مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ کی سیاسی بصیرت
ڈاکٹر نثار احمد فیضی ملت اسلامیہ ہندیہ کے گل سرسبد ہونے کی حیثیت سے حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں،آپ کی ذا ت بابرکات ایک سایہ دار درخت کی طرح ملت اسلامیہ پر سایہ فگن رہی،حضرت مولانامحمد ولی رحمانیؒ کی شخصیت کثیرالجہات تھی،موضوع کی مناسبت سے اس مضمون میں حضرت موصوف ؒ کی سیاسی خدمات وکارنامے کے حوالہ سے بات کروں گا۔ ایک مستند اورصاحب نسبت عالم دین کی حیثیت سے سیاسی میدان میں خدمات انجام دینا اوراپنے آپ میں بحث طلب امر ہے،آزادی کے بعد اندرون ملک سے ہی ملت کے روشن خیال طبقہ سے وقتا فوقتا یہ آواز اٹھتی رہی ہے کہ علماء حضرات کو اپنے آپ کو مذہب تک محدود رکھتے ہوئے سیاست سے دور رہنا چاہیے،دراصل ملت کے نام نہادر وشن خیال طبقہ کو یہ خوف ستاتا ہے کہ علماء اگر سیاسی میدان میں اتر گئے تو ان کی سیاسی دکان بند ہوجائے گی،ان کے اعتراض کی بنیاد ی وجہ دراصل یہی ہے،ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاست شریعت اسلامیہ کا جزولاینفک ہے،اسلام میں سیاست کی اہمت کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے یو ں واضح کیا ہے: جلا ل پادشاہی ہو یا جمہوری تماشائی جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی علماء دین کے سیاست میں شمولیت کی ایک طویل تاریخ رہی ہے،برطانوی عہد میں برصغیر ہندوپاک کی ملی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو پوری تاریخ ہی علماء دین کی سیاسی جدوجہد سے بھرپور ملے گی،برسبیل تذکرہ چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں،شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒاسیر مالٹا کی پوری زندگی دارالعلوم دیوبند کی تدریسی ذمہ داریوں کے باوجود انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں گذر گئی،یہاں تک کہ مالٹا جزیرہ میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی،شیخ الہند کی ریشمی رومال تحریک،تحریک جدوجہد آزادی کا ایک روشن باب ہے،بعدازاں شیخ الہند کے شاگردرشید شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے تحریک جدوجہد آزادی میں بیش بہا خدمات انجام دیں،حالانکہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات اظہر من الشمس ہیں،تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لیا،مولانا مدنی کے بعد مفتی کفایت اللہ،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ وغیرہ علماء کی ایک کثیر تعداد نے اپنی عالمانہ ذمہ داریوں کے ساتھ عصری سیاست میں بھی حصہ لیا،جو تحریک جدوجہد آزادی کی تاریخ کاایک روشن باب ہے۔ اس طرح برصغیر ہندوپاک کی سیاسی تاریخ میں میں علماء کی شمولیت تواتر کے ساتھ رہی ہے،امام الہند مولاناابوالکلام آزاد ؒ ایک مفسر قرآن کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست کے بھی شہسوار تھے،اس تاریخی پس منظر کے بیان کرنے کاواحد مقصد یہ ہے کہ بر صغیر ہندوپاک کے علماء کے لیے سیاست شجر ممنوعہ نہیں تھی؛بلکہ دینی فرائض میں سے ایک فریضہ تھا،جس کو علماء نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ امیر شریعت حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانیؒ بھی شخصیت کے اعتبار سے اپنے آپ میں ایک انجمن تھے،موصوف ایک حق پرست اوربے باک عالم دین کے ساتھ ایک صاحب نسبت صوفی،کہنہ مشق ادیب اورایک پختہ کار منتظم تھے،مولانا محمد ولیؒ کی سیاسی بصیرت ان کی حیات مبارکہ میں ملت اسلامیہ کے لیے نشان راہ تھی،جہاں تک حضرت موصوفؒ کی سیاسی خدمات کی بات ہے تو بائیس سالوں تک مجلس قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے انہوں نے بیش بہا سیاسی خدمات انجام دیں،بظاہر تو مجلس قانون ساز کونسل میں کانگریس پارٹی کی نمائندگی کرتے رہے؛لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ موصوف فکری اعتبار سے مجلس قانون ساز کونسل میں ملت اسلامیہ کے ایک فرد کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ کونسل میں ایک پختہ شناخت بنالی؛بلکہ ملت کی بہترین اوربے لوث ترجمانی بھی کی،حضرت امیر شریعتؒ نے ایک رکن کی حیثیت سے مجلس قانون ساز کونسل میں پارٹی کی وفاداری اورسیاسی مصلحت سے بے نیاز ہوکر صرف اورصرف ملی درد کے ساتھ کام کیا،کونسل کے اجلاس کے دوران حضرت کی تقریریں روایتی سیاست کے برعکس صرف ملت کے مفاد میں بے لوث انداز میں ہوتی تھیں،میرایہ دعویٰ قلم کی جولانی نہیں؛بلکہ اس عہد کے قانون ساز کونسل کے ر کارڈ میں اسے کھلی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے،بلکہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ حضرتؒ کونسل میں مسلمانوں کے موضوع پر کونسل کے اجلاس کے دوران تقریر فرمارہے تھے،بی جے پی کے ایک رکن کو برداشت نہیں ہوا،اس نے تقریر کے دوران ہی سوال کردیا،مولانا پاکستان سے آپ کا کیسا تعلق ہے؟سوال بہت ہی تلخ اورذہن کو منتشر کرنے والا تھا،لیکن حضرتؒ ذرہ برابر بھی منتشر نہیں ہوئے اوربرجستہ جواب دیا:”میر ا پاکستان سے وہی تعلق ہے جو سردار پٹیل کا نیپال سے تھا“اس مدلل اورمنطقی جواب سے بی جے پی کے رکن پر سکتہ طاری ہوگیا،بلکہ پورا ایوان حیرت زدہ رہ گیا،دراصل اسی کا نام سیاسی بصیرت ہے کہ مخالفین کے سوال سے گھبرا نے کے بجائے برجستہ اوربرمحل جواب دیا جائے،حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کی کونسل کے اجلاس کے دوران ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں؛لیکن یہ مختصر مضمون ان تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، اس لیے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے قدرے اختصار سے کام لے رہاہوں۔ مجلس قانون ساز کونسل کی بائیس سالہ طویل رکنیت کے دوران حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ ایک سال سے تھوڑی کم مدت کے لیے کونسل کے چیئرمین بھی رہے،مختصر مدت میں کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی آپ نے پوری بے باکی اورسیاسی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بعض انقلابی فیصلے کیے،اسی زمانہ میں کانگریس کے ایک رکن کی ممبری کا معاملہ درپیش ہوا،قانونی اعتبار سے اس رکن کی رکنیت ختم ہوجانا تھا،لیکن کانگریس اعلیٰ کمان کا حکم تھا کہ اس رکن کی رکنیت ختم نہیں کی جائے،اس لیے حضرت ؒ کو دھمکیاں بھی دی گئیں؛لیکن آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی اورعہدے سے محرومی کی پرواہ کیے بغیر مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے اس کانگریس کے رکن کی رکنیت ختم کردی، آپ کی یہ مومنانہ جسارت بہار کی سیاسی تاریخ میں آب زر سے لکھنے کے لائق ہے، یہ الگ بات ہے کہ حضرت مولانا ولی رحمانیؒ کو اس بے باک قدم کے نتیجہ میں کونسل کے چیئرمین کے عہدہ سے دست بردار ہونا پڑا،اسی طرح آپ کے چیئرمین شپ کے زمانہ میں کونسل سکریٹریٹ کے عملہ کی بحالی ہونی تھی،جس میں آپ نے ستائیس عملہ کو بحال کیا،اس ستائیس تقرر پانے والوں میں بائیس مسلمان تھے اور بقیہ پانچ برادران وطن تھے،کونسل کے فرقہ پرست عناصر نے اس پر سخت اعتراض کیا،گویا بائیس مسلمانوں کی تقرری سے کونسل میں قیامت آگئی؛لیکن حضرتؒ نے پوری قوت کے ساتھ جواب دیا کہ جب ستائیس میں کل کے کل برادر ن وطن بحال کیے جاتے ہیں اور اس میں کوئی مسلمان نہیں ہوتا تو کوئی آواز نہیں نکلتی ہے،ایسا کیوں؟میں نے جس کو لائق سمجھا اسے بحال کیا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے،چنانچہ موصوف اپنے فیصلہ پر ثابت قدم رہے،معترضین کے اعتراض کو یکسر مسترد کردیا۔یہ الگ بات ہے کہ مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کے چیئرمین سے استعفیٰ دینے کے دوسرے چیئرمین نے ان تمام مسلم ملازمین کو برخواست کردیا،لفظ سیاست عملی طور سے زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے ملک گیر پیمانہ پر اصلاح معاشرہ کاکام انجام دیا،یہ عمل بھی ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں سیاست کا متقاضی ہے،مسلم پرسنل لابورڈ ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے،جس کے ذریعہ مسلمانوں کے عائلی مسائل حل کیے جاتے ہیں،اس ملی پلیٹ فارم کے انتظام وانصرام کے لیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے،حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے بورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے دس سال سے زیادہ مدت تک ملت اسلامیہ کی کامیاب قیادت کی۔ رحمانی فاؤنڈیشن مونگیر کے قیام کے ذریعہ قوم کے غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جاتاہے،دیگر فلاحی ورفاہی کارنامے اس فاؤنڈیشن کے ذریعہ انجام دیے جاتے ہیں،رحمانی تھرٹی کے ذریعہ ملت کے غریب ونادار بچوں کو میڈیکل،جے ای ای،آئی آئی ٹی،سی ا ے وغیرہ کی مفت کوچنگ اورتیاری کرائی جاتی ہے،جس میں کامیابی حاصل کرکے بے شمار طلباء ڈاکٹر،انجینئر،چارٹراکاؤنٹینٹ بن کر ملک میں خدمات انجام دے رہے ہیں،مذکورہ تمام شعبے اورتنظیمیں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ کے مثبت وزرخیز ذہن کی پیداوار ہیں،خانقاہ رحمانی اورجامعہ رحمانی کے مرکز سے حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ نے تین عشرے کی طویل مدت تک علم وعمل،سلوک وتصوف اوربیعت وارشاد کی خوشبو ملک وبیرون ملک میں پھیلا نے کا مذہبی فریضہ انجام دیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ کی پوری زندگی سیاسی بصیرت کا عملی نمونہ تھی،بلکہ اگر یہ کہاجائے تو بیجا نہ ہوگا کہ حضرت علیہ الرحمہ کی زندگی کے نصف آخر کی ہرسانس قوم وملت کی امانت تھی،جسے مرضی خداوندی نے تین اپریل ۱۲۰۲ء کو ملت سے واپس لے لیا،خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں