حافظؔ کرناٹکی دین اسلام انصاف، ایثار اور قربانیوں کا مذہب ہے۔ یہ ایسا سچا اور فطری مذہب ہے جسے دنیا کے لوگوں نے بغیر کسی دباؤ کہ محض اس کی سچائیوں کی وجہ سے اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ محض چودہ صدیوں میں اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد دنیا کے بیشتر قدیم سے قدیم ترین مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ ہے۔ اور آج بھی اس کو قبول کرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسلام کی ابتدا اور حضورﷺ کی پیدائش سے لے کر آج تک اس کی تاریخ پر نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ اس دین حق کو مٹانے کے لیے ہر دور میں سازشیں کی گئیں۔ حضورﷺ نے جب دین اسلام کی تبلیغ شروع کی تو مکہ میں ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے اور حضورﷺ اور ان کے خاندان والوں کو شعب ابی طالب میں نظربند کردیا گیا۔ ایمان کے متوالوں نے بھوک، پیاس سے لے کر اپنی جانوں تک کی قربانیاں دیں۔ مکہ میں جن لوگوں نے بھی ایمان کی دولت پائی اور ایک خدا پر ایمان کا اعلان کیا انہیں طرح طرح سے ستایا گیا۔ کسی کو گرم ریت پر لٹایاگیا، کسی پر کوڑے برسائے گئے، کسی کے سینے پر بھاری پتھر رکھاگیا۔ کسی کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا گیا۔ کسی کو دھوئیں کی دھونکنی دی گئی۔ خود حضورﷺ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے۔ اس سے بھی کافروں کی تسلی نہیں ہوئی تو مسلمانوں کو اور اللہ کے رسول ﷺ کو اس قدر پریشان کیا اورمکہ کی زمین ان پر اس قدر تنگ کردی گئی کہ انہیں مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑا۔ ہجرت کے لفظ ہی سے آپ یقینا جان جاتے ہیں کہ یہ اللہ کی راہ میں کتنی بڑی قربانی تھی، کیوں کہ حضورﷺ کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنا گھر، خاندان ، بیوی، بچے، ماں باپ، بھائی بہن، دوست واحباب سب کو اللہ کی راہ میںچھوڑنا پڑا۔ ان گلیوں کو چھوڑنا پڑا جن سے ان کے بچپن، لڑکپن اورجوانی کی یادیںوا بستہ تھیں۔ ان گھروں کو چھوڑنا پڑا جس کی تعمیر میں انہوں نے ایک ایک تنکا جوڑا تھا۔ اور کافروں نے اسی پر بس نہیں کیا، مسلمانوں کے مکہ ہجرت کرتے ہی ان کے گھر، زمین، جائداد اور گھر کے سارے اثاثے پر قبضہ کرلیا۔ یہ اسلام کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی صرف ایک جھلک ہے۔ کیوں کہ قربانیوں کا یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ اگر غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ دین اسلام مسلسل قربانیوں کا دین ہے۔ ہابیل اور قابیل نے اللہ کے قربانی پیش کی ہابیل کی قربانی قبول ہوئی اور قابیل کی رد ہوگئی۔ اس نے اپنے بھائی ہابیل کو کہا کہ میں تمہیں ضرور قتل کردوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ میں اپنی جان قربان کردوں گا مگر میں فساد پھیلانے والوں میں نہیں شامل ہوں گا۔ اور ہابیل نے اپنی جان قربان کردی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں کود کر اپنی جان اللہ پر قربان کردی مگر اللہ نے ان کی حفاظت کی اور وہ آگ میں محفوظ رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب ان کی قوم نے قتل کرنے کاارادہ کیا تو وہ اللہ کے لیے اپنی جان قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے مگر اللہ نے انہیں آسمان پر اٹھالیا۔ ان کے علاوہ بھی کئی پیغمبروںؑ اور رسولوںؑ نے بے شمار قربانیاں پیش کیں اور دین اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا۔ جب اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی قربانی دینے کا حکم دیا تو وہ فوراً تیار ہوگئے اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی اپنی جان قربان کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کی۔ اللہ نے حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کو پسند فرمایا اور اسے مسلمانوں کی سنت میں داخل کرکے قیامت تک کے لیے محفوظ فرمادیا۔ قربانی کا یہ سلسلہ دین اسلام کا خاصہ بن گیا۔ حضورﷺ نے اپنی پوری زندگی میں خود کو دکھ دینے والے کسی کافر اور مشرک سے بدلہ نہیں لیا اور ہرطرح کی قربانیاں دے کر دین اسلام کی سربلندی کے لیے کام کیا۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے ہر قدم پر دین اسلام کے لیے قربانیاں پیش کیں۔ یہی وہ وراثت تھی جسے عظیم ترین قربانی میں تبدیل کرکے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اسلام کی سرخ روئی و سربلندی کی راہ ہموار کردی۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خلیفہ ماننے کے بجائے اپنی خلافت پر زور دینا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے درمیان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جو انتشار کی صورت پیدا ہوئی تھی وہ بڑھتی چلی گئی اور مسلمان دو حصّوں میں تقسیم ہوگئے۔ حضورﷺ نے حضرت حسینؓ کی شہادت کی پیشن گوئی بہت پہلے کردی تھی اور حضرت یاسر بن عمارؓ کی شہادت کے حوالے سے فرما دیا تھا کہ عمارؓ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ عمارؓ انہیں جنت کی طرف بلائیں گے، مگر لوگ انہیں قتل کردیں گے اور ہم جانتے ہیں کہ جب حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں جنگ شروع ہوئی تو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ حضرت علیؓ کی طرف سے لڑے اور حضرت معاویہ ؓ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ یہ وہ صورت حال تھی جس نے مسلمانوں کے اندر انتشار کی صورت حال کو اور بھی بڑھادیا۔ جب حضرت علیؓ شہید ہوگئے تو لوگوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت کرکے انہیں اپنا خلیفہ چن لیا۔ مگر حضرت امیر معاویہؓ کی حکومت مضبوط ہوچکی تھی۔ اور حضورﷺ نے بہت پہلے پیشن گوئی فرمادی تھی کہ ہمارا بیٹا حسن مسلمانوں میں صلح کرانے کا ذریعہ بنے گا۔ لہٰذا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ ؓ سے صلح کرلی تا کہ مسلمانوں کا خون نہ بہے۔ حضرت حسن ؓ کی بھی یہ بہت بڑی قربانی تھی کہ انہوں نے دین اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لیے اپنی خلافت قربان کردی۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کی صلح کی شرائط میں ایک اہم شرط یہ بھی تھی کہ امیر معاویہؓ اپنے بعد خلافت اپنے کسی عزیز کے سپرد نہیں کریں گے بلکہ مسلمانوں پر چھوڑ دیں گے کہ وہ اپنے مشوروں سے جنہیں چاہیں خلیفہ منتخب کرلیں مگر ایسا نہیں ہوا۔ حضرت امیر معاویہؓ نے اپنی زندگی میں ہی یزید کے لیے بیعت لینی شروع کردی۔ اس طرح صلح منسوخ ہوگئی۔ اب اس کا کوئی جواز نہیں رہ گیا اوپر سے ستم بالائے ستم یہ کہ کوفیوں پر باالخصوص اہل بیت سے محبت رکھنے والوں پر ظلم و زیادتی کی انتہا ہوگئی۔ جن لوگوں کے بارے میں ذرا بھی بھنک معلوم ہو جاتی تھی کہ یہ اللہ کے رسول محمدﷺ کے خاندان والوں سے محبت رکھتا ہے اور علی ؓو حسن ؓاور حسین ؓکا طرفدار ہے اسے طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں۔ حضرت امیر معاویہؓ کے بعدجب یزید نے خلافت سنبھالی تو صلح یکسر ختم ہوگئی۔ لوگ یزید کی زیادتیوں سے تنگ آگئے۔ وہ زور و شور سے حضرت حسین ؓ کو مدد کے لیے پکارنے لگے، یزید اور اس کے سپہ سالاروں اور وزیروں کو بھی اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ کوفہ والے امام حسینؓ کے طرفدار ہیں۔ اور بہت ممکن ہے کہ حضرت امام حسین ؓ اگر خلافت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو سب کے سب لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور یزید کی حکومت پل بھر میں مٹ جائے۔ لہٰذا ابن زیاد جو یزید کا مشیر کار اور سپہ سالار تھا وہ بہت بڑے منصوبے کے ساتھ کوفہ میں رات میں اس طرح داخل ہوا کہ کوفہ والوں کو لگا حضرت حسینؓ تشریف لائے ہیں۔ ابن زیاد نے اپنی وضع قطع اور پوشش ایسی بنارکھی تھی کہ لوگوں کو ان پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ وہ رات میں کوفہ شہر میں داخل ہوا، لوگوں کو جب پتہ چلا کہ حضرت حسین ؓ تشریف لائے ہیں تو لوگ بے تحاشا اپنے گھروں سے نکل آئے۔ اور ان کے ہمراہ ہوگئے۔ وہ جس گلی سے گذرتا، جس شاہ راہ سے گذرتا لوگ جوش محبت و عقیدت میں اس کے پیچھے ہولیتے۔ ابن زیاد اسی طرح شہر کی ہر گلی اور محلے سے گذرتا ہوا آخر کار ایک قلعے میں داخل ہوا لوگوں کا ہجوم جو دین اسلام اور نواسہ رسولﷺ پر پروانہ وار قربان ہونے کو تیار تھا وہ بھی قلعہ میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد ابن زیاد نے قلعہ کا دروازہ بند کروادیا اور خود کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردیا اور پھر اللہ کے رسولﷺ کے خاندان والوں سے محبت کی ان لوگوں کو ایسی سزادی کہ لوگوں کی روح کانپ گئی۔ جنہیں شہید ہونا تھا شہید ہوگئے جو بچ گئے ان میں سے تقریباً سبھوں کو دردناک سزادی گئی۔ کسی کے ہاتھ کاٹ لیے گئے تو کسی کے پاؤں۔ اس واقعے سے کوفیوں کے دلوں میں ایسا ڈر بیٹھ گیا کہ جب حضرت حسین ؓ اہل بیت کے ساتھ کربلا کے میدان میں گھر کے رہ گئے تو کوئی ان کی مدد کو نہیں نکلا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو جب یہ لگا کہ واقعی یزید کا ظلم مسلمانوں کی برداشت سے باہر ہے اور یہ کہ یزید ایک تھوپا ہوا بادشاہ ہے جسے عوام الناس نے نہیں چنا ہے بلکہ اس کے والد نے طاقت کے زور پر مسلمانوں کے سرپر مسلط کردیا ہے تو انہیں لگا کہ اب اس حالت میںجبکہ اسلامی نظام حکومت اور مسلمانوں پر ایک ساتھ بے انتہا ظلم ہو رہا ہے ان کا خاموش رہنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوگا۔ لہٰذا وہ کو فہ کے ارادے سے مدینہ سے نکلنے کے لیے تیار ہوئے۔ مدینہ والوں کو جب حضرت حسینؓ کے کوفہ کی طرف کوچ کی خبر ملی تو سارے مدینہ کے لوگ بے قرار ہو گئے لوگ جوق در جوق ان کے پاس آئے اورانہیں اس سفر سے باز رہنے کی درخواست کی۔ وہ لوگ برملا اور برجستہ کہتے کہ کوفیوں کی وفاداری ہمیشہ مشکوک رہی ہے، ان پر بھروسہ کرکے سفر کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوگا۔ مگر حضرت امام حسینؓ کوتو حق کی سربلندی عزیز تھی۔ اپنے نانا جان کے دین کی پاسداری مقصود تھی۔ اہل بیت کا دین حق کے لیے قربان ہوجانے کے جذبے کی تصدیق ضروری تھی اس لیے وہ مدینہ سے نکلے اور مکہ معظمہ پہونچے۔ مکہ میں بھی ان کے بہی خواہوں، دوستوں، رشتے داروں نے انہیں روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ آنیوالے ہر خطرے کا احساس دلایا۔ مگر اللہ کا یہ شیر دنیا کے خطروں کو کب خاطر میں لانے والا تھا۔ اس کے لیے یہ کب ممکن تھا کہ وہ اپنی جان کے بدلے دین اسلام کا سودا کرے۔ اس کی غیرت بھلا یہ کیوں کر قبول کرسکتی تھی کہ اس کی موجودگی میں ایک ظالم حکومت قائم رہے اور اللہ کے نیک بندوں کا جینا حرام کردے۔ دین حق کی شبیہہ کو مسخ کرنے کی کوشش کرے اور وہ اپنی جانوں کی حفاظت کی فکر کرے۔ انہیں توثابت کرنا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کے لیے جو قربانیاں دی تھیں، جو دکھ اٹھائے تھے وہ اتفاقی یا حادثاتی نہیں خدائے واحد کی آزمائش تھی اور وہ اس پر ثابت قدم رہے تھے۔ پھر ان لوگوں کی قربانیوں کو ایک بڑی قربانی، عظیم الشان جاں نثاری، میں بدل دینا تو عین ایمان کی دلیل ہے۔ لہٰذا حضرت امام حسینؓ اپنے اہل خاندان کے ساتھ کوفہ کے لیے نکل پڑے۔ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب یزید کو معلوم ہوا کہ حضرت امام حسینؓ کوفہ کے لیے کوچ کرچکے ہیں تو اس نے فوج کا ایک دستہ روانہ کردیاتا کہ حضرت حسین ؓ کو کوفہ پہونچنے سے روک دیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی آمد سے کوفہ میں بغاوت پھیل جائے۔ یزید کا یہ فوجی دستہ صحرا میں بھٹک گیا۔ اور بھوک اور پیاس سے نڈ ھال ہوگیا۔ اس دستہ کو یقین ہوگیا کہ وہ اسی طرح بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر صحرا میں مرجائے گا اس لیے وہ نہایت مایوسی کے عالم میں موت کا انتظار کرنے لگا کہ اس طرف سے حضرت امام حسینؓ کے قافلے کا گذر ہوا۔ اس دستے کی یہ حالت دیکھی تو اپنا سارا کھانا پانی ان لوگوں کے حوالے کردیا اور ان کی جان بچالی لیکن جب حضرت حسینؓ کا قافلہ کربلا میں دشمنوں کے نرغے میں آگیا تو ان پر پانی کی ایک بوند بھی نہیں پہونچنے دی۔ اہل بیت کو چلچلاتی دھوپ، دہکتی صحراکی گرمی میں تین دنوں تک بھوکا اور پیاسا رکھا اور پھر ایک ایک کرکے اہل بیت کے افراد و اشخاص کو قتل کرنا شروع کردیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اہل بیت کا ایک ایک فرد اتنا مقدس، اتنا محترم اور ایمان و اعمال صالحہ کے اعتبار سے اتنا معزز تھا کہ اگر ایک پلڑے میں ایک اہل بیت کو اور دوسرے پلڑے میں ساری دنیا کے دینداروں کو رکھا جاتا تو اہل بیت کا پلڑا ہی بھاری پڑتا۔ ایسے معزز لوگوں ایسی مقدس ہستیوں کو ابن زیاد اور شمر نے یزید کی خوشنودی کے لیے نہایت بے دردی سے قتل کردیا۔ اور سارا کوفہ تماشائی بنا رہا۔ کہنے کو تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان آل نبیﷺ کو شہید ہوتے دیکھتے رہے اور نبیﷺ کا گھرانہ قتل ہوتا رہا۔ حضرت امام حسینؓ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یزیدی لشکر سے جنگ کرنے کا انجام کیا ہوگا۔ لیکن انہیں اپنے انجام کی نہیں دین حق کی سربلندی کی فکر تھی۔ انہیں یہ تو گوارہ تھا کہ وہ اور ان کے سارے رشتے دار شہید ہوجائیں مگر انہیں یہ گوارہ نہیں تھا کہ اللہ کا دین ان کے نانا کی تعلیمات کو کوئی نہایت بے باکی سے پامال کرتا رہے اور وہ اپنی جانوں کے ڈرسے خاموشی اختیار کرلیں۔ انہیں ساری دنیا کے مسلمانوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ دین حق کی حفاظت کے لیے، عدل و انصاف کے لیے غیر مصدقہ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے حرمت ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے، اللہ کے نیک اور مظلوم بندوں کے حق کے لیے لڑنا اور جان لٹادینا ایمان کا تقاضہ ہے اور جو لوگ ایمان اور عقیدے کے پکّے ہیں ان کے لیے تو شہادت دراصل معراج زندگی ہے۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہل خاندان نے اپنی جانیں قربان کرکے آنیوالی نسلوں کو دین حق پر مرمٹنے کا جذبہ بخشا ہے تو یہ عین سچائی ہوگی۔ یہ حضرت حسین ؓ اور اہل بیت کی اتنی بڑی اور عظیم قربانی تھی جس نے ایمان والوں کی رگوں میں اللہ اور اس کے رسول کے لیے قربان ہوجانے کے جذبے کی بجلی بھردی۔ اور دنیا کے سارے مسلمانوں کو ایسی غیرت ایمانی کی دولت فراہم کردی جس پر تاقیامت مسلمان فخر کرتے رہیں گے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یزید نے جس حکومت کے لیے اہل بیت کی شہادت کا خون اپنے سرلیا وہ اس حکومت کے مزے زیادہ عرصے تک نہیں لوٹ سکا اور محض انتالیس سال کی عمر میں موت کا خوراک بن گیا۔ اس کے بعد اس کے جواں سال بیٹے کو تخت حکومت پر بٹھایاگیا اس وقت اس کی عمر محض اٹھارہ انیس سال کی تھی۔ اور حکومت تین بر اعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس تین براعظموں پر پھیلی دنیا کی سب سے بڑی حکومت کے تخت پر بیٹھے ابھی اسے دو تین ہفتے ہی ہوئے تھے کہ اس نے ایک دن اپنے تمام خاندان والوں کو اور اپنی حکومت کے سارے بڑے عہدداروں کو بلایا اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر سبھوں کو ذلیل کیا اور کہا کہ تم سب کے سب ذلیل اور کمینے لوگ ہو۔ تم لوگوں نے آل رسولﷺ کو قتل کرنے کا گناہ کیا ہے۔ اس بڑی حکومت کا تخت حضرت امام حسینؓ کی شہادت اور اہل بیت کے خون کی بنیاد پر قائم ہے۔ میں ایسی ظالم اور جابر حکومت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ میرا باپ جتنا ذلیل اور کمینہ تھا تم لوگ بھی اتنے ہی ذلیل اور کمینے ہو۔ میں تمہاری اس عظیم حکومت پر تھوکتا ہوں۔نہیں چاہیے مجھے ایسی حکومت جو آل رسولﷺ کے خون سے رنگی ہو۔ ایک ذرا توجہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی ایک طرح کی قربانی ہے کہ اہل بیت کی محبت میں دین حق کی غیرت سے سرشار ہو کر ایک بیٹے نے اپنے باپ کے گناہوں کو اجاگر کردیا اور ملنے والی تین براعظموں پر پھیلی حکومت سے منہ موڑ لیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ قربانیاں دیتا ہے۔اللہ کے نیک بندے اپنے رب کی خوشنودی کے لیے ہر وقت قربانیاں پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اگر کوئی دین کا دشمن اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والوں کو ستانے کے لیے اٹھتا ہے اور ظلم کی انتہاکردیتا ہے تو بعد میں اسی کی نسل میں اللہ ایسے لوگوں کو بھی پیدا فرمادیتا ہے جو دین حق کے لیے سب کچھ قربان کرکے ان دنیاداروں کی آنکھیں کھول دیتا ہے جو اپنے بچوں کے لیے یا اپنے خاندان، اور آنیوالی نسلوں کے لیے غلط طریقے سے دولت اور حکومت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںمگر اللہ جن لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے انہیں کبھی حق کی اور انصاف و عدل کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ سچ کہا ہے کہ’’ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘کربلا کے بعد اور شہادت عظمیٰ یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد دین اسلام میںایک نئی تازگی پیدا ہو گئی۔ مسلمانوں کے سینے میں اسلام سے محبت کی آگ نئے سرے سے جل اٹھی۔ اور ایک بار پھر اسلام کا پرچم نئی آن بان اور شان کے ساتھ ساری دنیا میں لہرانے لگا۔ محرم کا یہ مہینہ حضرت حسینؓ اور اہل بیت کے لیے ماتم کامہینہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کی قربانیوں، جاں نثاریوں اور حق و انصاف کے لیے جانیں قربان کردینے کے جذبوں کو سمجھنے کا اور ان پر عمل کرنے کے عہد کی تجدید کا مہینہ ہے۔ ہمیں یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ شہادت حسینؓ کی عظمت اور ان کے مقاصد سے آگاہ کرتا ہے تو اسلامی سال کا آخری مہینہ ذی الحجہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی ایثار، فرماں برداری اور خدا کے لیے خود سپردگی کا احساس دلاتا ہے۔ گویا پورا سلامی سال از اوّل تاآخر اسلام کے لیے، خلق خدا کی بھلائی کے لیے، دین حق کی سربلندی کے لیے جانیں قربان کردینے کا درس دیتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں دراصل وہی زندگی اور آخرت میں سرخ روئی حاصل کرتے ہیں۔ ہم سبھوں کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں۔ ان کے بتائے راستے پر چلیں، اور اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تا کہ ہم انتشار کا شکار نہ ہوں۔
مضمون نگار کی رائے سےادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں