ہندوستان کی مشہور اسلامک یونیورسٹی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم اور ہندوستانی مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا محمد رابع حسنی ندوی ہندوستان کی وہ مایہئ ناز شخصیت ہیں جن کی بزرگی، اخلاص و للہیت، نام ونمود سے دوری اور دین و ملت کی بے لوث خدمت کا اعتراف عرب اور عجم دونوں میں کیا جاتا ہے۔ علم و ادب میں مولانا کی شاندار خدمات نے عرب و عجم میں مولانا کو ایک نمایاں مقام عطا کیا ہے اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی رحلت کے بعد آپ عالمِ اسلام میں ان کے نمائندہ اور نائب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ مولانا محمد رابع حسنی ندوی بھارت کے صوبہ اترپردیش میں واقع ضلع رائے بریلی کے تکیہ کلاں کے ایک مشہور علمی، دینی اور دعوتی خانوادہ میں یکم اکتوبر 1929ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید رشید احمد حسنی تھا، ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی مکتب رائے بریلی میں ہی مکمل کی، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے جہاں سے 1948ء میں فضیلت کی سند حاصل کی، اسی دوران مولانا نے دارالعلوم دیوبند میں بھی ایک سال گزارا۔ جہاں فقہ، تفسیر، حدیث اور بعض فنون کی کتابیں پڑھیں۔ 1949ء سے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں بحیثیت معاون مدرس کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ 1950ء سے 1951ء کے درمیان حصولِ تعلیم کے سلسلے میں حجاز میں بھی قیام کیا۔ آپ کی عظیم الشان علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں صوبائی اور قومی اعزازات سے آپ کو نوازا گیا ہے۔ چنانچہ آپ 1970ء میں ندوۃ کے کلیۃ اللغۃ کے ڈائرکٹر بنائے گئے۔ 1993ء میں ندوۃ کے نائب مہتمم بنائے گئے۔ اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی وفات کے بعد 2000ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم (ڈائریکٹر) چن لیے گئے۔ اس کے بعد 2002ء میں جب مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کا انتقال ہوگیا تو متفقہ طور پر آپ کو بورڈ کا صدر بنایا گیا۔ حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کا شمار اس وقت ہندوستان کے چند نامور علمائے دین اور بزرگوں میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دنیا کی مشہور تحریکوں، تنظیموں اور علمی اداروں کے ممبر، سرپرست، صدر اور بعض کے فاؤنڈر ہیں۔ ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء، اور صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے علاوہ آپ نائب صدر عالمی رابطہ ادب اسلامی،صدر دینی تعلیمی کونسل اترپردیش، صدر مجلس تحقیقات و نشریات لکھنؤ،رکن تاسیسی رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ، رکن دارالمصنّفین اعظم گڑھ اور آکسفورڈ سینٹر فار اسلامی اسٹڈیز برطانیہ کے ٹرسٹی ہیں۔ حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیت اس دورِ قحط الرجال میں سلف صالحین کی ایک یادگار تصویر اور علم وادب کا وہ حسین گلدستہ ہے جو عرب و عجم میں تشنگانِ علم کے مشامِ جان کو معطر کررہے ہیں۔ جب مولانا رابع حسنی ندوی کی علمی و ادبی خدمات کی شہرت عرب ممالک کے علاوہ دیگر ممالک میں پہنچی تو آپ کے محاضرات سننے کے لیے دنیا کے مختلف گوشوں سے آپ کو دعوت نامے آنے لگے۔ چنانچہ آپ نے امریکہ، جاپان، مراکش، ملیشیا، مصر، تونس، الجزائر، ازبکستان، ترکی، جنوبی افریقہ کے علاوہ برطانیہ وغیرہ کا سفر کیا اور وہاں علمی و دعوتی محاضرات دیے۔ جہاں تک مولانا کی تصنیفات و تالیفات کا تعلق ہے تو عربی زبان میں 15 اوراردو میں 12کتابوں کے آپ مصنف ہیں۔ اور ان میں بعض کتابیں اسکولوں اور مدارس کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔ آپ کی چند مشہور کتابیں ہیں: (۱) جزیرۃ العرب (۲) دو مہینے امریکہ میں (۳) رہبر انسانیت (۴) الادب العربی بین عرض و نقد (۵) معلم الانشاء، حصہ سوم وغیرہ۔ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی سب سے عظیم الشان خدمات آپ کی تدریسی خدمات ہیں، جو تقریباً 50سال کے طویل عرصے پر محیط ہے، چنانچہ آپ کے ہزاروں شاگرد دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اور عظیم الشان دینی و علمی خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں اور مجھے بھی مولانا مدظلہ العالی سے عربی ادب پڑھنے کا شرف حاصل رہا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت نصیب فرمائے اور آپ کے فیوض کو قبول فرمائے۔ آمین!
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں