حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی مدظلہ العالی
محمد الیاس ندوی بھٹکلی نورانی چہرہ،سرخی مائل رنگ،میانہ قد،خوبصورت لہرتی گھنی داڑھی،لہجے میں سوز،آنکھوں میں حیاء،چال میں مسکنت،گفتگو میں وقار،حلیم الطبع اور سلیم الفطرت سنجیدگی متانت،علمی گہرائی،عملی زندگی اور حلم و بردباری کا ایک اعلی اسلامی اور دینی نمونہ۔ یہ ہیں اس وقت دنیا کے بیس کروڑ مسلمانوں کے باوقار و متفقہ دینی پلیٹ فارم کے قائد و رہنما،کل ہند مسلم پر سنل لاء بورڈ کے بالا تفاق نو منتخب صدر،دوسرے الفاظ میں ہندوستان میں امت کے سب سے بڑے اجتماعی دینی سرمایہ کے نگہبان،عالم اسلام میں برصغیر کے مسلم نمائندہ،مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی بھانجے اور ان کے خاندانی جو علمی اور اصلاحی و روحانیت جانشین و خلیفہ،حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی دامت برکا تہم۔ عربی میں رابع کے معنی چوتھے،حسن اتفاقی سے وہ اپنے بھائیوں میں بھی چوتھے پر سنل لاء بورڈ کے چوتھے دھائی کے چوتھے صدر اور ندوۃ العلماء کے حسنی خاندان کے چوتھے ناظم۔ چاند سورج کی موجودگی میں دن میں تو اپنے وجود کا احسان نہ دلانے میں کامیاب ہو جاتاہے لیکن غروب آفتاب کے بعد اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے حسن و جمال کا اعتراف ہو ہی جاتا ہے،آفتاب علم و ادب مفکر اسلام کی زندگی میں یہ ماہتاب اپنے کو چھپانے میں کامیاب رہالیکن غروب آفتاب کے بعد اس کی عظمت واہمیت کا دنیا کو قائل ہونا ہی پڑا فقیہ ملت حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد ملت اسلامیہ ہند یہ کو ایک یسی مرکزی قیادت کی ضرورت تھی جس کے ارد گرد تمام مسلکوں اور مکتب فکر کے لوگ بورڈ کے زیر اہتمام جمع ہو سکیں اس موقع پر ملت کی نگاہیں جس کی طرف اٹھی وہ مولانا محترم ہی کی ذات گرامی تھی جس میں اللہ تعالی نے دیگر خصوصیات و امتیازات کے ساتھ بصیرت،تدبر،معاملہ فہمی کے علاوہ یہ صفت بھی بدرجہ اتم و دیعت کی ہے کہ وہ ملت کے مختلف صلاحیتوں کے افراد سے بڑی خوبی کے ساتھ کام لینے کا ملکہ رکھتے ہیں،چنانچہ صدر بورڈ کی وفات کے بعد اسکے مخلص اراکین کی طرف سے مولانا کو اس عظیم منصب پر فائز ہونے کے لئے آمادہ کرنے کی برابر کوششیں ہوتی رہیں لیکن مولانا آخر تک اس سے گریز کرتے رہے یہاں تک کہ حیدرآباد میں صدر کے انتخاب کے لئے منعقدہ مجلس عاملہ کے جلسہ میں بھی شریک نہیں ہوئے اور دوسرے دن کے افتتاحی جلسہ میں پہونچے بالآخر ملت کے مخلص عمائدین کا اصرار ان کے انکار پر غالب آہی گیااور بادل ناخواستہ اس عظیم ذمہ داری کے بار کو اٹھانے پر ان کو آمادہ ہونا پڑا،حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو منصب بلا طلب حاصل ہوتاہے اس میں اللہ کی طرف سے خاص برکت ہوتی ہے،اسی کی روشنی میں ہمیں یقین ہے کہ وہ کریم آقا اپنی سنت کے مطابق انکے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمائے گا۔ الحمد للہ اس وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے عالمی سطح پر علمی وقار و معیار کے لئے یہی کا فی ہے کہ اس کے متعلق عالم اسلام کے چوٹی کے مفکر علامہ یوسف القرضاوی کا کہنا ہے کہ کاش میری جوانی لوٹ آتی اور مجھے فرصت ملتی تو میں ندوہ کی طالب علمی کی سعات حاصل کرتا اور اسکی روحانی وعلمی فضاء سے فیض یاب ہوتا،اس کے مختلف تعلیمی و علمی شعبوں کی وسعت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ عام طور پر ایک ا وسط درجہ کے مدرسہ میں جتنے اساتذہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ لوگ صرف اس کے پانچ منز ل وسیع کتب خانہ میں روزانہ مصروف کار رہتے ہیں،آج اس ادارہ سے کسی کی نسبت عالم اسلام میں اس کی علمیت و ثقاہت کی سب سے بڑی دلیل ہے،اسی ادارہ کے آپ چانسلر یعنی ناظم اعلی ہیں اور اسکے تمام سابقہ ناظموں میں اس حیثیت سے منفرد ہیں کہ بتدریج استاذ/صدرشعبہ ادب عربی /مہتمم اور نائب ناظم کے مناصب طے کرتے ہوئے اس تک پہنچے ہیں،آج کے دور میں پچاس سال صحت کے ساتھ جینا ہی کسی کرامت سے کم نہیں لیکن الحمدللہ مولانا گذشتہ ستر سال سے صرف اسی دارلعلوم میں تسلسل کے ساتھ تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں اور آج بھی اونچے درجات میں آپ کے محاضرات ہوتے ہیں۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی جس کا صدر دفتر ریاض میں ہے اور اس کی مختلف شاخیں مراقش/مصر /اردن /اور ترکی وغیرہ میں قائم ہیں اس کے بانی صدر مفکر اسلام ؒ کی وفات کے بعد اس کے عرب ارکان کا اصرار تھا کہ موجودہ نائب صدر مولانا ہی کو اس کی صدارت سونپ دی جائے تاکہ یہ علمی و ادبی کا رواں ان ہی کی سر براہی میں اپنی منز ل کی طرف رواں دواں ہو لیکن اللہ کا یہ بندہ جو ہمیشہ اپنے کو چھپانے کی کوشش کرتا رہا کہاں ماننے والا تھا بالآخر مولانا کے اصرار پر ڈاکڑ صالح عبد القدوس کو اس کی صدارت سونپی گئی اور مولانا خود عالمی نائب صدرو صدر مشرقی ممالک ہی رہے البتہ کل ہند دینی تعلیمی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب بڑی حکمت سے مفکر اسلام کے بعد مولانا کو اس کی صدارت کے لئے آمادہ کرنے میں کامیاب رہے۔ یوں تو اس وقت دنیا میں خاندان نبوت سے اپنے نسبی رشتے کو منسوب کرنے والے سینکڑوں قبائل ہیں لیکن جن گنے چنے خاندانوں کے بارے میں حتمی طور پر تاریخی وثائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتاہے کہ ان کا سلسلہء نسب محسن انسانیت ﷺ سے ملتاہے اور جن کے چہرے بشرے، اخلاق و کردار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اسمیں حضرت سید احمد شہید کا خاندان ہے مولانا اس حسنی سادات سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے جد امجد سید احمد شہیدؒ کا ملی سوز،دینی جذبہ اور اسلامی حمیت وغیر ت کا اعلی نمونہ بھی ان میں ہر طرح نظر آتاہے۔ خانقاہ و تصوف اور بیعت وارشاد کا نباہ فکر وفن،شعر و سخن اور علم واد ب سے بہت کم ہوتاہے،اگر چہ اسلام کی زرین تاریخ اس سے بھری پڑی ہے لیکن اس صدی میں اس کے نمونے خال خال نظر آتے ہیں مولانا موصوف اپنے ماموں کی طرح اس کا قابل دید نمونہ ہیں ایک طرف رمضان میں مفکر اسلام کے بعد بھی تکیہ کلاں کی آباد خانقاہ اور اس میں معتقدین و متوسلین کا بے پناہ ہجوم دیکھنے سے تعلق رکھتاہے،اصلاح و بیعت کے سلسلہ میں بھی رجوع عام ہے،دوسری طرف موجودہ ترقی پسند ادب کی خرابیوں پر ایسی گہری نظر اور اسلامی ادب پر ایسا اعتماد کہ دو سال قبل بھٹکل میں رابطہ کے کل ہند سمینار میں مولانا کی تقریر کو سن کر بر صغیر کے مشہور ترقی پسند ادیب اور کل ہند انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری ڈاکڑ خلیق انجم کو جلسہ عام میں بر ملا یہ اعتراف کرنا پڑا کہ آج سے قبل میں اسلامی ادب کا قائل نہیں تھا لیکن مولانا کی تقریر کو سن کر یہ اعتراف کرنا پڑا کہ اسلامی ادب ہی سب سے اعلی،ارفع اور حقیقی ادب ہے۔ اس عجمی خانقاہی ادیب کی عربی ادب پر ایسی دسترس ہے کہ اسکی کتابیں منثورات اور الاد ب العربی بین عرض و نقد بر صغیر کے علاوہ خود عالم عرب کے مدارس میں داخل نصاب ہیں،جغرافیہ جیسے خشک موضوع کا ایسا ذوق ہے کہ ان کی کتاب جزیرۃ العرب کو اپنے موضوع پر اس وقت سند کا درجہ حاصل ہے اور یہ بھی اکثر مدارس کے نصاب میں داخل ہے،ان سب علمی مشاغل کے باوجود مصروفیات کے علاوہ دو چار روز بھی ادھر کئی سالوں سے خود اپنے وطن میں قیام کا موقع نہیں ملا ہے،کیونکہ اگلے چند ہفتوں میں یورپ /افریقہ /وایشیاء کے مختلف ممالک کے دعوتی اسفار در پیش ہیں۔ بصیر ت و حکمت اور دانائی و تدبر کا یہ حال کہ ندوہ پر چھاپے کے بعد ملک گیر سطح پر عوامی احتجاج کے لئے خواص ملت کی طرف سے دباؤ کے باجود جس خوش اسلوبی سے اس جذباتی مسئلہ کو عوامی بنا کر جس طرح مرکزی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے کے ساتھ معافی مانگنے پر مجبور کیا اس سے اچھے اچھے سیاسی لوگ بھی انگشت بدنداں رہ گئے ان سب دعوتی مشاغل کے ساتھ کاروان ادب جیسے علمی و ادبی مجلہ کی ادارت بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور پندرہ روزہ عربی اخبار الرائد کے بانی و مدیر اعلی اور اس کے مستقل مضمون نگار بھی،ہمدرد یونیوسٹی دہلی جیسے خالص عصری علوم کے ادارہ کے کورٹ ممبر بھی،دار المصنفین اعظم گڑھ جیسے تحقیقی مرکز کی مجلس عاملہ کے رکن بھی،یورپ میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں قائم اسلامک سینٹرکے روز اول سے تاسیسی رکن اور بر صغیر سے اس وقت اسکے تنہا ممبر و نمائندہ بھی،عالمی سطح پر مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی ادارہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں بھی اس وقت مفکر اسلام کی نیابت کرتے ہوئے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ مفکر اسلام کی سرپرستی میں ندوہ میں قائم ایک مستقل تحقیقی ادارہ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام نے چار سو کے قریب مختلف تحقیقی و دعوتی موضوعات پر عر بی /انگریزی /اردو اور ہندی میں کتابیں شائع کرکے اپنا علمی دنیا میں جو وقار بلند کیا ہے اس کی مثال اس حیثیت سے نہیں ملتی کہ ایک ہزار کے مخلصانہ عطیہ سے شروع ہونے والا یہ ادارہ اس وقت اندازا دس ملین روپئے کے علمی ورثے یعنی کتابوں کا مالک ہے اور اس میں خلیجی و بیرونی عطیات کا کوئی دخل نہیں،صرف اسی کی کتابوں سے فروخت ہونے والا یہ سرمایہ ہے،مولانا اس کے روز اول سے جنرل سکریٹری اور اب صدر ہیں،اسکو اس مقام بلند تک پہنچانے میں مولانا کی فکری و انتظامی صلاحیتوں ہی کا بڑا حصہ ہے۔ مفکر اسلام کواس صدی میں ان کے دعوتی خدمات کی وجہ سے جو قبولیت حاصل ہوئی اس کی نظیر دور دور تک نہیں ملتی،اس میں جہاں ان کے والدین کی دعاؤں اور مربی بھائی کی تربیت کا دخل ہے،وہیں پچاس سالہ رفاقت کے ساتھ مولانا مرحوم کو اس دعوتی مشن کے لئے یکسو وفارغ رکھنے میں مولانا موصوف کے حصہ کو بھی نذر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔ حضرت مولانا رائے پوری کا صحبت یافتہ،شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کا تربیت یافتہ اور مفکر اسلام کو اپنے بیٹے کی طرح عزیز نوے سالہ یہ چہیتا بھانجہ اپنی ان گو ناگوں خوبیوں اور وہبی خصوصیات کے باوجود آپ کو اپنے سادہ طرز معاشرت کے ساتھ اتنا منکسر المزاج اور متواضع نظر آئیگا کہ کچھ دنوں پہلے تک جب تک صحت نے ساتھ دیا ندوہ کی مسجد میں بعد عصر طلبہ کی صف میں تلاوت کرتے ہوئے یا عشاء کے کھانے کے بعد تنہا چہل قدمی کرتے ہوئے اسکو پہچاننا مشکل تھا،زہد و تقوی کا یہ عالم کہ ندوہ کے مہمان خانہ میں مدرسہ کے مطبخ سے کھانے کے بجائے لکھنؤ شہر سے اپنے گھر سے اپنا سادہ کھانا کھاتا ہوا آپ کو نظر آئے گا ملک میں کسی مدرسہ یا ادارہ کی دعوت پر دور کا سفر بھی ہو میز بانوں کے اصرار کے باوجود حتی الامکان وہ ہوائی جہاز کے بجائے ٹرین سے ہی وہاں پہنچنے کو ترجیح دے گا۔ امت مسلمہ ہند یہ نے اس کو درپیش تاریخ کے سب سے نازک دور میں اپنے فرزند پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہاں مخلص مومن بندوں کی تمناؤں کی ضرور لاج رکھے گا،اور اس کے سایہ عاطفت کو صحت کے ساتھ دراز کرتے ہوئے تا دیر ان کی رہنمائی کا اس کو موقع عنایت فرمائے گا۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں