(پیدائش : ۔ ۲/ مارچ ۱۹۴۵ عیسوی ۔ ۱۷ / ربيع الأول ۱۳۶۴ ہجری (
) یومِ وفات: ۔جمعرات ۔ بعد نماز مغرب ۔ یکم شوال المکرم ۱۴۴۲ ہجری ۔ ۱۳/ مئی ۲۰۲۱ عیسوی )
اک شخص پورے شہر کو ویران کر گیا:۔
جس کے وجود سے قوم فائدہ اٹھا رہی تھی، جس کی زندگی قوم ووطن کے لیے وقف تھی، وہ اسی دن کے سورج غروب ہوتے ہوتے خود بھی دنیا سے رو پوش ہو گیا جس روز پوری قوم نے عید الفطر کی خوشیاں منا رہی تھی، مبارک بادیوں کے پیغامات بھیج رہی تھی اور لوگ باہم ایک دوسرے کودعاؤں کی سوغات دے رہے تھے۔ وہ رمضان کے شروع کے دو عشروں میں عبادات میں مشغول رہے، تیسرے عشرے سے بیماری کا آغاز ہوا، جو بڑھتے بڑھتے مرض الموت میں تبدیل ہو گئی اور خدمتِ خلق میں دن رات گزارنے والے، اللہ کے اس بندےنے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ إنا لله وإنا إليه راجعون ۔
ایک شخص ایک تعارف :۔
اس با وقار وپرکشش شخصیت کا نام محمد میراں صدیق تھا، جواپنی برادری میں "ہندا میراں بھاؤ " کے نام سے مشہور تھے، وہ ریاستِ کرناٹک کے جنوب میں ساحلِ سمندر پر واقع شہرِ بھٹکل میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق ایک مشہور اور معزز خاندانوادے " صدیق " سے تھا، والدِ ماجدمرحوم جناب ابو الحسن وڑاپا صاحب کا شمار شہر کے مشہور تاجروں میں ہوتا تھا ۔ جب کہ آپ کے ناناجان جناب اسماعیل حسن صدیق علیہ الرحمۃ (آئی ایس صدیق) قوم کے مخلص رہبر اور خادمِ علم تھے۔
ان کی تعلیمی زندگی کا آغازگاؤں کے ماحول کے مطابق دینی بنیادی تعلیم سے ہوا، پھر پرائمری بورڈ اسکول میں داخلہ لیا،چوں کہ آپ کے والدِ ماجدکی تجارت "کلکتہ " میں تھی، اس لیے بھٹکل سے تعلیم منقطع کر کے بقیہ دسویں جماعت تک کی تعلیم کلکتہ سے مکمل کی۔ جو اس وقت کے اعتبار سے اک اعلی ڈگری شمار کی جاتی تھی ۔
مرحوم کاجسم تندرست وتوانا،چہرہ ہنستا مسکراتا اورمزاج ظریفانہ تھا،انھیں خوش عقیدگی وراثت میں ملی تھی، بڑوں کا احترام کرنا خاندانی ورثہ تھا، ان کی شخصیت میں تواضع وانکساری، طبیعت میں حلم و بردباری، زبان میں شیرینی اور خدمت میں اخلاص و بے لوثی جیسے اوصاف نمایاں تھے۔ ان میں صبر تھااور شکر بھی، وہ علم دوست تھےاور علماء کے شیدائی بھی، وہ ملی اور قومی ومعاشرتی کاموں میں رمزشناس تھے، ان کا دماغ گویا غور وفکر کا خزینہ اور اصلاحی کوششوں کا نمونہ تھا۔
آپ کو ربِّ ذو الجلال نے جہاں خدا داد صلاحیتوں سے نوازا تھا وہیں لیاقت اور سلیقہ مندی کے ہنر سے بھی سے سرفراز فرمایا تھا، آپ نہ صرف اپنے گرد وپیش اور خاندان کے بچوں کے لیے فکرمند رہتے،بلکہ پوری برادری کے طلبہ کے لیے دردمندی رکھتے ، میدانِ عمل میں اتر کر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے، طلبہ کو اعلی ڈگریوں کے حصول کی ترغیب دیتے، نئے نئے میدانوں میں اتر کر تعلیمی ترقی کرنے کی صلاح دیتے ۔ تعلیمی ترقی کے لیے انھیں راہنما اصول بتاتے ، مفید مشوروں سے نوازتے اور زمانہ کے بدلتے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح میدانِ تعلیم کی طرف راہنمائی فرماتے تھے۔
مقبولیت اور محبوبیت:۔
مرحوم محمد میراں علیہ الرحمۃ صاحبِ رائے تھے بلکہ بڑی حد تک صائب الرائ بھی، وہ اپنی بات کہنے اور پیش کرنے کے فن سے واقف تھے، بڑے سے بڑا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے ۔وہ اپنی فطری ذہانت، ہوش مندی ودانش مندی اور فہم وعقلِ سلیم کی مدد سے باتیں اپنے ذہن ودماغ سے نکالتے۔ ان کا اندازِ بیان دلوں پر اثر کرنے والا ہوتا تھا۔ جب کسی کو سمجھانا ہوتا توپہلے پورے اطمئنان کے ساتھ ان کی بات سنتے، انھیں اپنی بات کہنے کا پورا موقعہ دیتے، اسی دوران مخاطب کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کرتے، ان کے عقل وفہم کی سطح کا اندازہ لگاتے، بلکہ ان کے تحمل وبرداشت تک کو بھانپ کر اپنی بات بڑی دھیمی آواز میں شروع کرتے، پھراصل موضوع پر آنے سے پہلے تمہیدی گفتگو فرماتے ، اس کے بعدبر سرِ مطلب آتے اور اپنے حسنِ استدلال سے بات کو اپنے مخاطب کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرتے۔ موضوع چاہے جتنا بھی حساس اور نازک ہو، مگر آپ جذبات میں بہتے نہ انفعالی کیفیت کا ثبوت دیتے۔ بلکہ پوری متانت و سنجیدگی، حکمت ودانائی اور صبر وبردباری سےاپنی بات رکھتے۔
مرحوم مخالفین میں بھی اپنی بات رکھنے کا ہنر جانتے تھے، سب کو ساتھ رکھنے اور سب کے ساتھ چلنے کے فن سے واقف تھے،بات سمجھ میں نہ آنے پر فکری یا جزئی اختلاف ضرور کرتے مگر اس اختلاف کو شخصی مخالفت میں تبدیل نہیں ہونے دیتے، اختلاف کرتے مگر اس کو بنیاد بنا کر کسی کے مخالف نہیں ہوتے ۔ ان کا یہ ایسا وصف تھا جو ان کی شخصیت کی پہچان بن گیا تھا، اجتماعی اور معاشرتی میدانوں میں کام کرنے والے احباب اور ان کے معاصرین اس پر متفق ہیں کہ مرحوم میراں صاحب اس میں اپنی مثال آپ تھے۔ بے شک یہ ایسا ملکہ تھا جو اللہ کسی کسی کو نصیب فرماتے ہیں، جس وصف سے وہ بہرہ مند تھے، جس نے آپ کی مقبولیت اور محبوبیت میں بے حد اضافہ کیا اور ان کو اپنے ہم عصروں کے ساتھ مل جل کر کام کرنے میں کامیاب بنایا۔
اسی بنیادی وصف کی طرف اشارہ کرتے ، بلکہ اس پر تاریخی تبصرہ کرتے ہوئے مکرمی مولانا عبد المتین صاحب منیری لکھتے ہیں:" یہ آپ کا طرۂ امتیاز تھا کہ کبھی انہوں نے اختلاف کو مخالفت کا ذریعہ نہیں بنایا، ہم شہادت دے سکتے ہیں کہ قوم کے اداروں کی مجلس انتظامیہ اور اس کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف سہی اور ان کی ناکامیوں اور نااہلی کی دسیوں شکایتیں سہی، لیکن انہوں نے کبھی بھی ان اداروں کے خلاف عوام کی رائے کو جذباتی بننے نہیں دیا، اس بات کی ہدایت وہ ہمیں بھی وقتا فوقتا دیا کرتے تھےاور کبھی اس قسم کی جذباتی باتوں کا موقع آتا تو زبان روکنے کا مشورہ دیتے تھے۔"
باعث فخر تھے اور رشکِ نوائط بھی تھے :۔
ان کی رحلت سے ایک فرد یا ایک خانوادہ ہی نہیں بلکہ پوری قوم مغموم ورنجور ہے، وہ قوم کا عظیم سرمایہ تھے۔ان کے تعلقات کادائرہ کسی نہ کسی حیثیت سے تمام مرکزی و عمومی اداروں سےتھا،ان کی وابستگی اکثر تعلیمی دانشگاہوں سے رہی،کئی رفاہی کاموں میں پیش پیش رہے، ملی اور سماجی کاموں میں جی جان سے حصہ لیا،گویا ان کی ذات سے بلا تفریق ہر خاص وعام نے کسب فیض کیا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت سےشہرِ بھٹکل کی فضا معطر ومشکبار تھی، سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی ذات سے ایک نہیں بلکہ کئی ایک ادارے مستفیض ہو رہے تھے۔
ایک طرف وہ مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل کےرکنِ رکین اوراس کے منصبِ صدارت پر فائز تھے تودوسری طرف جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے رکنِ عاملہ اور ٹرسٹی بھی۔ وہ جہاں قوم کے متحدہ ادارے مجلسِ اصلاح وتنظیم کے متحرک رکنِ انتظامیہ اور اس کی کئی ذیلی کمیٹیوں کے فعال ممبر رہے، وہیں وہ شہر کے سب سے قدیم عصری تعلیمی ادارے "انجمن حامی مسلمین " کے سرگرم رکنِ انتظامیہ اور سرپرست بھی۔ اسی کے ساتھ شہر میں موجود چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں، ثقافتی سوسائٹیوں اور دعوتی تحریکوں سے بھی کسی نہ کسی درجے میں ان کے روابط پائے جاتےتھے۔ جس میں بالخصوص ویلفیئرسوسائیٹی، رابطہ سوسائیٹی، مولانا ابو الحسن ندوی اسلامک اکیڈمی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
ہر انسان کے کچھ پسندیدہ مشاغل اور دلچسپ کام ہوا کرتے ہیں، جنہوں نے مرحومِ موصوف کومیدانِ عمل میں دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مدارس وتعلیمی درس گاہوں اور ملی اداروں کا تعاون کرنا، ان کے خیر سگالی وفود کا ساتھ دینا، گھر گھر ان کے ساتھ جانا، ان کے مالی استحکام کےلیے در در پھرنا، آپ کا پسندیدہ عمل اور محبوب مشغلہ تھا، وہ اس کام میں کسی سے تکلف کرتے نہ کوئی شرم وحیااور جھجھک رکاوٹ بنتی ۔ کسی کے پاس جانےمیں ایک بار نہیں دس بار بھی جانا ہوتا تو کوئی عیب محسوس نہیں کرتے۔
اداروں کا مالی تعاون خود بھی كرتے اور دوسروں سے بھی کرواتے،آپ کے ذریعے شہر کے اداروں کو اچھا خاصا تعاون حاصل تھا۔ تعزیتی اجلاس میں ان کے فرزند کے زبانی یہ پتہ چلا کہ اپنا سالانہ چندہ یا عیدی عطیہ مرکزی خلیفہ جماعت ا ور جماعت المسلمین بھٹکل کو برابر دیتے، دونوں کے بیچ تفریق نہیں فرماتےتھے۔ خلیفہ محلے میں واقع جماعت کا کامپلکس آپ ہی کی عطا کردہ زمین پر واقع ہے، جو ثوابِ جاریہ کا بہترین ذریعہ ثابت ہوا۔
خلیج میں آمد ۔
جب آپ کے ایک خاندانی عزیز نے ۱۹۶۸ء میں ابوظبی میں بھٹکل اسٹور کے نام سے دکان شرو ع کی، تو آپ نے یہاں سے ایک ملازم کی حیثیت سے اپنے نئے معاشی سفر کا آغاز کیا، پھر چند سالوں بعد دبی میں غالبا سن ۱۹۷۴ ء میں آپ نے مرحوم قمری بہاء الدین باشا بھاؤ کی شراکت کے ساتھ "صدیق اینڈ باشا" کے نام سے دکان کھولی، جو شراکت تقریبا پچیس سال تک جاری رہی۔
دبئ میں قیام کے دوران بھٹکل مسلم جماعت کے رکنِ انتظامیہ کی حیثیت سے رہے، اس کی مشاورتی نشستوں میں شرکت کرتے رہے،جماعت کی ذیلی کمیٹیوں میں ایک متحرک رکن بن کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،جماعت کے زیرِ اہتمام انجام پانے والی سرگرمیوں میں پیش پیش رہ کر جماعت کی تعمیر وترقی میں عملا شریک رہے۔ جماعت کے کلیدی عہدوں پر نہ رہتے ہوئے بھی انہوں نے تمام عہدیداراوں کے ساتھ یکساں روابط رکھے۔ دامے ، درمے، سخنے، قدمے امداد وتعاون کرتے ہوئے یہاں کےجماعتی نظام کو مستحکم بنانے میں بھر پور حصہ لیا۔ جماعت کے روابط کو شہر کے اداروں سے مربوط ومستحکم کرنے میں اپنا مکمل وقت دیا، اس کے لیے اپنی صلاحتیں نچھاور کیں۔ حتی کہ آپ کی رہائش گاہ بھی سماجی کاموں کا ایک مرکز بن گئی تھی، جہاں پر وطن ِ عزیز سے آنے والے مہمانوں اور ادرے کے ذمے داروں کی مہمان نوازی ایک عرصے تک کی گئی۔
بھٹکل مسلم خلیج کونسل کے قیام میں روزِا ول سے شریک رہے، اس کی افادیت کو دوچند کرنے کے لیے بیرونی جماعتوں کا تعاون حاصل کیا، بھٹکل میں موجود رابطے کے مرکزی آفس سے مربوط رہے، وطن میں رہ کر اس کی تعمیر و ترقی کے لئے سرگرداں رہے، یہاں کے سرکاری کاموں کی تکمیل میں اپنے تجربات سے فائدہ اٹھایا،اورزندگی کے آخری لمحات تک رابطہ آفس میں پابندی سے آتے جاتے رہے۔
قومی اور سماجی خدمات :۔
آپ جہاں کہیں رہے، اپنی توجہات کا محور وطنِ عزیزز ہی کو رکھا اور اپنے اندرون وبیرونِ ہند کے قیام کو مفید سے مفید تر بناتے ہوئے شہر کے کئی ایک تعلیمی اور سماجی اداروں سے وابستہ رہے، بالخصوص خلیفہ جماعت المسلمین اور قومی متحدہ ادارہ مجلسِ اصلاح وتنظیم سے ربطِ خاص رہا۔ انجمن حامی مسلمین اور جامعہ اسلامیہ سے یکساں روابط رہے۔ جماعتی زندگی سے مربوط رہ کر ان اداروں کی تعمیر وترقی میں حصہ لیا اور اپنی ناقابلِ فراموش خدمات کے نقوش چھوڑے۔اسی طرح شہر کی مساجد اور وغیرہ کے سلسلہ میں بھی فکر مند رہے۔
اس ضمن میں اس کا تذکرہ بھی بر محل ہوگا کہ مرحوم کبھی عہدوں کی تلاش میں نہیں رہے نہ اس کے لیے اپنے کو حق دار سمجھا، بلکہ عہدوں پر نہ رہتے ہوئےبھی عہدیداروں کے شانہ بہ شانہ رہے، ان کی ہر پکار پر لبیک کہتے، انھیں اپنا تعاون پیش کرتے۔ البتہ جب باصرار کسی عہدے یا کنوینرشب کے لیے آپ کا انتخاب ہوتا تو اسے منجانب اللہ سمجھ کر اس کے حق کو ادا کرنے کی پوری کوشش کرتے۔
نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پرواہ :۔
آپ کی وفات کے بعد آن لائن "زووم" پر منعقدہ تعزیتی جلسوں اور لوگوں کے زبانی جو سننے کا موقع ملا ، جس میں آپ کے بلند اخلاق اور ذاتی صفات کے ساتھ ساتھ جن سماجی، تعلیمی اور قومی خدمات کا کھلے دل سے جس طرح اعتراف کیا گیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں ہی اپنی خدمات کے اعتراف میں کئی ایوارڈکے مستحق ہو رہے تھے۔ کاش آپ کی عمر میں مزید برکت ہوتی اور وہ اس کے حق دار بنتے، مگر اس کے حصول سے قبل ہی وہ ہمیں داغِ مفارقت دیتے ہوئے یہ ثبوت دے گئے کہ اس طرح کے ایوارڈ کی مجھے کوئی ضرورت اور حاجت نہیں ہے ، میں نے یہ سب کام اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے کیے ہیں، مجھے اپنے اخلاص پر ان شاء اللہ اس کا حقیقی اجر وثواب اللہ کےپاس ملے گا، جس جزائے الہی کے آگے ان ظاہری اعزاز واکرام ، مادی تمغوں اورتعریف وستائش کے سپاس ناموں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ گویا غالب کی زبانی یہ گنگناتے ہوئے سفرِ آخرت اختیار کر گئےکہ "نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلہ کی پرواہ"۔
ذاتی روابط اور شہرِ کلکتہ میں چند ایام :۔
آپ سے ہمارے روابط کی ابتدا کب سے ہے کہنا مشکل ہے، البتہ بے تکلفانہ تعلقات کی ابتدا متحدہ عرب امارات دبئ آنے کے بعد ہوئی، جب جماعتی زندگی میں شمولیت ہوئی اور وقتا فوقتا ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوا، اس وقت سے آپ سے روابط بڑھتے گئے، ان کی شفقتیں ہم پر رہی، ہمت افزائی کے کلمات سے نوازنے رہے، ان کی باتوں سے آگے بڑھنے کے حوصلے ملے۔
جب راقم الحروف کو اپنے ادارے " مركز جمعة الماجد للثقافة والتراث" کی طرف سے ریاستِ بنگال کےثقافتی دورے پر جانا طے پایا، جس کا آغاز کلکتہ سے ہونا تھا، تب میں نے سب سے پہلےدو شخصیتوں سے رابطہ کیا، ایک جناب محمد ہاشم صاحب محتشم (عرف برنی) اور دوسرے مرحوم محمد میراں صاحب۔ صرف ایک فون کرتے ہی مرحوم نے سب سے پہلے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تک اتنی بار بلانے پر نہیں آئے اب موقعہ اچھا ہے اور اس دن سے لے کر ہمارے کلکتہ پہنچنے تک مستقل رابطے میں رہےاور ماہِ جنوری، سن ۲۰۱۸جب ہم اپنے رفیقِ سفر ڈاکٹر عز الدین بن زغیبہ کے ساتھ پہنچے۔ تو ہوٹل کی بوکنگ سے لے کر گاڑی کی ترتیب تک کے تمام سفری مسائل کو حل کرنے میں مکمل تعاون کیا ۔ دورانِ سفر وہ اور جناب محتشم محمد ہاشم صاحب وقتا فوقتا رابطے میں رہے اور اپنے متعلقین کو بھی ہمارےبارے میں فکر مند رکھ کر وہاں قیام کے دوران کسی اجنبیت کا احساس ہونے نہیں دیا۔ اللہ تعالی ان سب کو اپنی خدمات کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
نیک صحبت اور علماء سے عقیدت :۔
انسانی زندگی میں صحبت کے اثر ات سے کسی کو انکار نہیں ہے، یعنی اچھوں کی صحبت سے انسان اچھا بنتا ہے اور بروں کی صحبت سے برا۔ بلا شبہ علماء و اہل تقوی اور صلحاء کی مجالس میں بیٹھنے سے دینی ذہن بنتا ہے اور روح کو بالیدگی وتازگی ملتی ہے۔ ان کی صحبت سے ان کا علم و تقوی حاصل نہ بھی ہو تب بھی کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ اللہ کی یاد کچھ دیر کے لیے دل میں پیدا ہو تی ہے، دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی تیاری کا احساس پیدا ہوتا ہے، چند لمحوں کے لیے ہی سہی مگر غافل سے غافل دل بھی اس احساس سے محروم نہیں ہو سکتا۔اسی لیے اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کو نیک لوگوں اور سچ بولنے والوں کی صحبت میں رہنے کا حکم دیا ہے "اے ! ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو" ۔ حدیثِ پاک میں بھی جس کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ خوشبو کی دکان میں بیٹھنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا،اگر وہ خوشبو نہ بھی خریدے تب بھی اسے خوشبو کی مہک ضرور آئے گی۔ ہمارے استاذ مکرم اورشہر کے قابلِ فخر شاعر مرحوم ڈاکٹر محمد حسین فطرت صاحب کی زبانی اسی کی ترجمانی اس شعر کے ساتھ بارہا سننے کا موقع ملا۔
بیٹھنے دیجیئے مے خوار کو واعظ کے قریب
صحبتوں سے بھی خیالات بدل جاتے ہیں
اسی لیے راقم الحروف کا یہ شدید احساس ہے کہ مرحوم میراں صاحب کی مقبولیت اور محبوبیت کے منجملہ اسباب میں سے ایک اہم اور بنیادی سبب دین اور اہلِ دین سے نسبت اور ان سے تعلق ہی تھا۔
خلیفہ محلے میں آپ کی رہائش علماء کے پڑوس میں تھی، بالخصوص مولاناقاضی محمد اسماعیل اکرمی،مولاناقاضی محمد شبیر اکرمی ،قاضی محمد حامد اکرمی اورمولانا علی سکری اکرمی وغیرہ سے اچھے روابط تھے ، بچپن ہی سے آپ میں علماء اور اہلِ دین اور اولیاء اللہ سے محبت اورعقیدت رہی۔ اسی طرح آپ کے روابط شہر کے علماء اور فضلاء سے بہت پختہ تھے ۔جامعہ اسلامیہ کے اولین فارغین سابق قاضی جماعت المسلمین مولانا محمد اقبال صاحب ملا، مولانا محمد غزالی رحمہ اللہ ، مولانا محمد صادق صاحب دامت برکاتہم، سابق مہتممِ جامعہ اسلامیہ مولانا عبد الباری رحمہ اللہ وغیرہ سےبڑے اچھے روابط تھے، اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ جی ہاں بلا شبہ انھیں علماء سے عقیدت تھی، وہ انھیں محبت کی نگاہوں سے دیکھتے، ان کی مجلسوں میں بیٹھنے کا اہتمام فرماتے، کسی رائے سے اختلاف کو بھی ادب کے دائرے میں رہ بیان کرتے تھے۔
بالخصوص بانی جامعہ اسلامیہ بھٹکل جناب ڈاکٹر علی ملپا رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ راز تھے، بہت سے معاملات میں آپ ان پر اعتماد کرتے اور انہیں دل وجان سے چاہتے تھے،اسی لیےسابق ناظمِ جامعہ اسلامیہ مرحوم ملاحسن صاحب رحمہ اللہ کے انتقال کےبعد جب ایک ٹرسٹی کی جگہ خالی ہوئی تو آپ ہی کی صدارت میں بحیثیتِ ٹرسٹی ان کی تعیین عمل میں آئی تھی۔
ابنائے جامعہ اسلامیہ بھٹکل جہاں جہاں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی خدمات کو سراہنا، ان کی ہمت افزائی کرنا اور انھیں مزید آگے بڑھ کر کام کرنے کا صلاح ومشورہ دینا ان کا معمول تھا، اس ضمن میں کئی ایک ایسے واقعات بھی پیشِ نظر ہیں جسے آنے والے قلم کار یا مضمون نگار اپنے مقالے کا موضوع بنا سکتا ہے۔
ذکرِ اولاد اور کاروباری تسلسل ۔
بچے اللہ کی رحمت اور اس کی عظیم ترین نعمت ہیں، انسان کا اصل سرمایہ اس کی اولاد ہوتے ہیں، انہی سے نسلوں کی افزایش ہوتی ہے۔ بچے چھوٹے ہوں یا بڑے، در اصل وہی اپنے ماں باپ کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اچھی اولاد اپنے والدین کی نیک نامی سبب بنتے ہیں،اسی لیے والدین اپنے بچوں ہی کی خاطر دن رات محنت کرتا ہے، بچوں کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں تک کہ انھیں اپنے سے کئی گنا بلند مقام پر ان کو نہ صرف دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کے لئے کوششیں بھی کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔
مرحوم میراں صاحب کو بھی اللہ تعالی نے اس نعمت سے بہرِ مند فرمایا تھا۔ آپ کی کل اولاد بارہ تھی، جن میں سے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کا انتقال بچپن ہی میں ہوا تھا۔ باقی ماشاء اللہ چھ بیٹے اور دو بیٹیاں بقید حیات ہیں۔ آپ کی زندگی کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ آپ کے والد سے جو کاروبار کلکتے میں ۱۹۴۳ عیسوی سے چلا آ رہا تھا، آپ نے اس کو جاری رکھا، بلکہ اس میں مزید ترقی کرتے ہوئے سن ۲۰۰۵ سے کرتوں اور پاجاموں کا الگ سے کاروبار شروع کیا۔ جسے ترقی دے کر اس کاروبار کو بلگام اور بھٹکل میں بھی منتقل کیا۔ اگرچہ بلگام کا جاری نہیں رکھ چائے مگر الحمد للہ بھٹکل میں کامیابی ملی۔
چند سالوں قبل آپ جب کالیکٹ سے اک آپریشن کر کے واپس بھٹکل پہنچے تو میں آپ کی خدمت میں عیادت کی غرض سے حاضر ہوا۔ کچھ دیر ان کے ساتھ بیٹھا، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہاں کی دکان دیکھی ہے؟، میں نے نفی میں جواب دیا،چوں کہ یہ دکان آپ کے گھر کے احاطے ہی میں واقع تھی ، اس لیے کہنے لگے کہ ابھی اسی وقت چل کے دیکھتے ہیں، میں نے بہت انکار کیا اور اگلی بار آنے کا ارادہ ظاہر کیا، ان کی بیماری کا بھی حوالہ دے کر کہا کہ آپ ابھی آرام کیجئے، ان شاء اللہ کسی اور وقت آتا ہوں، مگر آپ نے نہیں مانا، خود ہی باہر آئے، مجھے ساتھ لے کر دکان چلے گئے، تفصیل سے معائنہ کرایا۔ پھر وہیں بیٹھ کر کچھی معاشرتی مسائل پر گفتگو ہوئی ۔ جس سےاس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے الحمد للہ اپنے بچوں کو کاروبار میں شریک کر کے انھیں ایک کامیاب مستقبل سے ہمکنار کیا ہے۔ جو باپ ہی کی تربیت ہی کا ایک حصہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام بچوں کو مل جل کر اس سفر طو طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انھیں امانت دار اور سچا تاجر بنا کر اپنے والد کا خواب شرمندہ تعبیر فرمائے۔
آپ کی خدمات کو دیکھنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ کاش وہ ہمیں اتنی جلدی داغِ مفارقت نہ دیتے، لیکن قدرت کی منشا کے سامنے انسان بے بس ہے۔ بہر کیف ماہ ِ رمضان المبارک کے اختتام کےساتھ ساتھ آپ کی رحلت بھی قابل رشک ہے، اس لیے ان شاء اللہ ذاتِ خداوندی سے پروانۂ مغفرت کی امید ہے ۔آپ کی وفات پوری قوم کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے ، اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، رب ذوالجلال آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے۔اور قوم کو ان کا نعم البدل ملے ۔
اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ وأدخلہ الجنة․آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں