ہمارے ملک میں اندلس کی تاریخ کا ریہرسل:۔ آج سے نصف صدی قبل ہی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی نگاہ بصیرت سے اس کی پیشین گوئی کی تھی کہ ہمارے ملک کی سرزمین پر اندلس کی تاریخ دہرانے کی پوری تیاری ہوچکی ہے،اگر مسلمان بالخصوص علماء اپنی فراست کا ثبوت دیتے ہوئے اس آنے والے طوفان بلاخیز پر بند باندھنے کی کوشش نہیں کریں گے اور امتِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کریں گے تو انھیں اپنی آنکھوں سے اس ملک میں اندلس میں اسلامی حکومت کے خاتمہ کے بعد رونما ہونے والے دلخراش مناظر کو دیکھنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ملک کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات جس کی مثال ماضی قریب کیا ماضی بعید میں بھی نہیں ملتی اس پر جب ہم مفکر اسلامؒ کی مؤمنانہ پیشین گوئی کے تناظر میں نظر دوڑاتے ہیں تو ایک عام مسلمان اور مؤمن کی طرح ہم پر بھی افسردگی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، لیکن جب ہم عالم اسلام بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کی ماضی قریب کی تاریخ خاص کر 1857 اورملک کی تقسیم و آزادی کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کے دل دہلادینے والے جو واقعات پیش آئے اس کا تجزیہ ملک کی موجودہ صورتِ حال سے کرتے ہیں تو یک گونہ اطمینان ہوجاتاہے کہ اس ملک میں ان شاء اللہ اندلس کی تاریخ دہرانا آسان نہیں ہے، جب مسلمانان ِہند اس سے بدتر حالات میں بھی اپنی ایمانی طاقت کے ساتھ الحمدللہ اس کا کامیاب مقابلہ کرکے دنیا کے سامنے اپنی مؤمنانہ زندگی کا ثبوت دے چکے ہیں تو ان شاء اللہ ان موجودہ تشویش ناک حالات میں بھی اپنی توحیدی شان کے ساتھ پھر ایک بار ابھر کردنیاکے سامنے آنے میں کامیاب ہوں گے اور اس ملک میں اپنے دینی تشخص کے ساتھ اپنے وجود کو ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہوں گے۔
لیکن ماضی کے اور موجودہ حالات میں فرق ہے:۔ لیکن ہمیں یہ بات بھی سمجھنا چاہیے کہ ہمارے ملک کے مسلمانوں کو ماضی میں درپیش حالات اور موجودہ صورتِ حال میں بنیادی فرق ہے،ماضی میں نشانہ مسلمان تھے اور اب اسلام ہے،سابق میں مسلمانوں ہی کو عملاً ختم کرنے اور ان کو پوری طرح جانی ومالی نقصانات سے دو چار کرنے کی منصوبہ بندکوشش کی گئی تھی اور اس میں ان کو تھوڑی بہت کامیابی بھی ملی تھی،لیکن اب وہ اس سرزمین سے مسلمانوں کے بجائے اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے 1857ء سے 1947ء تک نوے سال کے وقفہ میں اور اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت تک مسلمانوں کی جان ومال کو نشانہ بنایاگیاجس کے نتیجہ میں اس دوران وقفہ وقفہ سے رونماہونے والے فسادات میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد مجموعی طور پر دس لاکھ کے آس پاس پہنچ گئی جو پوری اسلامی تاریخ میں بغیرجنگ کے کسی بھی ایک ملک میں یک طرفہ شہید ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد تھی جس کی مثال ہمیں صرف بغداد میں تاتاریوں کے حملہ کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتی، اب صورت حال اس کے برخلاف ہے، عالم اسلام میں اب اسلام دشمن طاقتوں کو اندازہ ہوگیاہے کہ وہ قیامت تک اس سرزمین سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے تواس وقت یہ فیصلہ کیا گیاہے کہ ان کو عملاً نام کے مسلمان رکھتے ہوئے اندورن سے ان کی ایمانی قوت کو ختم کیاجائے یاپھرایمانی جذبہ کو کم ازکم سرد کرتے ہوئے انھیں صرف جسمانی اعتبار سے باقی رہنے دیاجائے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ایک حدتک اس میں ان کو کامیابی بھی ملی ہے، چنانچہ عالمی سطح پر نظام تعلیم میں ایسی تبدیلی کی گئی ہے کہ ایک طرف اس سے اخلاقی انارکی بھی آئے اوردوسری طرف اس سے استفادہ کرنے والے طلبہ وفارغین یا تو اپنے مذہب سے دور ہوجائیں یا کم از کم اپنے گھر کی چہاردیواری تک اپنے دین کو محدود رکھیں اور مغربی تہذیب وثقافت کو اپناتے ہوئے خود ساختہ روشن خیالی اور ترقی کے نام سے وہ ایک دن خود اپنے دین کے باغی اور معترض بن کر سامنے آئیں،چنانچہ آج عالم اسلام بالخصوص عالم عرب میں جو نئی تعلیم یافتہ نسل حکمرانی کے فرائض انجام دے رہی ہے ان کے نظریات وافکار،اسلام پر ان کے اعتماد کی کمی، یہودو نصاریٰ سے ان کی قربت اوردین پسند تحریکات و اداروں اور اسلامی شخصیات سے ان کی دوری بلکہ نفرت اورالرجی ان ہی مذموم عزائم میں ان کی کامیابی کا ثبوت ہے۔
ہمارے ملک میں بھی اسی کامیاب منصوبہ کو درآمد کیا گیا ہے :۔ عالم اسلام اور عالم عرب کی طرح ان یہود نواز تنظیموں اور صہیونی ومشنری اداروں کو تہذیبی یلغار اور فکری ارتداد کے حوالہ سے خود ہمارے ملک میں بھی غیر متوقع کامیابی مل رہی ہے،چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج سے دس سال قبل تک وقفہ وقفہ سے ملک کے کسی بھی صوبہ یا خطہ سے فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں آتی تھیں لیکن آٹھ دس سال سے یہ سلسلہ تقریباًرک گیا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ سطح پر موجود پالیسی ساز شخصیات اور یہودیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والے برہمن واداداروں کو عالمی سطح پر ہونے والے اس کامیاب منصوبہ و تجربہ کو ہمارے ملک میں بھی درآمد کرنے میں کامیابی ملی ہے، چنانچہ اس ملک سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی ناکام کوششوں کے بعدمسلمانان ہند وبرصغیر پر بھی اب اس آخری حربہ کو آزمایاگیا ہے جس کے مطابق مسلمان نام کے مسلمان رہ جائیں اور چاہے تو نماز،روزے اور حج وزکاۃ کے بھی پابندرہیں لیکن زندگی کے مختلف شعبوں اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں اپنے ملّی تشخصات کو چھوڑکراپنے دین کے زیراثر رہنے کے ارادوں اورخیالات سے دستبردار ہوجائیں اور ایک ایسے متحدہ کلچر میں ضم ہوجائیں جس میں ایمان تو دور کی بات اخلاق اورحیاکا بھی دوردور تک نام ونشان نہ رہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کو اس معاملہ میں مجموعی طور پر ماضی قریب میں اتنی کامیابی نہیں ملی ہے جتنی ان کو پچھلے دس سالوں میں عالم اسلام بالخصوص برِصغیر میں ملی ہے،جس کے نتیجہ میں ادھر چندسالوں میں فکری ارتداد والحاد کے جوواقعات مسلم معاشرہ میں پیش آئے ہیں وہ پچھلے پچاس سالوں میں پیش نہیں آئے ہیں، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 2005ء تک اسلام کے عائلی قوانین کے خلاف عدالتوں میں رٹ داخل کرنے والے اکثر غیر مسلم ہوا کرتے تھے اور اس میں اکاّدکاّہی کوئی مسلمان ہوتا تھا،لیکن اب حال یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بو رڈ کروڑوں کے صرفہ سے جن عائلی قوانین کے سلسلہ میں عدالتوں میں مقدمات کا سامناکررہا ہے وہ اکثر خود ہمارے مسلمان بھائی بہنوں کی طرف سے داخل کردہ ہیں، اسی طرح اسلام پر اعتراضات کرنے والے ٹی وی چینلوں کے ڈیبیٹ میں اس وقت غیرمسلموں سے زیادہ ہمیں خود عصری تعلیم یافتہ مسلم مرد وخواتین نظر آرہے ہیں۔
ہمارے ملک میں اسپین کی تاریخ دہرانا ناممکن نہیں مشکل ضرور ہے:۔ اس احساس کے باوجود کہ ہمارے ملک کو دوسرا اسپین بنانے کی بڑی حکمت عملی کے ساتھ منصوبہ بندی کی گئی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز بھی ہوچکاہے لیکن تاریخ کے جن طالب علموں کی اسپین میں مسلمانوں کے انخلا کے وقت اس وقت کے وہاں کے دینی واخلاقی حالات اور ہمارے ملک کی موجودہ صورتِ حال پر نظر ہے ان کا کہنا ہے کہ دونوں جگہ کے حالات میں بنیادی فرق ہے جس کی بنا پر ہندوستان میں اس تاریخ کو دہرانے کاقوی امکان تو ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں، مسلمانوں کواسپین سے ہجرت کرانے اور اپنے دین سے دستبردار کرانے میں کامیابی ان کواس لیے ملی تھی کہ وہاں اس وقت علما اور عوام کا آپسی ربط نہ ہونے کے برابر تھا،مذہبی قائدین خودآپس میں دست وگریباں تھے اور فقہی مسالک کو مذہب کا درجہ دیے ہوئے تھے، آپسی انتشار وافتراق اور گروہ بندی آخری حد تک پہنچ گئی تھی جس کی وجہ سے عوام دینی قیادت سے بدظن تھے،شریعت کے تحفظ میں اہم رول اداکرنے والے دینی مدارس کا وجودوہاں اُس وقت نہ ہونے کے برابر تھا، نئی نسل کے ایمان پر باقی رکھنے کی کوششیں بھی جو دینی مکاتب کی شکل میں ممکن تھیں نہ ہونے کے برابر تھی، دوسری طرف غیر اسلامی تہذیب جس طرح خاموشی سے مسلمانوں کے اندرون سے ایمان وتوحید کو کھوکھلاکررہی تھی اس کا احساس عوام تو عوام خواص کوبھی نہیں تھا اور نہ اس کے سدّ باب کے لیے اجتماعی کوششیں ہورہی تھیں، برادرانِ وطن تک دین کے پیغام کو پہنچانے اور ان میں اسلام کا تعارف کرانے کا دعوتی کام بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن اس کے برخلاف الحمدللہ ہمارے ملک کوہزاروں کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجودجس کا ہمیں خود الحمدللہ احساس بھی ہے اور اعتراف بھی، اب تک اس ناگفتہ بہ صورتِ حال سے مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے محفوظ رکھا ہے، اسپین میں ان کوکامیابی اس لیے بھی ملی تھی کہ ایک طرف خارج میں دشمنوں کی حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی تھی تو دوسری طرف اندرون میں اس کے لیے میدان بھی ہموار تھااور زمین بھی نرم تھی، ہمارے یہاں اگرچہ اس کے لیے نہ صرف کوششیں ہورہی ہیں بلکہ اسپین سے زیادہ بڑے پیمانے پر اور بڑی چالاکی اور مکاّری سے اس کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ بھی مبذول کرائی جارہی ہے، لیکن ہزار کوششوں کے باوجود ان کو اس میں کامیابی کا ملنا ناممکن نہیں تو بہت دشوارضرورہے، اس لیے کہ ہمارے ملک کے طول وعرض میں الحمدللہ دینی مدارس کا جال مضبوط اسلامی قلعوں کی شکل میں آج بھی موجود ہے جس کی مثالیں پورے عالم اسلام میں اس وقت نہیں ملتیں، دین وشریعت سے عوام وخواص کو مربوط رکھنے میں اہم رول ادا کرنے والی سدّسکندری کی طرح قائم یہ ایمانی چہاردیواریں اور تحفظ ِ شریعت کے مراکز جس کی اہمیت کا اندازہ ہم سے زیادہ ہمارے دشمنوں کو ہے اپنا دعوتی فریضہ کسی نہ کسی صورت میں انجام دے رہے ہیں،اسی کے ساتھ دین اسلام کو انحرافی نظریات سے محفوظ رکھنے اور نت نئے فتنوں کے تعاقب کا فریضہ بھی ہمارے یہی دینی مدارس کے فارغین ہی انجام دے رہے ہیں، الحمدللہ علماء پر عوام ہی نہیں خواص کا بھی اعتماد ابھی بھی باقی ہے، ان کی ایک آواز پر لاکھوں کا جو مجمع آج بھی اپنے دین کے تحفظ کے لیے میدان میں آکر اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے اس کا تصور اس وقت آپ کسی اسلامی ملک میں بھی نہیں کرسکتے، اپنے ہزار مسلکی اختلافات کے باوجود دینی حلقوں اور مذہبی قیادت میں آج بھی ملت کے مشترکہ مسائل میں تال میل کسی نہ کسی صورت میں پایاجاتا ہے، علماء اوردینی قیادت پر امت کا یہی اعتماد، ان دینی مدارس اوراسلامی قلعوں کی برکت سے مسلمانوں کا توحیدِ خالص کے ساتھ اپنی شریعت پر زندہ رہنے کا یہی پختہ عزم اور شریعت سے ان کی وابستگی ووارفتگی کی یہی عظیم نعمت دشمنوں کی نظر میں اس وقت کھٹک رہی ہے، ان کو اب یقین ہوگیا ہے کہ ہم اس ملک میں اسلام کو زندہ رکھنے والے ان مدارس کے پھیلتے اس وسیع جال کو نہ ختم کرسکتے ہیں اور نہ علما ء سے عوام کے اس مستحکم ربط کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، اس لیے اب ان کی کوششیں یہی ہیں کہ کم از کم دینی قیادت پرعوام وخواص کے اعتماد میں خاموشی سے کمی لانے کی کوشش کی جائے اور دینی مدارس سے عوامی ربط کو کمزور کیا جائے اور خود ان مدارس کو خالص دینی تعلیم کے بنیادی مقصد سے ہٹا کر عصری تعلیم کی آمیزش کے ساتھ اس کی حقیقی روح سے اس کو دور کرکے برائے نام مدرسہ یا جامعہ رہنے دیاجائے۔ اس پورے پس منظر میں اب برصغیر کے مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اگر اپنے اس ملک میں اسپین کی تاریخ کو دہرانے سے اس کو بچاناچاہتے ہیں تو اپنے ان مدارس ومکاتب اور دینی قلعوں کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ اس کو پہلے سے زیادہ مستحکم ومضبوط کریں اور دشمنوں کی چالوں کو سمجھتے ہوئے مدارس کی روح کو باقی رکھتے ہوئے اس کو اپنے حقیقی وبنیادی مقاصد سے ہٹنے نہ دیں۔
ہمیں اپنی دعوتی کوتاہیوں کا بھی جائزہ لینا ہے :۔ عالم اسلام کے ان تشویشناک حالات اور خود اپنے ملک کی ناگفتہ بہ صورت حال میں اسپین کی تاریخ کے مطالعہ کی روشنی میں ہمیں اب ان کو تاہیوں اور غفلتوں سے بھی بچ کر رہنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے الحاد وارتداد کی شکل میں وہاں اللہ کا عذاب نازل ہواتھا،تاریخ بتاتی ہے کہ دعوتی فرائض سے غفلت اوربرادران ِ وطن تک اسلام کا پیغام نہ پہنچانا ان کا سب سے بڑا اور بنیادی جرم تھا،آج ہم سے بھی اس ملک میں پھر وہی غلطی سرزد ہورہی ہے چنانچہ ہمیں شکوہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے ظلم پر ظلم کے باو جود ان کی پکڑ کیوں نہیں ہورہی ہے اور ہم مظلوموں کے لیے آسمان سے اللہ کی مدد کیوں نہیں آرہی ہے، دراصل قرآن وحدیث کی روشنی میں ظالم وہ نہیں ہم ہیں اور مظلوم ہم نہیں وہ ہیں،عادۃاللہ یہ رہی ہے کہ جب بندگانِ خدا تک دعوت کاپیغام پہنچ جاتاہے اور وہ مسلسل انکار کر کے پھراہلِ ایمان پر ظلم کرتے ہیں توان کی پکڑ ہوتی ہے، اپنے ملک کے اسّی فیصد برادرانِ وطن کے تعلق سے اس وقت ہم اہلِ ایمان کیایہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ ہم نے توحید ورسالت کی عظیم امانت کو ان تک پہنچادیاہے یا کم از کم ان کی نظروں سے گزار دیاہے؟ یقینا ہم سب کا جواب نفی میں ہے،کتنے ہمارے مسلم سرمایہ دار، صنعت کار اور تجاّر ہیں جن کی ماتحتی میں سینکڑوں نہیں ہزاروں غیر مسلم برادرانِ وطن سالوں سے ان کی کمپنیوں میں خدمت انجام دے رہے ہیں یا ان کے تعلیمی وسماجی اداروں میں ملازمت کررہے ہیں، لیکن اس دوران کبھی ہم نے بھول کر بھی زندگی میں ایک دفعہ ہی سہی خود ان کی خیر خواہی کرتے ہوئے ان کوآخرت کے ہمیشہ ہمیش کے عذاب سے ڈرا کر شرک وکفر سے باز آنے کی ترغیب دی ہے؟ ہم فخرسے کہتے ہیں کہ ہماری دکانوں، آفسوں اور کمپنیوں میں ہمارے سامانِ تجارت کے خریدار مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم ہیں، ان کی گھریلو تقریبات میں ہم شریک ہوتے ہیں اور خوشی کی ہماری محفلوں میں وہ بھی آتے ہیں، لیکن کل قیامت میں جب انھیں شرک کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش کی جہنم کی سزاملے گی اور اس موقع پر ہماراحوالہ دے کروہ اللہ تعالیٰ سے انصاف طلب کریں گے کہ اے اللہ! اگر ہمارے ان کے بھائیوں نے ایک بار ہی سہی آپ کے اس پیغام کو ہم تک پہنچایا ہوتا تو شاید آج ہمارے لیے یہ نوبت نہیں آتی،تواس وقت ہمارا کیا جواب ہوگا؟ یہ سوچ کر ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
بعض خوش کن تجربات:۔ ہمیں ڈر لگارہتاہے کہ اگر ہم ان کو براہ ِ راست اسلام کی دعوت دیں گے تو اس کا منفی ردِ عمل ہوگا اور مسائل کھڑے ہوں گے، لیکن پوری اسلامی اور دعوتی تاریخ بتاتی ہے کہ خوش اسلوبی اور خلوص نیت سے جب اس فریضہ کو انجام دیا گیا تو اس کے نتائج حیرت انگیز طورپرخلاف توقع ہی سامنے آئے،سخت سے سخت دل انسان کے سامنے بھی جب حکمت کے ساتھ اسلام کا تعارف کرایا گیا تو ان کے دل پسیج گئے اوروہ یا توحلقہ بگوش اسلام ہوئے یا پھر ان کی اسلام کے تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا،خود ہمارے ملک کے ذیل کے بعض واقعات سے جس کا راقم الحروف خود عینی شاہد ہے ان مثبت دعوتی نتائج کی مزید وضاحت ہوسکتی ہے۔ اڈپی کرناٹک کا ساحلی ضلع ہے، پورے ملک میں برہمنوں کا سب سے بڑا مٹھ یہیں واقع ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ہندوستان کے تقریباً تمام صدورا وروزرائے اعظم کسی نہ کسی بہانے یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں،یہاں کے مذہبی رہنما وشویشھ تیرتھ سوامی جی کے تعلق سے یہ بات عام ہے کہ آخری درجہ کے متعصّب مذہبی رہنما ہیں، 1992ء کے آس پاس مخدوم گرامی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بھٹکل آمد کی مناسبت سے عوامی سطح پر ایک بڑا ساحلی اضلاع پرمشتمل پیام انسانیت کا جلسہ تھا، مذکورہ سوامی جی کے نام سے عوام کی بھیڑجمع ہوسکتی تھی اس لیے ہم نے ان کو بطورِ مہمان ِ خصوصی اس میں مدعوکرنے کا فیصلہ کیا لیکن ہمارے بعض ساتھیوں کا خیال ہی نہیں بلکہ اصرار تھا کہ ان کو مدعونہ کیا جائے اس لیے کہ وہ اگر جلسہ میں کوئی سخت بات کہہ دیں تو معاملہ الٹ سکتاہے،ہم نے اس امکانی ضرر سے بچنے کے لیے حضرت مولاناؒ سے اجازت لے کر بی جے پی کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر چترنجن جو بعد میں ممبر اسمبلی بھی بنے خود ان کے گھر میں جلسہ سے پہلے مفکراسلامؒ کی سوامی جی سے خیر سگالی ملاقات کا اہتمام کروایا،وقت مقررہ پر عصر سے قبل خوشگوار ماحول میں یہ ملاقات ہوئی،اس میں سوامی جی کے سامنے حضرت مولانا نے پیام ِ انسانیت کی تحریک پر روشنی ڈالی اور یہ بات صاف کردی کہ آج کے اس جلسہ عام میں ہماری گفتگو صرف انسانی واخلاقی پہلوؤں پر ہونی چاہیے، پھر حضرت مولانا نے پیام انسانیت کی تحریک کے پس منظر میں اسلام کا بھی مختصرتعارف کرادیا، اس سے سوامی جی بہت خوش ہوئے اور جاتے ہوئے خود حضرت مولانا سے پیر چھو کر آشیرواد لیا، پھر ایک دو سال کے بعد ہم نے ان کو ایک اور جلسہ میں جامعہ اسلامیہ بلایا،ان کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کیا اورپورے مدرسہ کا دورہ کرایا،اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے ساتھ آنے والے اخباری نمائندوں نے دوسرے دن جامعہ، دینی مدارس اور مسلمانوں کے تعلق سے جو رپورٹیں شائع کیں اور مثبت مضامین لکھے وہ ہم لاکھوں روپیہ اشتہار دے کر بھی شائع نہیں کرسکتے تھے،سوامی جی سے مسلسل اس رابطہ اور ان کو اپنے یہاں بلاکر اعزاز واکرام اور تقریر کروانے کا فائدہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال رمضان المبارک میں انھوں نے اپنے مٹھ میں مسلمانوں کو بلاکر افطار کی دعوت کی اور اپنے مندر میں ہی ان کے لیے مغرب کی نماز باجماعت کااہتمام کروایا،اس پرایک نہ تھمنے والا طوفان فرقہ پرستوں نے کھڑا کردیا، لیکن سوامی جی نے صاف کہہ دیا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے بلکہ اگلے سال بھی مسلمانوں کو بلاکر اس سے زیادہ اکرام کروں گا اور عملاً اس سال بھی انھوں نے افطارکے لیے مسلمانوں کو دوبارہ مدعوکرکے دکھایا،اب خود ان کے اپنے لوگوں کا کہنا ہے کہ سوامی جی کے بیانات پہلے کی طرح شدت والے نہیں رہے بلکہ مسلمانوں کے تعلق سے وہ ہمدردانہ وخیر خواہانہ خیالات کا اظہار کررہے ہیں. چارسال قبل ہمارے شہر میں ملک کی ایک اہم تفتیشی ایجنسی کی ایک ٹیم مقیم تھی، ہمارے بعض ساتھیوں کے اصرار پر سابق مہتمم جامعہ حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی ؒ کے ساتھ ہماری ان سے ملاقات ہوئی،دوسرے دن ہم نے ان کو جامعہ آنے کی دعوت دی، خصوصی طور پر شعبہ حفظ لے گئے اور وہاں موجود نابینا استاد حافظ محمد اشفاق صاحب سے وہ آیتیں پڑھوائیں جس میں کسی بھی ناحق انسان کو مارنے پر پوری انسانیت کو مارنے کی بات کہی گئی ہے،پھر ان کے سامنے ترجمہ کر کے اس کی تشریح بھی کی،اس پر اس پوری ٹیم کا کہنا تھاکہ اسلام میں ہرانسان کے احترام کے تعلق سے یہ حیرت انگیزباتیں ہم نے پہلی دفعہ سنیں،اس کے بعد ان کی تفتیشی کاروائی میں اس ملاقات کا صاف اثر ہمیں نظر آیا۔
تیسرا واقعہ ابھی تین چار سال قبل کا ہے،اس وقت کے نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری صاحب کی صدارت میں دہلی میں ایک بین المذاہب سیمینار تھا جس میں پڑوسی ممالک سری لنکا، بھوٹان اور نیپال وغیرہ کے مذہبی پیشوا بھی شریک تھے، میں خود بھی مقالہ نگار کی حیثیت سے اس میں مدعو تھا، لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ پورے سمینار میں مدعو دوسرے مسلم نمائندوں سے زیادہ اچھی ترجمانی اسلا م کی سوامی لکشمی شنکر اچاریہ نے کی،انھوں نے توحید ورسالت کا تعارف کرتے ہوئے جہاد سے متعلق قرآنی آیات کی ایسی د ل نشیں تشریح کی کہ اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کابڑی حدتک ازالہ ہوگیا،یاد رہے کہ یہ وہی سوامی لکشمی شنکر اچاریہ تھے جنھوں نے دس بارہ سال پہلے قرآن مجید کی انیس یا بیس جہاد کی آیتوں کا حوالہ دے کر اسلام کے خلاف ایک سخت ترین کتاب لکھی تھی لیکن بعد میں کچھ اللہ کے بندوں نے ان سے ربط کرکے پورا قرآن مجید پڑھنے اور سیرت کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی تووہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کے سب سے بڑے وکیل بن کر سامنے آئے اور خود اپنی گزشتہ کتاب کی تردید کرتے ہوئے دوسری کتاب اسلام کے حق میں لکھ کر اپنے رجوع کا اعلان کیا، آج بھی جگہ جگہ وہ اسلام سے متعلق غلط فہمی دورکرنے والے بڑے مقرر بن کرہمارے درمیان موجود ہیں جس کا اندازہ یوٹیوب پر موجود ان کی تقاریر سے بھی ہوسکتاہے۔ چوتھا واقعہ بھی ابھی دو تین ماہ قبل کا ہے،دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن سے میرے ایک شناسا کا فون آیا کہ برطانوی نائب سفیر کرناٹک کے ساحلی اضلاع کے سرکاری دورہ کے دوران مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی میں بھی حاضر ہوناچاہتے ہیں،میں نے ان سے درخواست کی کہ جب شہر آہی رہے ہیں تو ہمارے مدرسہ جامعہ اسلامیہ میں بھی ہم ان کو لے جائیں گے اور ایک استقبالیہ جلسہ رکھ کر مدرسہ اور اسلام کا بھی تعارف کرائیں گے، ہماری درخواست پر انھو ں نے دوگھنٹے کے بجائے چھ گھنٹہ کا وقت دیا، اکیڈمی اور علی پبلک اسکول کے دورے کے بعد ہم نے جامعہ کا دورہ کرایا، پورے کیمپس، مسجد اورکتب خانہ وغیرہ کے معائنہ کے بعداخیرمیں کانفرنس ہال میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ جلسہ رکھاگیا، اس تاریخی ودعوتی موقع سے فائدہ اٹھانے کی جب الحمدللہ ذہن میں بات آئی تو خود میں نے استقبالیہ کلمات کے دوران ان سے مخاطب ہوکرکہا: جناب:۔ آج کی یہ کتنی خوبصورت، پُررونق اور یادگارتقریب ہے جس میں اکرام واعزاز کرکے آپ کی عزت افزائی کی جارہی ہے، کاش! مرنے کے بعد بھی جنت میں آپ کی اسی طرح عزت افزائی ہواور ہم اور آپ سب اسی طرح جنت میں بھی استقبالیہ تقریب میں شامل رہیں، پھر میں نے کہا جناب: مرنے کے بعد اس طرح کے اعزاز کے لیے آپ ہمارے سامنے صرف یہ مختصر جملہ دہرائیں کہ اللہ تعالی ہی خالق بھی ہے اور مدبّر بھی یعنی کائنات کے ذرہ ذرہ کے پیدا کرنے میں جس طرح وہ تنہاہے، اس کو چلانے میں بھی وہ اکیلاہے،الوہیت اور عبادت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں،آپ صرف یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، اگر اس جملہ کو آپ ہمارے سامنے دہرائیں گے تو آپ کے حق میں کل مرنے کے بعد ہم خود گواہی دیں گے اور ہم سب جنت میں ان شاء اللہ ایک ساتھ ہوں گے، میں نے یہ کہتے ہوئے اسٹیج سے مڑ کر ان کی جانب دیکھا تو وہ زیرِ لب مسکرارہے تھے اور سرہلاکر غالباً اپنی آمادگی کا اظہار کررہے تھے،جلسہ کے بعد اخباری نمائندوں نے جب اس دورہ کے تعلق سے ان سے سوالات کیے تو انھوں نے صاف کہا ”یہاں آکر اسلام اور دینی مدارس کے تعلق سے میری غلط فہمیوں کا بڑی حد تک ازالہ ہوا،کسی بھی مدرسہ کا یہ میرا پہلا دورہ تھا“ واپسی میں ہم نے ان کو توحید ورسالت پر انگریزی میں کتابیں بھی دیں جس کو انھوں نے بڑی ممنونیت کے ساتھ قبول ہی نہیں کیا بلکہ مطالعہ کا وعدہ بھی کیا، کچھ اسی طرح کلمہ طیبہ کے اقرار کی دعوت ہم نے آج سے پندرہ سال پہلے ہمارے ملک کے نامور شاعر جگن ناتھ آزاد کو بھی ہمارے شہر میں ان کی آمد اور ان کے اعزاز میں جامعہ اسلامیہ میں منعقدہ جلسہ میں دی تھی۔
ایک اہم ترین دعوتی پہلو سے امت کی عمومی غفلت:۔ اس طرح کے خوش کن سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں واقعات کی روشنی میں جو پورے ملک میں وقتاً فوقتاً مختلف اداروں اورشخصیات وتحریکات کے ذریعے الحمدللہ روز سامنے آرہے ہیں ملت اسلامیہ ہندیہ کو اپنی اس اہم دعوتی ذمہ داری کا جائزہ لینا چاہیے جس کی طرف سے اب بھی عمومی غفلت برتی جارہی ہے، عالمی سطح پر بالعموم اور ملکی سطح پر بالخصوص الحمدللہ دعوتی میدان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بڑے پیمانہ پر بہت اچھے کام ہورہے ہیں اور اللہ تعالی کے فضل سے اس کے بڑے اچھے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں لیکن افسوس کہ ایک اہم اور بنیادی دعوتی پہلو کی طرف ابھی ملت اسلامیہ کی توجہ بالعموم مبذول نہیں ہوئی ہے اور وہ ہے ”سربراہانِ مملکت اور امت کے حکمرانوں تک دعوت ِ دین پہنچانے کا فریضہ“، سیرت نبوی میں مکاتیب نبوی ایک مستقل باب ہے، عہد نبوی میں مسافت کی بے پناہ دوری کے باوجودرحمت عالمﷺنے اس وقت کے اکثر حکمرانوں اورعرب وعجم کے مختلف بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط کے ساتھ اپنے وفودبھی بھیجے اور ان تک براہِ راست توحید ورسالت اور آخرت کا پیغام پہنچایا،بعض سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ اس طرح کے جو دعوتی خطوط روانہ کیے گئے ان کی تعداد سو سے زائد تھی جن میں سرفہرست ایران،روم،مصر،حبشہ،یمامہ،بحرین اور یمن وشام وغیرہ کے حکمراں تھے جو مختلف عیسائی،یہودی اورمجوسی مذاہب سے تعلق رکھتے تھے، اس کے علاوہ مشرکین عرب کے قبائلی سرداران کوبھی آپ ﷺ نے دعوتی خطوط لکھے،ان خطوط کو لے جانے والے نمایاں سفراء وقاصدین میں حضرت دحیہ کلبیؓ، حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ،حضرت سلیط بن عمرو اورحضرت شجاع بن وھبؓ اسدی وغیرھم کے نام ملتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ براہِ راست آپ ﷺ کے ان دور دراز علاقوں اور ملکوں میں نہ جاسکنے کے باوجود الحمدللہ عالمی سطح پر اسلام کا تعارف ہوگیا اور ان میں سے ایک بڑی تعداد نے اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو دائرہ اسلام میں داخل بھی کیا۔ لیکن افسوس کہ اس وقت امت کی طرف سے ہرطرح کے طبقات میں دعوتی کام کے باوجود یہ ایک اہم ترین شعبہ مجموعی طورپر پورے عالمِ اسلام میں تقریباًخالی ہی نظر آرہاہے، جب تک خلافت قائم رہی اور عثمانی ترکوں نے اپنی سادگی سے خلافت کی قباکو چاک نہیں کیا تو اس وقت تک عالمی سطح پر امت کی عمومی قیادت کے منصب پرفائز ہونے کی بِناپر یہ فریضہ ان ہی خلفاء سلطنت عثمانیہ کاتھا جس کو انھوں نے انجام نہیں دیا، لیکن اب تو عالمی سطح پر خلافتِ اسلامیہ کے نہ ہونے کی بنا پر مسلم وغیرمسلم ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ وہاں موجود علمااور دُعاۃ کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی دعوتی حکمت کو اپنا کر عالمِ انسانیت کے ایک ایک حکمرانِ وقت،صدر ِ مملکت اور وزیر اعظم و بادشاہ وغیرہ تک اسلام کی دعوت پہنچائیں۔ خود ہمارے ملک میں علماء اور دینی ومذہبی قیادت کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کم از کم اپنے ملک کی حد تک ملکی وصوبائی سطح پر موجود سربراہوں،وزراء،گورنروں اور اعلیٰ سطحی قیادت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مل کران کو توحید کے پیغام سے آشناکرائیں۔
ان سے ملاقاتیں اپنے مسائل کو لے کر ہوتی ہیں، لیکن ان کے مسئلہ کے خاطر نہیں:۔
کم از کم اپنے ملک کی سطح پر ہی مذکورہ بالا دعوتی پہلوکے تعلق سے ہم غورکریں تو مجموعی طور پر پوری امتِ مسلمہ ہندیہ کو ہم قصوروار پائیں گے، سال بھر میں مختلف مناسبتوں سے اپنے ملک اورصوبہ کے حکمرانوں،وزراء اورممبرانِ پارلیمان وممبرانِ اسمبلی وغیرہم سے ہم یا ہمارے قائدین و علماء ملتے ہیں، اپنے مسائل لے کر ان کے پاس جاتے ہیں، مختلف اداروں کی طرف سے ان کے پاس جاکر اپنے مطالبات پر مشتمل میمورنڈم دیے جاتے ہیں، حتی کہ ہمارے بعض قائدین وعلماء کے ذاتی طور پر بڑے مناصب پرفائز ان حکمرانوں اور وزراء سے ایسے گہرے ذاتی تعلقات بھی ہیں کہ ان کے گھر شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات تک میں ا ن کی آمد ہوتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے ذاتی مسئلہ یعنی آخرت میں ہمیشگی کی آگ سے ان کو بچانے کے خاطر ان کی ہمدردی وخیرخواہی میں کبھی ہم نے ان سے ملاقات کی ہے؟ ہمارے ادارہ کی طرف سے کبھی خالص دعوتی مقصدلے کر کوئی وفدان کے پاس پہنچاہے؟ کبھی بھول کر بھی ہم نے ان کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی ہے؟ کبھی ان سے مل کر اسلام کے فطری پیغام سے براہِ راست آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے، محشرکے میدا ن میں ہمارے یہی حکمراں اورقائدین اگر ہمارے علما ء اور دعاۃ کا گریباں پکڑ کر اللہ کے دربار میں یہ سوال کریں کہ اے اللہ: یہ حضرات دسیوں مرتبہ ہمارے دربار میں اپنے اور اپنی قوم کے ذاتی اورملّی مسائل کو لے کر حاضر ہوتے تھے، متعدد بار ان کی دعوت پر ہم خود ان کے اداروں میں بھی گئے تھے، لیکن اے اللہ! آپ کے ان بندوں نے کبھی بھول کر بھی ایمان واسلام کی حقانیت اور کفر وشرک کی قباحتوں کا ہمارے سامنے ذکر نہیں کیا،ہمارے پاس اس وقت کیا جواب ہوگا اور کس طرح ہم اپنی اس غفلت اور کوتاہی کی تاویل کرسکیں گے؟ یہ سوال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اس کے جواب کے لیے ہمیں ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
اعلیٰ سطحی قیادت تک دعوت پہنچانے کا ایک امکانی طریقہ:۔ ملک کے حکمراں طبقہ اور اعلیٰ سطحی قائدین تک ہمارا دعوت پہنچانے کافریضہ صرف اس حدتک ہے کہ کبھی ہم اپنے جلسوں میں ان کو مدعو کرکے قرآن مجید کے نسخے دیتے ہیں جس کو وہ بڑے احترام کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور اسی وقت ان کا سکریٹری یا محافظ اس کو اٹھاکر گاڑی میں رکھ دیتاہے اور وہاں سے وہ اس کواپنے سرکار ی بنگلہ کے کتب خانہ کی زینت بنادیتے ہیں، اسی طرح اسلام کے نام سے ہمارے یا ان کے جلسوں میں ان کی موجودگی میں جو زیادہ سے زیادہ ہماری تقریریں ہوتی ہیں وہ دفاعی انداز کی ہوتی ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے،دہشت گردی سے اس کا کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ،لیکن ان کے تعلق سے ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جلسہ یا ہمارے ادارہ میں ان کی آمد پرہمارا ہدیہ کیاہواقرآن مجید یا سیرت نبوی کا نسخہ ان کی نظر وں سے گزرا ہے اور اس میں موجودتوحید ورسالت اور آخرت کے عقلی دلائل کو انھوں نے پڑھا ہے یا اس کا مطالعہ انھوں نے کیا ہے، اس کے لیے ایک امکانی ترکیب ذیل میں دی جارہی ہے جس سے کم از کم یقینی طورپر ان کی نظروں سے ان شاء اللہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ وسیرت نبوی میں موجود اسلام کی معقولیت کے فطری دلائل گزرجائیں گے اور غیر جانب دار ہوکر اس کے مطالعہ اوراس پر غور کرنے سے ان کی ہدایت پانے کے ان شاء اللہ امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ ملک کے تمام بڑے حکمرانوں بشمول صدر ووزیر اعظم اور کابینی وزراء،صوبائی گورنرس،ممبرانِ پارلیمنٹ وممبرانِ اسمبلی،آئی اے یس اور آئی پی یس افسران وغیرہم کو اپنے ادارہ کی طرف سے اس طرح خطوط لکھے جائیں کہ ہم عالمی سطح پر ایک ضخیم کتاب تین چار جلدوں میں شائع کرنے جارہے ہیں جس کا عنوان ہے. ۱)" حضرت محمدﷺ بحیثیت پیغمبر امن بھارت کے بیسویں صدی کے حکمرانوں کی نظر میں "
ملک کے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز اور نامور وکلاء کو یہ عنوان دیا جائے. ۲) "حضرت محمدﷺ بحیثیت ایک کامیاب قانون داں بھارت کے نامور قانون دانوں کی نظر میں
ملک کی تمام یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلروں اور کالجزکے پرنسپلوں کے لیے یہ عنوان رکھا جائے. ۳) "حضرت محمدﷺ بحیثیت کامیاب معلّم ومربیّ ہندوستان کے نامورماہرین ِ تعلیم کی نظر میں،
مرسلہ خط میں ان کو لکھاجائے کہ اس سلسلہ میں ہمیں حضرت محمدﷺ کے تعلق سے دو تین صفحات پرمشتمل آپ کے تاثرات مطلوب ہیں. ان کے ذاتی نام اپنے لیٹر ہیڈ پر ٹائپ کرکے ان حضرات کو یہ خطوط خود جاکر دئیے جائیں اور ساتھ میں سیرت نبوی کی کوئی معیاری کتاب بھی یہ کہہ کر ان کو دی جائے کہ اس سلسلہ میں آپ ہماری ہدیہ کردہ اس کتاب سے بھی مدد لے سکتے ہیں یا دوسرے کتب خانوں میں موجود کتابوں یا انٹرنیٹ پر موجود مواد سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں،اس کے لیے آپ کو دو تین ماہ کا موقع ہے،جب آپ کا تاثراتی مضمون حضرت محمدﷺ کے تعلق سے ہمیں موصول ہوگا تو اس کو ہم آپ کے یعنی مضمون نگار کے مختصر تعارفی نوٹ کے ساتھ اس تاریخی اور عالمی سطح پر شائع ہونے والی کتاب میں شامل کریں گے اور اس کتاب کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں مثلاً عربی،انگریزی،ہندی،اردواور چینی وغیرہ میں بھی ترجمہ شائع کریں گے اورملکی سطح پر ایک بڑے جلسہ میں اس کتاب کا اجراء بھی ہوگا۔ ظاہر با ت ہے اس خط کا سب سے پہلا نفسیاتی اثر مدعو اور مخاطب پر یہ پڑے گاکہ وہ سوچنے لگے گاکہ مجھے اس ادارہ نے بیسویں صدی کے ملک کے کامیاب حکمرانوں، قانون دانوں اور ماہرین تعلیم میں شامل کرکے میرا سرفخر سے اونچا کردیا ہے،دوم یہ کہ یہ کتاب عالمی زبانوں میں شائع ہوگی اور بین الاقوامی سطح پر اس کا تعارف ہوگا اور اس میں خود میرا آرٹیکل بھی شامل ہوگا اس لیے مجھے بہتر سے بہتر انداز میں حضرت محمدﷺ کے تعلق سے لکھنا اور ان کی خوبیوں کو بیان کرناہے، اس کے لیے وہ سب سے پہلے خود سیرت نبوی کا اطمینان سے مطالعہ کرے گا اور ہمارے لیے یہ بات یقینی ہوجائے گی کہ ان شاء اللہ اس دوران توحید ورسالت کا ابدی پیغام اس کی نظر سے گزرجائے گا اور ہم اپنی دعوتی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں گے،دو چار ماہ کے بعد جب یہ کتاب شائع ہوگی جس کی طباعت پر دو تین لاکھ روپے سے زیادہ خرچ نہیں ہوں گے،اس کے اجراء میں خود ان تمام حضرات کو مدعو کیاجائے گا اور وہ خود اس جلسہ میں شریک ہوکر رحمت عالمﷺ کے تعلق سے اپنے مثبت تاثرات کا اظہار کریں گے،اگر ہم نے ملکی سطح پر ایک ہزار کے قریب ان اعلیٰ سطحی شخصیات تک خود جاکر یا کسی معتبر شخص کے ذریعے اپنا یہ پیغام پہنچادیا اور ان میں دو تین سو لوگوں نے بھی اپنے دو تین صفحہ کے تاثرات ارسال کیے تو یہ دو تین سو افراد لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کے نمائندے اور ترجمان ہوں گے اور خود ان کے ذریعے اسلام کے تعلق سے شائع ہونے والی اس کتاب کو دوسرے لوگو ں تک پہنچانابھی ہمارے لیے آسان ہوگا،اس امکانی طریقہ دعوت کے تجربات ملکی سطح پر بھی ہوسکتے ہیں یا پھرصوبائی یا ضلعی سطح پر بھی،کسی بھی ادارہ یا جمعیت وتحریک کی طرف سے اس کو بآسانی انجام دیاجاسکتاہے۔ ہم نے اس امکانی دعوتی طریقہ کو ہمارے ملک کے کئی چوٹی کے علما وقائدین کے سامنے رکھا جن کا ملک کی اعلیٰ قیادت سے ذاتی تعارف بھی تھا اورربط وتعلق بھی، وہ اس دعوتی کام کو بآسانی اور بخوبی انجام بھی دے سکتے تھے، ایک نامور ملّی قائد کے پاس دہلی میں خود اسی مقصد کے خاطر دو تین دفعہ خودگیا اور ان کو اپنے شہر اور اداروں میں مدعو کرکے اس دعوتی پہلو کو روبعمل لانے کی شدید ضرورت کے تعلق سے ان کی ذہن سازی بھی کی،لیکن ان کی طرف سے باربار یاددہانی کے باوجود ہنوز دلّی دور است کا معاملہ ہے،ہم نے حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی ؒ کو بھی اپنے ادارہ میں بلاکریہ دعوتی منصوبہ ان کے سامنے رکھاتھا، الحمدللہ انھوں نے اس کو بہت پسند کیا اوردہلی واپس جاکراس پرکام بھی شروع کردیا اور کئی پارلیمانی ممبران کے نام اس طرح کے دعوتی خطوط بھی لکھے لیکن اسی دوران وہ اللہ کو پیارے ہوگئے،سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ملک کے ایک نامور مسلم وکیل جو ماضی قریب میں حکومت کے ایک بڑے عہدہ پر بھی فائز تھے ان سے بھی ہم نے مسلسل ایک سال تک زبانی وتحریری رابطہ کر کے اور ان کو اپنے یہاں بلاکر اور خود ان کے شہر جاکر بھی ترغیب دی کہ وہ ملکی سطح پرججز اور وکلاء کے درمیان اس کا دعوتی کام تجربہ کریں،لیکن وہ بھی وعدہ پر وعدہ کے باوجود اب تک اس کام کو شروع نہیں کرسکے ہیں،لیکن میں اب بھی اللہ تعالی کی ذات سے ناامید نہیں ہوں اورروزانہ اس کے لیے دعاکے ساتھ کوشش بھی کررہاہوں کہ ملکی یا ریاستی سطح پر مختلف سیاسی، قانونی،تعلیمی اور تجارتی میدانوں میں کام کرنے والے اعلیٰ سطح کے کچھ افراد میسر آجائیں تو ان کے توسط سے بآسانی اس امکانی دعوتی تجربہ کو آگے بڑھایاجاسکے۔
پاسباں مل جائیں گے کعبہ کواسی صنم خانہ سے:۔ ہمیں رحمت عالم ﷺ کی ناامیدی ومایوسی اور اتمام حجت کے بعد آخری مرحلہ میں اپنے دشمنوں کے حق میں کی گئی بدعا *_اللہم دمّراعداء الدین اعداء الاسلام والمسلمین_* " اے اللہ! تو اسلام اور مسلمان دشمنوں کو نیست ونابود کر"یادرہتی ہے لیکن آسمان سے فرشتوں کے ذریعہ دشمنوں کی ہلاکت کی پیش کش باوجود _اللہم اھد قومی فانّھم لایعلمون_ والی مشفقانہ کیفیت یاد نہیں رہتی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے،بے شک وہ جانتی نہیں پوری اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ جب بھی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبہ سے اخلاصِ نیت کے ساتھ سخت سے سخت انسان کے سامنے بھی معقول بات رکھی گئی ہے تو بالعموم اس کا اثر ضرور ہوا ہے،بالعموم ہم کہتے ہیں کہ فلاں حکمراں تو ظالم ہے،سفاک ہے،اس کے پاس جانے کاکیافائدہ؟ فرعون سے بڑھ کر شاید ہی انسانی تاریخ میں کوئی ظالم وجابرحکمراں تھا، اس نے ہزاروں معصوم بچوں کو ذبح کرکے سفاکیت کی ناقابل یقین تاریخ رقم کی تھی، خود کو أناربّکم الاعلیٰ کہتا تھا، ایسے سخت ترین بادشاہ کے پاس بھی وقت کے نبی کو جانے کا حکم ہوا اور یہ بات علیم وخبیر رب العالمین کو معلوم ہونے کے باوجود کہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئے گا اور اس کے مقدر میں ہدایت نہیں ہے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کو حکم دیاگیا کہ آپ دونوں اس سرکش فرعون سے مل کر نرمی سے بات کریں اور اس کو سمجھائیں،شاید کہ وہ مان جائے،اسی طرح آج ہم بھی اپنا دعوتی فریضہ سمجھ کر اگرہمارے ملک کے حکمرانوں اور اعلیٰ سطحی قیادت سے مل کر ان کی ہمدردی کے جذبہ سے ان کو ہمیشہ کی ہلاکت سے بچانے کے لیے حکمت کے ساتھ دعوت کا پیغام دیں گے اور اسلام کی حقانیت اور توحید ورسالت کی معقولیت کو سمجھانے کی کوشش کریں گے تو تین میں سے ایک نتیجہ ہر حال میں ان شاء اللہ سامنے آنے والا ہے،اول یاتووہ فضل خداوندی سے ان شاء اللہ ہدایت پائیں گے، دوم اگر حلقہ بگوشِ اسلام نہ بھی ہوئے تو کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کے نفرت کے جذبات میں کمی آئے گی اور اسلام سے متعلق ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا، سوم اگریہ دونوں مذکورہ نتائج مرتب نہیں بھی ہوئے تو اس اہم فریضہ دعوت کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کے خلاف ان کی ظلم وزیادتی پر ان کی اس دنیا ہی میں پکڑ کے خداوندی فیصلے سامنے آئیں گے اور مسلمانوں کے حق میں اللہ کی مدد کا ظہور ہوگا،ہمارے ملک کے بگڑتے ماحول،سنگین صورتِ حال اورتشویشناک حالات کے باوجود ہمیں اللہ پاک کی ذات سے امید قوی ہے کہ ان شاء اللہ کچھ فیصدپہلانتیجہ بھی برآمد ہوگا اور ہم خود زبان حال سے کہیں گے"پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے"،پھر دنیا اسلام کا یہ معجزہ بھی دیکھے گی کہ کل کے ہمارے سب سے زیادہ اسلام دشمن سمجھے جانے والے یہ حکمراں اور اعلیٰ سطحی قائدین اسلام کے نہ صرف حامی ووکیل بلکہ داعی ومبلغ بن کر سامنے آئیں گے۔ وَماَذٰلِکَ عَلٰی اللّہِ بِعَزِیْزٍ
ظلمتِ شب میں نظر آئی امید کی کرن :۔ ہمارے ملک کے حالات مسلمانوں کے لیے اس وقت جس قدرپریشان کن، سنگین اور تشویشناک ہوں لیکن اس گئی گزری حالت میں بھی دعوتی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے بے پناہ مواقع ہیں، پانی ابھی سرسے اونچا نہیں ہوا ہے، پوری اسلامی تاریخ میں سب سے کامیاب دعوت کا کام ناموافق حالات ہی میں ہوا ہے،سلطنت بغداد میں تاتاریوں کے حملے اور اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کی شہادت کے بعد جب پوری دنیا اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ناامیدہوگئی تھی اسی صنم خانہ سے کعبہ کو پاسبان ملے تھے اور ظالم ترین وحشی سمجھے جانے والے یہی تاتاری حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے، آپ کو یہ جان کر مسرت آمیز حیرت ہوگی کہ آج چیچینیا، افغانستان،ترکمانستان اور وسط ایشیا کے اکثر ملکوں میں موجود مسلم مجاہدین اسی تاتاری نسل سے تعلق رکھتے ہیں جوکسی زمانہ میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن سمجھے جاتے تھے،اسی طرح ہمیں معلوم ہوناچاہیے کہ1857ء کے ناگفتہ بہ حالات کے بعد ہی برِصغیر میں سب سے بڑے اسلامی قلعے دینی مدارس کی شکل میں وجود میں آئے تھے،تاریخ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ1947ء کے بعد رونماہونے والے بھیانک فسادات کے بعد ہی مسلمان سنبھلے تھے اور اپنی دعوتی کوتاہیوں سے سبق لیتے ہوئے نئے عزم اور ایمانی شناخت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف از سرِ نو رواں دواں ہوئے تھے، قرآن مجید کے مطالعہ سے بھی صاف معلوم ہوتاہے کہ اہلِ ایمان کے حق میں نصرتِ خداوندی کے فیصلے ناگفتہ بہ حالات اور ناامیدی کے گھٹاٹوپ اندھیرے ہی میں آتے ہیں،لیکن دوسری طرف اسلام کی دعوتی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اہل ایمان کے اجتماعی گناہوں اور ان کے کرتوتوں کی بنا پر ہی ا ن پر ظالم حکمراں مسلط کیے جاتے ہیں اور ان کو آزمائشوں میں ڈالاجاتاہے، درحقیقت اس وقت کے یہ تشویشناک حالات ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے ہی ہیں،یہ عادت اللہ ہے کہ امت جب اجتماعی طور پرتوبہ کرتی ہے تو حالات یکسر بدل جاتے ہیں اور فیصلے ان کے حق میں ہوتے ہیں، اگر ہم نے ماضی کی اپنی دعوتی کوتاہیوں سے سبق لیتے ہوئے آج بھی بحیثیت امت دعوت خارجی محاذ پر اس اہم پہلو یعنی اعلیٰ سطحی قیادت تک دین کے پیغام کو پہنچانے میں کامیابی حاصل کی اوراسی کے ساتھ اپنے وطنی بھائیوں اور عوام وخواص تک بھی اللہ کا پیغام پہنچادیااوردوسری طرف داخلی محاذ پراپنی بداعمالیوں سے سبق لیتے ہوئے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے امیدقوی ہے کہ چند ہی سالوں میں ہمارے ملک کا نقشہ ہی بدل جائے گااور آج کے ہمارے حریف وفریق سمجھے جانے والے ہمارے یہ برادرانِ وطن ہم سے بڑھ کر اسلام کی وکالت اور ترجمانی میں پیش پیش نظر آئیں گے،دراصل سیاہ بادلوں کی آمد کے بعد ہی بارانِ رحمت کانزول ہوتا ہے،گھٹاٹوپ اندھیرے کے بعد ہی سحر ہوتی ہے، عُسر کے بعد ہی یُسر آتاہے، آزمائشوں کے بعدہی فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں،ابتلاء کی آگ میں تپائے جانے کے بعد ہی کندن بن کر اہل ایمان منظر پر آکراپنی شناخت کراتے ہیں، ناامیدی کے بعد ہی امید کی کرن سامنے آتی ہے،اسی طرح ان تشویشناک اورکربناک حالات کے درمیان ہی سے انشاء اللہ اس ملک میں مسلمانوں کی سرخروئی اور فتح مندی اور کامیابی وکامرانی کی نوید پوری دنیائے انسانیت کے کانوں سے ٹکرانے والی ہے۔ شب گریزاں ہوگی آخرجلوہئ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں