تحریر : باسل کیپا بھٹکلی انا لله وانا اليه راجعون۔ کل نفس ذائقة الموت۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہےچمن میں دیدہ ور پیدا اندوہ ناک رحلت کی خبر سے ملک و بیرون ملک میں رنج و الم وصدمے کی لہر دوڑ گئی۔ آپ کے انتقال سے […]
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی اندوہناک و غمناک رحلت پر تعزیتی پیغام
تحریر : باسل کیپا بھٹکلی
انا لله وانا اليه راجعون۔
کل نفس ذائقة الموت۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہےچمن میں دیدہ ور پیدا
اندوہ ناک رحلت کی خبر سے ملک و بیرون ملک میں رنج و الم وصدمے کی لہر دوڑ گئی۔ آپ کے انتقال سے پورے عالم اسلام میں غم کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ انتقال پر ملال کی خبر سن کر قلبی رنج و غم ہوا۔
عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی جمعرات ١٣ اپریل کو ٩٤ سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ وہ ایک قابل احترام شخصیت تھے۔ اسلامی تعلیم، فقہ، اور بین المذاہب مکالمے کے شعبوں میں حضرت کا بھت زیادہ تعاون رہا۔
مولانا شفقت و محبت، عاجزی و انکساری، اتحاد و اتفاق اور بردباری و تحمل کا عملی نمونہ تھے۔
مولانا کے رخصت ہونے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا نعم البدل انتھائی مشکل ہے۔ مرحوم کی سربراہی میں مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے لیے جو کام ہو رہے تھے وہ انتہائی اہم تھے۔ ملک کی موجودہ صورتحال میں مولانا کا ہم سے رخصت ہو جانا ایک عظیم خسارہ ہے۔
ایک بزرگ مرجع اور مربی قوم و مصلح ملت کے طور پر آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
مولانا رابع حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے محبوب بھانجے تھے۔
رحم الله فقیدنا و اسكنه فسيح جناته وأن يتغمده بواسع رحمته ومغفرته ورضوانه ويلهمنا وأسرته جميل الصبر والسلوان.
——-
مولانا رابع حسنی ندوی کی ولادت اترپردیش کے ضلع رائے بریلی میں یکم اکتوبر ١٩٢٩ کو ہوئی تھی ۔ مولانا کے والد کا نام سید رشید احمد حسنی تھی ۔ مولانا کی ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی مکتب رائے بریلی میں ہی ہوئی ۔ اس کے بعد اعلی تعلیم کیلئے وہ ندوۃ العلماء گئے، جھاں سے ١٩٤٨ میں انہوں نے فضیلیت کی سند حاصل کی ۔
مونا رابع حسنی ندوی گزشتہ ٢١ سالوں سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر تھے ۔ سال ٢٠٠٠ میں جب مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کا انتقال ہوگیا تو متفقہ طور پر ان کو بورڈ کے صدر کی ذمہ داری سونپ دی گئی ۔ علاوہ ازیں مولانا سید ابو الحسن علی ندوری کی وفات کے بعد ٢٠٠٠ میں دار العلوم ندوۃ العلما کے ناظم منتخب کئے گئے ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں