مولانامحمودحسن حسنی ندوی ؒبھی اللہ کوپیارے ہوگئے،۱۳محرم الحرام ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۲؍اگست ۲۰۲۲ء بروزجمعہ بوقت ساڑھے نوبجے صبح انہوں نے لکھنؤ کے ایک ہوسپیٹل میں آخری سانس لی، وہ کڈنی کے مرض میں مبتلاتھے، علاج کے لئے چنڈی گڈھ بھی گئے ڈائیلائس بھی کیاجاتارہا،مرض بڑھتاگیااورپھر وقت متعین پر وہ بارگاہ خداوندی میں حاضرہوگئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون، جنازہ ان کی سکونت خاتون منزل لایاگیا، تجہیزوتکفین کے بعد جنازہ کی پہلی نماز بعد نماز جمعہ ندوہ کی مسجد کے باہر حضرت مولاناسعیدالرحمن اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء نے پڑھائی وہاں سے اپنی آخری آرام گاہ تکیہ رائے بریلی منتقل کئے گئے جہاں دوسری بارجنازہ کی نمازحضرت مولاناسید محمدرابع حسنی ندوی مدظلہ نے بعدنماز عصر پڑھائی اورسینکروں سوگواروں کی موجودگی میں تکیہ شاہ علم اللہ کے آبائی قبرستان میں رائے بریلی میں تدفین عمل میں آئی پس ماندگان میں اہلیہ اورایک بیٹی ہیں ، جومولاناسید سلمان الحسنی ندوی کے صاحب زادہ مولانایونس حسینی کے نکاح میں ہیں ، مولاناسے چھوٹے دوبھائی مفتی مسعود حسنی ندوی اورمولانامنصور حسنی ندوی بھی حی القائم ہیں ۔
مولانامحمد حسن حسنی ندوی بن سید حسن حسنی بن سید محمد مسلم حسنی کی ولادت تکیہ رائے بریلی کے خانوادہ حسنی سادات میں ۲۸؍جمادی الالی ۱۳۹۱ھ مطابق ۲۲جولائی ۱۹۷۱ء کوہوئی ، ان کے نانامولانامحمد ثانی حسنی ندوی ؒ(۱۶؍فروری ۱۹۸۲ئ) تھے ، ابتدائی تعلیم گائوں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعدان کاداخلہ مدرسہ ضیاء العلوم رائے بریلی میں کرادیاگیا، وہاں سے وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنوآگئے ، یہاں انہوں نے ثانویہ اورعا لمیت کے نصاب کی تکمیل کی اورسند پائی ، ان کی علمی تشنگی باقی تھی چنانچہ انہوں نے ندوہ ہی سے دوسالہ تخصص فی الحدیث کاارادہ کیااور۱۹۹۲ء میں اس سے فراغت پائی، انہوں نے المعہدالعالی الدعوۃ والفکر الاسلامی کاایک سالہ کورس بھی مکمل کیا ۔
تدریسی زندگی کاآغاز مدرسہ ضیاء العلوم دائرہ عرفات رائے بریلی سے کیا، وہ وہاں کے تحقیقی شعبے سے وابستہ بھی رہے اورمذہبی صحافت کوآگے بڑھانے میں کلیدی کرداراداکیا، اللہ رب العزت نے اس کام کے لئے بہترین مواقع فراہم کئے ، انہوں نے پیام عرفات کی مجلس ادارت کے رکن ماہنامہ رضوان لکھنؤکے معاون مدیر اورپندرہ روزہ تعمیر حیات کے پہلے معاون ایدیٹر اوربعدمیں نائب مدیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں ، جسے وہ آخری دم تک نبھاتے رہے۔
مولانامحمودحسن حسنی ندوی ؒکواللہ تعالی نے تصنیف وتالیف کی بہترین صلاحیت عطافرمائی تھی، انہوں نے بزرگان دین اورخانوادۂ حسنی کے نامور افرادکی سیرت وسوانح مرتب کی ، وہ اپنے ناناکی طرح حسنی خاندان کے انساب اوراس خاندان کے رجال سے واقفیت میں ممتازتھے ، اپنی اس صلاحیت سے انہوں نے خوب خوب فائدہ اٹھایااورسیر ت وسوانح پر ضخیم ضخیم جلدیں تیارکردیں ، سوانح حضرت مولاناابرارالحق ،ایک فرشتہ صفت انسان ، حیات عبدالباری ، سوانح مولاناسید محمد عبداللہ حسنی ندوی ، مولانامحمدیونس جون پوری ، شخصیت اورخدمات ، مولانامحمد زبیر کاندھلوی ، اورتاریخ اصلاح وتربیت (دوجلدیں)اہم اورمقبول ہیں، انہوں نے اپنی تحقیقی ذوق سے خانواہ علم اللہی کی کئی کتابوں کوبھی تحقیق وتعلیق کے ساتھ شائع کرایا، ان میں میز اب رحمت اورخانوادہ علم اللہی تالیف مولانامحمد ثانی حسنی ندوی کوخاص اہمیت حاصل ہے ، مولاناواضح رشید ندویؒ اورمولانامحمد رابع حسنی ندوی مدظلہ کے وہ رفیق سفر ہواکرتے تھے، اس کی روداد’’رفتارکارواں ‘‘اورمولاناسید محمد رابع حسنی ندوی کی آپ بیتی ’’اوراق زندگی ‘‘کوبھی انہوں نے مرتب کیا، ان کی آخری کتاب ’’ہدیہ درودوسلام‘‘ تھی جس کااجراء حال ہی میں عمل میں آیاتھا۔
مولانامرحوم کامطالعہ وسیع اورتصنیف وتالیف ان کابہترین مشغلہ تھا، وہ بہترین انشاء پردار اورخانوادہ حسنی کے اوصاف وکمالات کے مجموعہ تھے وہ شیریں سخن اوربے تکلف انسان تھے کسی بھی موقع سے سختی اورترش روی سے خود کودوررکھتے تھے، وہ ان قضیوں سے بھی خود کوالگ تھلگ رکھنے میں کامیاب رہے ، جس نے وقتی طور پر ہی سہی بہتوں کو پریشانی میں مبتلا کیا۔
مولانامرحوم سے میری ملاقات کوئی تیس سال پرانی تھی، جب مولاناسلمان الحسینی ندوی صاحب نے شباب اسلام کووجود بخشااوراس کی سرگرمیاں پورے ہندوستان میں پھیلیں ، تحریک کے دست وبازوبننے کی وجہ سے اورمیراآناجاناکثرت سے لکھنوہونے لگاتومولاناسے باربارملاقات ہوتی رہی، بعض دوروں اورکیمپوں میں جوشباب کی جانب سے منعقدکیے گیے،مولانامحمودحسینیؒ بھی ساتھ رہے،اورعمر میں تفاوت کے باجودہماری ان سے رفاقت بڑھتی ہی رہی ۔
میری آخری ملاقات ان سے۱۱؍مار چ ۲۰۱۸ء کوجلسہ پیام انسانیت کے موقع سے ہوئی تھی، یہ اجلاس میرے قائم کردہ مدرسہ معہدالعلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی میں ہوئی تھی، مولانامرحومؒ اس قافلہ کے ساتھ تھے جویہاں حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی قیادت میں آیاتھا اورجسم میں مولاناواضح رشیدندوی رحمۃ اللہ علیہ اورمولاناشاہدصاحب کے ساتھ مولانامرحوم بھی شامل تھے اس موقع سے میں نے اپنی کتاب ’’نامے مرے نام ‘‘پیش کیا توکہنے لگے اس میں میراکوئی خط توہے ہی نہیں ، میں نے کہاکہ آپ نے لکھاہی کب؟ موبائل کی سہولت نے یہ موقع دیاہی نہیں ، اسی وقت ایک خط میرے نام لکھا جس میں میری سرگرمیوں کے حوالہ سے بڑے خوش کن اوروقیع کلمات تھے، وہ خط ’’نامے میرے نام‘‘ کی دوسری جلدمیں شامل ہے، لیکن ابھی کتاب طباعت کے مرحلہ سے نہیں گذری اورمولاناہم سے جداہوگئے ۔
اللہ تعالی مولانامرحوم کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند کرے پس ماندگان کوصبر جمیل عطافرمائے ، غم کی اس گھڑی میں ہم سب خانوادہ حسنی کے ساتھ ہیں اوراس غم کواپناغم محسوس کرتے ہیں رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں