(مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری صاحب کے انتقال پرملال پر)
تحریر: عتیق الرحمن ڈانگی ندوی
رفیق فکروخبر بھٹکل
دار العلوم ندوۃ االعلماء میں فضیلت ثانی کا آخری سال تھا، طلبہ تکیہ کلاں رائے بریلی جانے کی تیاری میں تھے، ندوۃ العلماء کا دستور رہا ہے کہ فضیلت ثانی کے طلبہ اپنے تعلیمی سال کے آخر میں تین روز تکیہ کلاں میں قیام کرتے ہیں جہاں ندوہ کے مؤقر اساتذہ کے مختلف علمی اور دعوتی موضوعات پرہونے والے محاضرات سے استفادہ حاصل کرتے جس کا فائدہ طلبہ اپنی زندگی بھر محسوس کرتے ہیں اور اس سے انہیں دعوتی میدان میں خاصے تجربات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ہم شام کے وقت تکیہ کلاں پہنچ گئے، طلبہ میں عجیب سی خوشی تھی، ندوہ کے مؤقر اساتذہ سے استفادہ کا موقع اور دوسری طرف تفریح بھی۔ طلبہ کو ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کے حسین مواقع بھی یہاں دستیاب تھے۔ خیر دوسرے روز علی الصبح ہمیں دن بھر کا پروگرام بتایا گیا اور محاضرات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ندوۃ العلماء کے سابق معتمد تعلیم حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا مشتشرقین کے اعتراضات کے جوابات اور عالم اسلام کو درپیش مسائل کے موضوع پر محاضرہ چل رہا تھا۔ طلبہ ہمہ تن گوش تھے، اس دوران مولانا کی طبیعت بگڑگئی اور اچانک کھانسنے لگے۔ مولانا نے اپنا محاضرہ جاری رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن طبیعت نے ساتھ نہیں دیا۔ اسی محاضرہ میں مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے، مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی درمیان ہی میں محاضرہ چھوڑ کر تشریف لے گئے، ان کے جانے کے بعد طلبہ کو تشویش لاحق ہوگئی اور ہر ایک کی کیفیت یہی تھی کہ کاش مولانا اپنا محاضرہ پورا کرتے اور طلبہ کی علمی پیاس بجھتی۔ ارے یہ کیا ہو!، مولانا کے جانے کے بعد طلبہ میں چہ میگوئیاں ہونے لگی، اسی وقت مولانا نذ الحفیظ ندوی ازہری نے نشست سنبھالی اور جہاں سے مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی نے اپنا محاضرہ چھوڑا تھا وہیں سے شروع کیا۔ اختتام کے بعد مولانا کی علمی صلاحیت پر طلبہ میں گفتگو ہونے لگی۔ واقعی مولانا موصوف کے علمی صلاحیتوں کی داد دینی چاہیے کہ جہاں پر محاضرہ مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی محاضرہ چھوڑ کر چلے گئے وہیں سے شروع کرنا اور انہی کی باتوں کے حوالے سے بالکل موضوع پر ہی محاضرہ ختم کرناان کی علمی پختگی کی دلیل تھی۔
مولانا مرحوم کو میڈیا کے موضوع سے بڑی دلچسپی تھی۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایماء پر مولانا مرحوم نے مغربی میڈیا اور اس کے اثرات پر ایک جامع کتاب تصنیف کی جس میں نہ صرف مغربی میڈیا کے ایجنڈوں کو واضح کیا ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے دنیا پر مرتب ہونے والے اثرات کو بھی تفصیل سے بیان کیا، چند ہی سالوں میں مولانا کے خدشات ایک ایک کرکے حقائق کی شکل سامنے آنے لگے ، آج بھی اگر کوئی اس کتاب کا مطالعہ کرے تو ہمارے ملک کی میڈیا کے مقاصد کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی۔
جب ندوہ کے ذمہ داران نے فضیلت کے طلبہ کے لیے کلیۃ الدعوۃ والاعلام کا شعبہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا جہاں طلبہ کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھنے اور مختلف دعوتی میدان میں کام کرنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے تودعوہ کے طلبہ جن اساتذہ سے سب سے زیادہ فیض یاب ہوئے وہ مولانا مرحوم کی ذات تھی۔ مولانا ان طلبہ سے اپنے خصوصی تعلقات کا بھی اظہار فرماتے اور اپنے قیمتی محاضرہ کے بعد طلبہ کے سوالات کے تشفی بخش جواب بھی دیا کرتے جس سے طلبہ کو مولانا سے ایک طرح کی انسیت پیدا ہوگئی تھی اور وہ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کے گھنٹوں میں حاضری دیتے۔ کئی مرتبہ مولانا کی طلبہ کے ساتھ بے تکلفی دیکھ کر شعبہئ حدیث کے طلبہ کو یہ احساس ہوجاتا کہ کاش ہم بھی دعوہ میں داخلہ لیتے اور مولانا سے استفادہ کا موقع ہمیں بھی ہاتھ آجاتا۔
ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم کی روزانہ بعدِ عشاء مجلس میں جن اساتذہ کی حاضری لازمی ہوتی تھی، ان میں مولانا مرحوم بھی سرِ فہرست تھے۔ اپنے اندر علم کا سمندر رکھنے کے باوجود اپنے کو طالبِ علم سمجھ کر حضرت کی مجلس میں شریک ہوتے اور ایسے سوالات کرتے جس سے طلبہ کے علم میں ایسا اضافہ ہوتا جو گھنٹوں کیا ہفتوں مطالعہ کرنے پر نہیں ہوسکتا تھا۔
آج ندوۃ العلماء اپنے ایسے قابلِ فخر فرزند سے محروم ہوگیا جس نے دورِ جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طلبہ کی دینی اور دعوتی انداز میں تربیت کی اور اپنی عمر ندوہ کی علمی ترقی کے لیے وقف کیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے۔ اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان خصوصاً ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں