آفتاب طلوع ہوتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ میں غروب ہوتا ہوں،روشنی منور ہوتے ہوئے یہ اطلاع دیتی ہے کہ مجھے بھی ختم ہونا ہے، روشن صبح یہ صدا لگاتی ہے کہ شام ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے بھی فنا ہونا ہے۔ ہر پھول کھلتا ہی ہے مرجھانے کے لئے،ہر کوئی پیدا ہوتا ہے دنیا سے جانے کے لیے۔
3 محرم الحرام 1446 ہجری مطابق 9 جولائی 2024 عیسوی بروز منگل دوپہر سعودی عرب کے الخوبر سے اطلاع ملی کہ محترم مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی اپنی زندگی کی 75 بھاریں گزار کر اس دنیا سے پردہ فرماگیے۔
موت سےکس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
انتقال کی اطلاع ملتے ہی ان کے پسماندگان و رشتہ دار سمیت مقامی کئی احباب سعودیہ میں واقع ان کی رہائش گاہ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ایک دن کی کاغذی کارروائی کے بعد بدھ کے روز بعد نماز عصر نماز جنازہ ادا کی گئی اور ثقبة قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا کے انتقال پر منکی کی مختلف اداروں کے ذمہ داران بالخصوص خطیبِ قوم مولانا شکیل صاحب ندوی نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کی اور مولانا کے حق میں مغفرت کی دعائیں کی۔ مولانا کی نماز جنازہ کی اطلاع ملتے ہی سعودی عربیہ کے قریبی علاقوں میں مقیم بھٹکل و منکی سے تعلق رکھنے والے احباب بھی جنازہ میں شرکت کے لیے الخبر پہنچ گیے۔
پیدائش و تعلیم
آپ کی پیدائش 1949 کی ہے۔ آپ نے اپنی زندگی کی 75 بہاریں دیکھیں ، ابتدائی تعلیم منکی اردو اسکول میں ساتھویں جماعت تک حاصل کی پھر مقامی ہائی اسکول میں بھی داخلہ لیا لیکن اردو میڈیم نہ رہنے کی وجہ سے آپ کا عصری تعلیم کا سلسلہ وہی ختم ہوا۔ اس کے بعد آپ نے دارالعلوم امدادیہ سے اپنے خوبصورت دور کا آغاز کیا جہاں پر آپ نے عالمیت کی تکمیل کی اور پھر فراغت کے بعد جناب مرحوم اسماعیل علی باپو صاحب ( مولانا شبر علی باپو صاحب کے دادا اور منکی کی اسماعیل کالونی اُن کے نام کی طرف منسوب ہے) نے آپ کو دارالعلوم دیوبند بھیجا جہاں پر انہوں نے دررہ حدیث میں تخصص کیا ۔ اس زمانہ میں مرحوم جناب اسماعیل علی باپو صاحب کوششوں کے نتیجہ میں سابق قاضی و سابق ناظم و مہتمم مدرسہ رحمانیہ منکی مولانا شبیر صاحب قاسمی ( شبیر خلفو) نے دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی۔ ان دونوں احباب کے ساتھ مولانا فاروق صاحب قاضی ندوی یہ تینوں احباب منکی کے اولین فارغین میں سے ہیں جن کے بعد یہ سلسلہ آج تک الحمد اللہ جاری ہے۔ آپ کے ساتھیوں میں ہندوستان کی مشہور شخصیت مولانا بدرالدین اجمل اور ممبئی نواب مسجد کے امام وغیرہ ہیں ، آپ جس زمانہ میں دارالعلوم میں تعلیم حاصل کررہے تھے اس وقت وہاں کے اہتمام کی ذمہ داری حضرت مولانا قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ سنبھالے ہوئے تھے۔ دیوبند میں قیام کے دوران ہی آپ نے دور حدیث کے ساتھ ساتھ فن قرأت میں بھی کمال حاصل کیا اور سبع قرأت کی تعلیم بھی مکمل کی۔
ذریعۂ معاش
فراغت کے بعد رتناگیری کی ایک مسجد میں امامت اور بچوں کو قرآن پڑھایا ۔ اس کے بعد ایک کمپنی کے تحت انٹرنیشنل ایرپورٹ پر ملازم کی حیثیت سے آپ نے سعودی عرب کا رخ کیا جہاں پر آپ نے ایک سال تک ملازمت کی ، جہاں ایک چھوٹی مسجد تھی آپ اکثر امامت کرتے اوراذان بھی دیتے تھے۔ اسی مسجد میں استاذ عبد الرحمن نامی ایک شخصیت نے ان کی آذان و قرأت سے متاثر ہوکرایک مسجد میں امامت اور مؤذن کی خدمات کے لیے تیار کیا۔ انہوں نے ہامی بھرلی۔ استاذ عبد الرحمن نے اس کمپنی کے اعلی کارکنان اور مدیر سے ملاقات کی اور انہیں کمپنی سے العقربیہ میں واقع مسجد الأندلس پہنچایا۔ اس وقت سے موت تک تقریبا 45 سال تک آپ ایک ہی مسجد میں کام کرتے رہے۔
استاذ عبد الرحمن صاحب نے مرحوم شبر علی باپو صاحب کے لۓ یہی مناسب سمجھا کہ یہ ایک ہندوستانی فرد کسی سعودی فرد کی کفالت میں نہ رہے بلکہ اسی زمانہ میں سعودی اوقاف میں ان کو داخل کیا اور آپ اوقاف کے قدیم موذننین میں رہے ۔ استاذ کی یہ بھی خواہش تھی کہ ان کو سعودی رہاشی کا درجہ دیں مگر موصوف نے نہ کبھی اس کی خواہش کی نہ کبھی اس بات کو منوانا چاہا ۔
دو سال قبل ان کے داماد قاضی نظام الدین صاحب سے اس بات کا بھی تزکرہ کیا تھا کہ استاذ عبد الرحمن نے مجھے سعودی نیشنلیٹی دینے کے لیے خاموش کئی کوشش کی مگر میں نے کبھی اس کی مانگ نہیں کی مگر تم یاد رکھنا اور یہ ہوگا کہ میری موت اسی زمین پر ہوگی اور آج وہ بات بھی پوری ہو گئی۔
کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں
اذان کی خوبصورتی :
لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے
جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں
ان کی آذان کی خوبصورتی ایسے تھی کہ اگر کسی ضرورت کی وجہ سے آپ باہر گئے ہوں اور اس دن اذان نہ دیں تو مصلی ان کے گھر تشریف لاتے اور پوچھتے کہ آج شیخ کیوں تشریف نہیں لائے ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہاں کے عرب ان کی آوازکی کشش کے دلدادہ ہوچکے تھے۔ آپ جب اپنے گاؤں منکی تشریف لاتے تو آپ کی اذان سے جامع مسجد کے ممبر و محراب جھوم اٹھتے تھے۔
دور شباب اور نمایاں صفات
ہر چھوٹے بڑے کام خود کرتے اپنے لیے کبھی کسی کو حکم نہیں دیتے ، اکثر أوقات مسجد ہی میں گزارتے ۔ قرآن سے حد درجہ شغف تھا ، دن بھر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ۔ گھر پر بھی اکثر وقت قرآن مجید کی تلاوت میں گزرتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے ان معمولات کے بارے میں کسی کو نہیں بتاتے تھے۔
صلہ رحمی کی صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مہمان نواز تھے ، پہلی مرتبہ ملنے والا شخص کو یہ إحساس ہوتا ہے کہ برسوں ان سے جان پہچان ہو۔ ان سے ملاقات کے بعد لوگ کے ان کے گرویدہ بن جاتے۔ وقتاً فوقتاً اپنی أولاد کو بھی ان صفات سے متصف ہونے کی تلقین کرتے۔ سنت روزوں کا معمول رہا ، اللہ کے احکام و شریعت کے قوانین کے بڑے پابند رہے۔ خاندان میں آپ کی حیثیت ایک سرپرست کی تھی ، اسی لیے ہر کام میں ان سے مشورہ طلب کیا جاتا تھا۔
نوجوانی کا دور بھی آپ کا بڑا خوبصورت رہا ۔ مقام ( منکی )میں رہتے وقت کئی بچوں کو قرآن مجید تجوید کے ساتھ پڑھنا سکھایا۔ اسی لیے ان کے پاس قرآن مجید کی تکمیل کرنے پر فخر سے اس بات کا تذکرہ ہوتا۔ نماز سے غفلت پر اپنے عزیزوں پر برہمی کا اظہار کرتے۔ خصوصاً فجر کی نماز گھر والوں کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں کو بھی جگانے کا اہتمام تھا۔ اپنے ساتھیوں کی اصلاح کی ہمیشہ فکر سواررہتی ۔ جب کبھی محسوس کرتے ہوئے ان کے پاس میری باتوں کا وزن نہیں ہے توخفا ہوتے اور برملا ناراضگی کا اظہار کرتے۔
دوستوں سے محبت :
جس جس کے ساتھ آپ نے دوستی کرلی تھی ، زندگی کی آخری سانس تک انہیں یاد کرتے رہے اور وقتاً فوقتاً ان کی خبرگیری کرتے۔ زندگی بھر آپ نے موبائل نہیں رکھا لیکن جب جب بھی کسی دوست کی یاد آتی تو بچوں سے کہلواکر ان سے رابطہ کرتے۔
آپ نے اپنے دوستوں سے آخری دم تک وفا نبھائی ، ان کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ انہوں اپنے پاس موبائل نہیں رکھا مگر مادہ پرست کے اس دور میں جہاں صرف خود سے خود کو مطلب ہو سالوں کی دوستی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ٹوٹ جاتی ہو اس دور میں بھی ان کے پاس اپنے دوستوں کے موبائل نمبر رہتے تھے اگر کسی دوست کی یاد آتی تو اپنے بچوں کو بتاتے تھے کہ فلاں دوست سے میری بات کراؤ ، مالی اعتبار سے اپنے کمزور دوستوں کی آپ بڑی فکر کرتے ان کو یوں دیتے تھے کہ کسی کو خبر تک نہ ہو ، تحفہ ہدیہ وغیرہ دینا آپ کا معمول رہا ، مقامی اُن کے کئی دوست احباب تھے جن میں سرفہرست جناب قادرا محمد غوث صاحب ، جناب حسن باپو حسن باپا صاحب ، جناب کڑپاڑی شبر صاحب ، جناب مرحوم شمس الدین فقی احمدا صاحب و سینکڑوں عرب برادری کے احباب تھے۔
کسی سے بغض نہ کوئی نہ کوئی ملال رکھتے ہیں
وہ اعلیٰ ظرف ہیں روشن خیال رکھتے ہیں
بیماری کے ایام
اللہ کے احکام و شریعت کے قوانین اور نبی پاک کی سنتوں کو بجا لانا آپ کا ہمیشہ معمول رہا ۔ بیماری کے عالم میں بھی اسپتال کے بیڈ سے اپنے بچوں کو عملاً ایسا ایسا پیغام دے رہے تھے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا ، بات زبان سے نہیں نکل رہی تھی کئی کئی دنوں تک بے ہوشی تاری رہتی تھی مگر دواؤں کے وقت بچوں کو ہی ڈھونڈتے گویا وہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں کہ نامحرم نرس وغیرہ کے ہاتھوں سے مجھے دواء نہ پلائی جائے ، اپنا کوئی بائیں ہاتھ سے دوا دیتا تو اس کو دائیں ہاتھ سے کھلانے کو کہتے۔آخری آخری لمحات اور ایام میں آپ سو نہیں سکتے تھے، حرکت نہیں کر سکتے تھے اور اس عالم میں بھی آپ کی زبان پر اللہ کا ذکر تھا اور ایک دعا بار بار ان کی زبان پر تھی ۔۔۔ الہم اعنی علی ذکرک و شکرک و حسن عبادتک۔ اس کے علاوہ ان کی جو پسندیدہ آیات تھی اس کوکی آپ تلاوت فرماتے رہے۔
ان کے نواسے مولانا عمارندوی کہتے ہیں کہ میں ان کے قریب بیٹھ کر سورہ یاسین کی تلاوت کر رہا تھا اس وقت ان کی کیفیت یہ تھی کہ آپ بات نہیں کر سکتے تھے بلکہ صرف سمجھتے تھے مگر جب میں نے تلاوت کی تو میرے ساتھ ساتھ ان کے بھی ہونٹ ہل رہے تھے۔صحیح سے کھڑے ہونا سونا دشوار ہوگیا تھا مگر نماز کے اوقات میں اُن کو بڑی فکر لگی رہتی تھی ، بعض اوقات اُٹھنے اور کھڑے ہونے کی کوشش کرتے تھے ۔
عربوں کے دلوں میں ان کی محبت :
اِن کے انتقال کے بعد مسلسل عرب احباب ان کے گھر تعزیت کے لیے آرہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کئی ایک کو وہ محلہ چھوڑے کئی کئی سال گزرگیے لیکن ان کی محبت انہیں کھینچتے لائیں۔ اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہہ رہے کہ میں شیخ کے پاس قرآن مجید تجوید کے ساتھ تلاوت کرنا سیکھا ، جب وہ اذان دیتے تو ان کی آواز ہمارے دلوں کے تاروں کو چھیڑتی تھی ، جن کی صفات حسنہ سے ہم سب متاثر تھے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ، ان کے حسنات کو قبول فرمائے ، سیئات سے درگزر فرمائے اور امت کو آپ کا نعم البدل عطافرمائے۔ آمین یارب
(اس مضمون کے لیے مولانا کے نواسے مولوی عمار قاضی ندوی اور ان کے داماد مولوی ہدایت اللہ ندوی نے معلومات فراہم کیں ہیں۔)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں