مولانا نورالامین رکن الدین (عرب) جامعی
( ۱۹۷۲ – ۲۰۲۱ م )
تحریر: سید ہاشم نظام ندوی
جوان عمر، تندرست بدن،زندہ دل، بذلہ سنج، خوش مزاج وخوش سیرت انسان۔ جو اپنی زندگی کی پانچویں دھائی گزار رہا ہو،اچانک داغِ مفارفت دے جائے،سفرِ آخرت اختیار کر لے تو اس کا غم ہونا ایک فطری بات اور طبعی تقاضا ہوتا ہے۔
اڑتالیس ۴۸ سال کی عمر ، قوم ووطن کی خدمتوں کے لیے وقف ہوتی ہے، جوانی کا دم خم اور اس کے بعد تجربوں کےمرحلوں کےساتھ نیک نامی اور شہرت کےآغاز کی ہوتی ہے، بال بچوں کے ساتھ کھیلنے اور زندگی کی خوشگوار بہاریں گزارنے کا موسم ہوتا ہے۔اسی جوانی میں ہمارے ہم عصر، فرزندِ جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا نو الامین رکن الدین جامعی (عرب) نے حیات وموت کی کشمکش میں بیماری کو سہتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی، پورے محلے بلکہ علاقے کو منور رکھنے والی یہ شمع بجھ گئی اور ایک کھلا ہوا پھول چمن بھر کو مہکاتا ہوا نذرِ خزاں ہو گیا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون ۔
مرحوم کی بیماری کا آغاز سن ۲۰۱۹ کے اواخر میں ہوا، سن ۲۰۲۰م پورا سال بیماری میں گزرا،علاج کے دوران کبھی افاقہ ہوتا نظر آیاتو کبھی اچانک طبیعت بگڑنے لگتی،کبھی روبہ صحت ہونے لگےتوکبھی دوبارہ بیماری شروع ہو گئی، گویامرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اسی امید وبیم کی حالت میں ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا۔اگرچہ صحت بہت گر گئی تھی، پھر بھی اتنی جلد وقتِ موعود آ جائے گا اہلِ غفلت کو خیال بھی نہیں تھا۔ بالآخرقوم کا یہ خاموش خادم بروز منگل بتاریخ ۲۵/رجب المرجب ١٤٤٢مطابق 9/مارچ 2021 بوقتِ سحر زندگی کے آخری لمحات گزارکراپنی بیوی دو بیٹوں و پانچ بیٹیوں کو سوگوار کر گیااوراپنی بے لوث خدمات کے ذریعےقوم میں اپنی محبوبیت کے نقوش چھوڑگیا۔
ان کے انتقال کے بعد انھیں جاننے والوں، ان کے ساتھ صبح وشام گزارنے والوں اور جملہ ہم عصروں کی زبانوں سے یہ جملے بار بار سوالیہ اوراستعجاب کے اسلوب میں سنائی دے رہے تھے کہ وہ کتنے توانا وتندرست تھے؟ کس طرح ہشاش وبشاش رہتےتھے؟ کیسے خوش مزاج وخوش سیرت تھے؟ اور کس قدر محنتی و جفاکش تھے۔ جی ہاں وہ خدمتِ خلق میں پیش رفت کرتے، دوسروں کے کام آنا سعادت سمجھتے،دوسروں کے کام آنے کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھتے، ہر خدمت کوبخوشی انجام دیتے، ان میں دلی سکون محسوس کرتے۔ کسی بھی کام کے لیے جب انہیں بلایا جاتا تو بر وقت حاضر ہوجاتے ۔ اسی طرح کسی کے انتقال پر جب غسال کی ضرورت ہوتی اور آپ کو بلایا جاتا تو میت کی حالت کی پرواہ کئے بغیر حاضر ہوکرغسل اور تجہیز تکفین کو اپنی رضا کارانہ خدمت انجام دیتے تھے۔
آپ بھٹکل کے بڑے اورمعروف خانوادے "رکن الدین" کے ایک سپوت تھے، والدِ ماجد کا شمار بھی مشہور لوگوں میں ہوتا تھا، جوعرفِ عام میں "عرب" کے لقب سےیاد کئے جاتے تھے۔ مرحوم نورالامین ان کےسب سےچھوٹےفرزند تھے۔آپ کی پیدائش سن ۱۹۷۲ کی تھی، تعلیم کی تکمیل سن ہجری1417 مطابق1997عیسوی کو جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے کی، اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے دار العلوم ندوۃ العلماء چلے گئے، تقریبا سال بھر وہاں رہے، مگربعض وجوہات کے باعث فضیلت کی تکمیل نہیں کر سکے۔
مرحوم کا تعارف مسجدِ عائشہ کے سابق امام ،مجلس ملیہ و وائی ایم ایس اے اور ابنائے جامعہ کے ایک کے فعال و متحرک رکن سے کیا جاتا ہے۔ آپ نےتعلیم سےفراغت کے بعد چندسال مادرِ علمی جامعہ اسلامیہ کی لائبریری میں خدمت انجام دی۔ کچھ عرصہ مکتب جامعہ اسلامیہ میں واقع دفترِ نظامت میں گزارا۔ تقریبابائیس (۲۲) سال تک مسجدِ عائشہ میں امامت کے فرائض انجام دئے اورتنظیم (ملیہ) مسجد میں دس سال سے زائد عرصہ آفس وزیرِ تعمیر مسجد کے کاموں کی بعض ذمہ داریوں سے وابستہ رہے۔ جب کہ اسی دوران ایک عرصے تک مدرسہ تعلیم القرآن کے مکتب میں بھی تدریس سے منسلک ہوکر نونہالوں کو قرآنی ودینی تعلیم دے کر بھی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔
مرحوم بلند اخلاق و کردار کے مالک تھے، دل کینہ اور حسد سے پاک تھا،سب کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آتے ۔ بالخصوص سادگی، صلہ رحمی ،خدمتِ خلق اور ہر ایک کے کام آنے کا جذبہ یہ سب ایسی صفتیں تھیں جوکبھی بھلائی نہیں جاسکتیں۔ قرآن اور اہل قرآن سے آپ کا قلبی تعلق تھا۔ دعوت وتبلیغ سے بھی اچھا تعلق رہا، اس کے اجتماعات اوربیانات میں شریک ہوتے۔
آپ کے جنازے میں موجود جم غفیر عند الناس ان کی مقبولیت کی دلیل تھی، جو ان شاء اللہ عند اللہ بھی ان کی مغفرت اور رفعِ درجات کا سبب بنے گا۔ آپ کا حادثۂ انتقال ان تمام اداروں کے لیے خسارہ ہے، اللہ تعالی ان کی بال بال مغفرت فرمائے، سیئات کو حسنات میں مبدل فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
تحریر کردہ: ۔
بتاریخ : ۹/ شعبان المعظم ۱۴۴۲ ہجری ۔ مطابق: ۲۲/مارچ ۲۰۲۱ عیسوی
جواب دیں