محض 2.67 فیصد ہے۔ یعنی ڈائریکٹر کی سطح کے کل 2324 میں محض 62 پر مسلمان ہیں، جبکہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد سے زیادہ ہے۔ اگر تنخواہ کے لحاظ سے دیکھیں تو ان عہدوں پر بیٹھے مسلمان کل تنخواہ کا محض 3.14 فیصد حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح بی ایس سی 100 کی کمپنیوں میں ڈائریکٹر یا اعلیٰ سطح کے عہدوں پر مسلمانوں کی نمائندگی کا فیصد 4.6 فیصد ہے۔ان کے ڈائریکٹر رینک کے 587 عہدوں میں مسلما ن صرف27 عہدوں پر ہیں۔پرائیویٹ سیکٹر میں بلیو کالر س مسلم ورکرس کا ڈاٹا دستیاب نہیں ہے وہیں ڈائرکٹرس اور سینئر اکزیکیٹیو سطح کے ملازمین میں مسلمانوں کا تناسب صرف 2.67فیصد ہے جو تشویش کا باعث ہے۔
جاب مارکیٹ میں مسلمان
بھارت کے جاب مارکیٹ میں مسلمانوں کا تناسب کافی مایوس کن ہے۔ اگرچہ گزشتہ دہائی میں حکومت نے محروم کمیونٹیز کے لئے افرمیٹو ایکشن کی پالیسی اپنانے کے لئے پرائیویٹ سکٹر کو کہا تھا، لیکن اس کو محض دلتوں تک مرکوز کیا گیا۔ قدرتی طور پر اس کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں ملا۔انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ کے پروفیسر امیتابھ کندو تسلیم کرتے ہیں کہ جاب مارکیٹ میں
مسلمانوں کی قابل رحم صورتحال ہے۔کندوکہتے ہیں کہ ایس سی، ایس ٹی کو ریزرویشن اور افرمییٹو ایکشن کا فائدہ ملا لیکن مسلمانوں کو نہ تو ریزرویشن کا فائدہ ملا اور نہ ہی افرمیٹو ایکشن کا۔ دلت چیمبر آف کامرس کے مشیر چندربھان پرساد قبول کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی پسماندگی ملک کی معیشت کے لئے بہت نقصاندہ ہے اور انھیں حاشئے پر ڈالنا ملک کی معیشت کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ اسی کے ساتھ پونے بیسٹ فوربس مارشل گروپ کے چیئر مین فرہاد فوربس کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ سکٹر کا اب تک فوکس ایس سی اور ایس ٹی پر رہاہے۔ 
مسلمانوں کے تئیں حکومت کے افرمیٹو ایکشن کی کل ملا کر پرائیویٹ کمپنیوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ تاہم فرہاد مارشل اور ٹاٹا دو ایسے گروپ ہیں جنہوں نے کسی حد تک مسلمانوں کو ترجیح دی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔پروفیسر امیتاھ کندو کے مطابق جاب مارکیٹ میں مسلمانوں کی حالت انتہائی خراب ہے اور شہری علاقوں میں تو وہ دلتوں سے بھی پسماندہ ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ پرائیوٹ سیکٹر ہو یا سرکاری دونوں جگہوں پر مسلمان اپنی آبادی سے بہت کم نظر آتے ہیں۔غور طلب ہے کہ یوپی اے سرکار کے دور میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت جاننے کے لئے پروفسیر کندو کی صدارت میں ایک کمیٹی بنی تھی جس نے اپنی رپورٹ ۲۰۱۴ء میں سرکار کو سونپی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کی سہولت کے سبب ایس سی اور ایس ٹی شہری علاقوں میں بھی آتے ہیں اور ریزرویشن کا فائدہ اٹھاتے ہیں مگر مسلمانوں کو یہ سہولت نہیں ملتی جس کے سبب وہ پچھڑتے جارہے ہیں۔
سچر کمیٹی رپورٹ اورمسلمانوں پر سیاست
نائب صدر حامد انصاری نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ ملک میں مسلمانوں کے سامنے موجود شناخت اور سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے اور ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کی پالیسی پر چل رہی حکومت کو اس سلسلے میں ٹھوس کارروائی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا تھاکہ سیکورٹی مہیا کرانے میں ناکامی اور امتیاز ی سلوک کے معاملوں کو حکومت کی طرف سے جلد سے جلد بہتر کیا جائے۔ نائب صدر حامد انصاری نے مسلمانوں کو بااختیار بنانے اور ریاست کی املاک میں انھیں برابری کی حصہ داری دینے سے متعلق حکمت عملی اپنانے کی بات بھی کہی۔مسئلہ یہ ہے کہ ان باتوں کو غور سے سننے اور سمجھنے کی ضرورت تھی مگر اس پر سیاست شروع ہوگئی جس پر انھیں صفائی دینی پڑی کہ انھوں نے جو کچھ کہا وہ راجندر سچر کمیٹی کا حوالہ بھر ہے۔غور طلب ہے کہ مسلمانوں کے سماجی، معاشی حالات کی جانچ کے لئے راجندر سچر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مارچ 2005 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مسلم معاشرے کی سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی صورت حال جاننے کے لئے جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں ایک سات رکنی ہائی لیول کمیٹی تشکیل دی، جس نے اپنی فائنل رپورٹ نومبر 2006 میں سونپی اور اسی وقت اسے پارلیمنٹ میں رکھا بھی گیا۔ اس رپورٹ کے ذریعہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ نائب صدر کو یہ بات آخر کیوں کہنی پڑی ہو گی۔سچر کمیٹی کی
رپورٹ کے مطابق (2006) مختلف سرکاری سیکٹرس میں مسلمانوں کی شرکت کچھ اس طرح تھی۔
آئی اے ایس3.8فیصد
آئی ایف ایس1.8فیصد
آئی پی ایس / سیکورٹی ایجنسیاں4فیصد
سرکاری نوکری7فیصد
نجی شعبے6.5فیصد
ریلوے محکمہ4.5فیصد
محکمہ صحت4.5فیصد
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2001 میں مسلمانوں کی شرح خواندگی 59.1 فیصد تھی جو قومی تناسب 64.8 فیصد سے کم تھی۔ سوال یہ ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں مسلم شرکت کو اگر بڑھایا جائے تو شاید سچر کمیٹی میں دیئے گئے ،ان اعداد و شمار میں بہتری کی گنجائش تھوڑی بڑھ جائے گی مگر ایسا ہونہیں سکتا۔موجودہ لوک سبھا میں پورے ملک سے صرف3 2 مسلم ایم پی ہی منتخب کر پارلیمنٹ تک پہنچے ہیں۔ ظاہر ہے، سیاسی طور پر بھی مسلمان کمزور پڑے ہیں۔ یہی نہیں، نائب صدر کی مثال بتاتی ہے کہ اپنے معاشرے کے حق کی بات اٹھانے پر انہیں فرقہ پرست بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔اس لئے مسلمان پارلیمنٹ کا ممبر بن جائے یا وزیر کے عہدے پر چلا آئے وہ کسی بھی حال میں اپنی ہم مذہب لوگون کی بات نہیں کرسکتا ورنہ اس پر فرقہ پرستی کا الزام لگ جائے گا اور سیاست شروع ہوجائے گی۔ جب نائب صدر کو نہیں بخشاجاتا ہے تو کسے بخشا جائے گا۔
مسلمان کہاں جائیں؟
موجودہ حکومت ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کے نعرے کے ساتھ زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے مگر اب تک کسی بھی سطح پر ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ ملک سے سب سے پسماندہ طبقے مسلمانوں کی ترقی کے لئے سنجیدہ ہے اور ہو بھی کیسے؟ جب کہ وہ پارٹیاں کبھی سنجیدہ نہیں ہوئیں جن کی پالکی مسلمان اپنے کاندھوں پر ڈھوتے رہے ہیں۔ کانگریس نے اس ملک پر سب سے لمبی مدت تک حکومت کیا اور مسلمان اسے ووٹ دیتے رہے اور اسی کے دور میں مسلمان دن بدن پسماندہ ہوتے گئے۔ بی جے پی تو کھلے عام مسلمانوں کی مخالفت کرتی رہی ہے اور ان کا خوف دکھاکر ہندووں کو اپنے حق میں متحد کرنے کا کام کرتی رہی ہے۔ مسلمانوں کے اندر یہ احساس ہے کہ نہ وہ محفوظ ہیں اور نہ ہی انہیں انصاف مل رہا ہے۔سماجی انصاف کی بات ان کے لئے ایک نعرہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ مسلمانوں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ’’سب‘‘ سے انھیں خارج مان لیا گیا ہے۔ اب تک شکوہ سرکاری سیکٹرس سے تھا مگر اب واضح ہوچکا ہے کہ پرائیوٹ سیکٹرس میں بھی
مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ آخر وہ جائیں تو جائیں کہاں؟ اس پر ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ہندوستانی جیلوں میں سب سے زیادہ مسلمان اور دلت بند ہیں۔یہ ایک ننگی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں نیتا اربوں روپئے کی ہیراپھیری کرکے بچ جاتے ہیں مگر غریب معمولی سی چوری کرنے کے بعد بھی ضمانت پر رہا نہیں ہوپاتا کہ اس کے پاس کورٹ، کچہری اور وکیل کے لئے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ مسلمان غریب ہیں، سماجی طور پر پسماندہ ہیں اور تعلیم میں بھی پچھڑے ہوئے ہیں جس کے سبب نہ صرف وہ سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر سے غائب ہوتے جارہے ہیں بلکہ وہ اس لائق بھی نہیں بچے ہیں کہ اپنا دفاع کرسکیں۔

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے