آفتاب علم و حکمت مولاناکاکاسعید عمری ؒ کا انتقال ملت کا عظیم نقصان
ڈاکٹر سراج الدین ندوی ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور
ابھی(11مئی2024) ہم نے خبر پڑھی تھی اپنے رفیق زین العابدین منصوری صاحب کے سانحہ وفات کی ۔کچھ لمحوں بعدعبدالمتین صاحب( کینیڈا )کا واٹس اپ میسیج دیکھا کہ مولانا کاکا سعید عمری صاحب جیسی عظیم علمی شخصیت بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئی۔ کاکا سعید صاحب سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی ؟میرے ذہن میں یہ بات محفوظ نہیں رہی ۔البتہ جب بھی ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو مجھے ان سے مل کر بے پناہ خوشی ہوئی تھی ۔ان کے نام اور ان کے کاموں کی تفصیلات کا علم مجھے پہلے سے تھا ۔غالباً پچیس سال قبل میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔میں نے کئی بار سوچا کہ جامعہ دارالسلام عمر آباد جائوں اور وہاں قیام کرکے اس کے شب و روز کا مطالعہ کروں،مولاناکاکا سعیدعمری صاحب کی صحبت سے فیض اٹھائوں لیکن میری یہ تمنا دل ہی میں رہ گئی ۔ جامعہ دارالسلام سے کئی فارغین میرے مربی و محسن بھی ہیں اور کئی قریبی احباب بھی ۔جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری ؒ نے اسی ادارہ کی آغوش میں تربیت پائی تھی ۔تحریک اسلامی کے عظیم شاعر مولانا ابوالبیان حمادؔ مرحوم نے بھی اسی ادارے میں رہ کر عظیم دینی ،علمی اور ادبی خدمات انجام دی ہیں ۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔کسی دین و مذہب ،کسی مسلک و جماعت میں اس بارے میں اختلاف نہیں کہ ’’ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ‘‘۔جس نے ماں کی گود دیکھی ہے اس کو قبر کی گود بھی دیکھنا ہے ۔ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے وہ ایک دن مرجاتا ہے ۔لیکن کچھ لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں ۔ان کے زندہ رہنے کا ثبوت خود قرآن مجید میں موجود ہے ۔’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ،تمہیں ان کی زندگی کا احساس نہیں‘‘(البقرہ154)اللہ کی راہ میں مارے جانے کا مطلب یہی نہیں ہے کہ میدان جنگ میں کفار کی گولیوں سے ماراجائے ،بلکہ ہر وہ شخص جس کی ساری زندگی اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے میں گذری ہو ،جس کا ہر پل اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں بسر ہوا ہو ،جس کی صلاحیتیں دین کی تعلیم و تعلم میں صرف ہوئی ہوں ،اس کی موت چاہے جہاں آئے وہ راہ خدا میں ہے ۔ جناب کاکا سعید عمری ؒ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کی موت ’’ فی سبیل اللہ‘‘ ہوئی ہے ۔انھوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ایک مجاہد میدان جنگ میں کرتا ہے ۔ مرحوم نے دین اسلام کا علم حاصل کیا ،وہ اپنے خاندان کے پہلے عالم تھے ۔یہ ان کی والدہ کی تمنا تھی کہ کاکا سعید بڑے عالم بنیں ،انھوں نے سفر حج پر جاتے ہوئے تلقین کی تھی کہ سعید کا داخلہ جامعہ میں کرایا جائے ۔اللہ نے ان کی آرزو کو شرف قبولیت عطا کیا اور محمد سعید جامعہ دارالسلام عمرآباد سے فارغ ہو کر ’’مولاناکاکا محمد سعید عمری‘‘ ہوگئے۔آپ بچپن سے ہی شریف النفس تھے ۔تعلیم سے آپ کو محبت تھی ،کتابیں ہی آپ کی دوست تھیں ۔آپ کی محنت اور اساتذہ کی توجہ و شفقت نے آپ کی صلاحیتوں کو جلا بخشی اور آپ آسمان علم کے درخشندہ تارہ بن گئے ۔ آپ کی مادر علمی بھی جامعہ دارالسلام ہے اور دائرہ عمل بھی وہی ہے ۔جامعہ دارالسلام کا سنگ بنیاد آپ کے بڑے بھائی کاکا محمد عمر صاحب نے 1924میں رکھا تھا۔آج اس ادارے کو پورے سو سال ہوچکے ہیں ۔جامعہ کے قیام کا مقصد ایک ایسی تعلیمی فضا ہموار کرنا تھی جس کی بنیاد توحید خالص پر ہو ،جس میں اتحاد امت کے عناصر شامل ہوں اور جہاں سے دعوت و تبلیغ دین کی کرنیں پھوٹتی ہوں ۔آپ کے بھائی ایک تاجر تھے ،انھوں نے اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ادارہ کی توسیع و اشاعت کے لیے وقف کردیا تھا ۔ان کے خلوص کا نتیجہ ہے کہ آج جامعہ دارالسلام کا شمار ملک کی عظیم دانش گاہوں میں ہوتا ہے۔اس کے ہزاروں فارغین اللہ کے دین کی اشاعت و تبلیغ میں مصروف ہیں۔ مرحوم کاکا سعید عمری حصول علم سے فارغ ہوکر جامعہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے ۔خداد صلاحیت اور محنت شاقہ سے وہ بہت جلد اس کے منتظم بن گئے ۔ان کے دور نظامت میں جامعہ نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی ۔طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ہر سال جامعہ میں تعمیری کام ہوتا اس کے باوجود بھی جامعہ کی تنگ دامنی کی شکایت دور نہ ہوتی ۔دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر جامعہ کے نصاب تعلیم کو اپ ڈیٹ کیا جاتا رہا ۔جدید ذرائع سے استفادہ کرکے طالبان علم کو مستفیض کیا جاتا رہا ۔ جامعہ کے نصاب تعلیم کی دو خوبیاں سب سے نمایاں ہیں ۔یہ دونوں خوبیاں دراصل بانیان جامعہ کے اندر تھیں اور کاکا سعید عمری بھی ان خوبیوں سے مالامال تھے ۔اسی لیے یہ دونوں خوبیاں جامعہ کے نصاب میں بھی پائی جاتی ہیں ۔جامعہ کی پہلی خوبی ’’اعتدال‘‘ ہے ۔اس لیے اس کے ترجمان کا نام بھی ’’ ماہنامہ راہ اعتدال ‘‘ ہے ۔اعتدال کی صفت جامعہ کے رگ وپے میں موجود ہے ۔وہاں کے منتظمین کے مزاجوں میں ،وہاں کے اساتذہ کے لہجے میں ،وہاں کے طلبہ کے اطوار میں ،وہاں کی تعمیرات کے درو بست میں اعتدال پایا جاتا ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں مسلکی اعتبار سے مسلمان فرقوں میں تقسیم ہیں ۔ان کی جماعتیں فقہی مسلک کی بنیاد پر قائم ہیں ،ان کے مدارس کی شناخت فقہی منہج سے کی جاتی ہے ۔لیکن جامعہ دارالسلام تمام فقہاء و محدثین کی آراء کا احترام کرتا ہے ۔وہاں ہر طالب علم کو اپنے مسلک پر عمل کرنے کی آزادی ہے ،وہاں کے مدرسین کسی ایک فقہ کی برتری میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ طلبہ کو جملہ فقہاء کی رایوں سے آگاہ کرکے آزاد چھوڑ دیتے ہیں ۔اعتدال کی یہ کیفیت کاکا سعید عمری صاحب کے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ان کی چال میں ،ان کی گفتگو میں ،ان کی تدریس میںاور ان کے کردار میں اعتدال کی جھلک نمایاں تھی ۔ دوسری خوبی جو جامعہ کے ماحول اور نصاب میں پائی جاتی ہے وہ ’’دعوت دین کی تڑپ ‘‘ہے ۔وہاں کے فارغین صرف مولوی اور واعظ ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ دین کے داعی بھی ہوتے ہیں ۔جامعہ کے بانی کاکامحمد عمر مرحوم نے ابتداء سے ہی یہ کوشش کی تھی کہ یہاں سے اعلائے کلمۃ اللہ کا کام ہو۔ان کے بعدمولانا کاکامحمد سعید عمری مرحوم نے دعوت دین کے مشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔جامعہ میں باقاعدہ دعوت کا شعبہ قائم ہوا ۔نومسلموں کی تربیت کے لیے تربیت گاہ کا نظم بنایا گیا ۔دعوت کے موضوع پر محاضرات کرائے گئے ۔کچھ طلبہ کو خصوصی طور پر دعوتی کاموں کے لیے تیار کیا گیا ۔مرحوم خود بھی ایک داعی تھے اس لیے دعوتی شعبہ پر خصوصی توجہ فرماتے تھے ۔ جامعہ اور اس کے ذمہ داران ان دونوں خوبیوں کے تعلق سے ممتاز ہیں ۔شخصی حیثیت میں تو ملک میں بہت سے افراد ہیں جو دعوت کا کام کررہے ہیں یا دعوتی تڑپ رکھتے ہیں لیکن کسی دینی تعلیمی ادارہ کے تعلق سے جامعہ دارالسلام ملک کے ان دوچار اداروں میں شامل ہے جہاں دعوت کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ مولاناکاکاسعید عمری کے اندر ملت کو ’’ملت واحدہ ‘‘بنانے کا اضطراب پایا جاتا تھا ۔وہ تمام معروف ملی پلیٹ فارموں میں شامل تھے ۔اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے ممبر تھے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر تھے ۔ان کے علاوہ جب بھی انھیں اجتماعیت کی دعوت دی جاتی تو وہ لبیک کہتے ۔انھیں کسی جماعت اور مسلک سے بیر نہیں تھا۔ملک میں دین کا کام کرنے والی دینی شخصیات اور جماعتوں کا بھرپور تعاون کرتے تھے۔ ان کے مزاج میں ملک و ملت کے لیے خیر خواہی کا عنصر نمایاں تھا ۔خیر خواہی کا یہ جذبہ ان کے چہرے پر بھی صاف دیکھاجاسکتا تھا ۔وہ جس سے بھی ملتے اتنے تپاک سے ملتے کہ ملاقاتی کو غیریت و اجنبیت کا احساس نہیں ہوتاتھا۔ان کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے تھے ۔طلبہ کے بہت قریب رہتے تھے اس لیے وہ اپنے تمام شاگردوں کے دل میں بستے تھے ۔ ان کا انتقال (11مئی2024)ملت کا عظیم کا نقصان ہے ۔اس لیے کہ موجودہ دور میں ایسے دانشوروں اور ایسے فکر مندوں سے ملت محروم ہوتی جاری ہے جن کے مزاج میں توسع پایا جاتا ہو اور جن کا دل وحدت امت کے لیے تڑپتا ہو۔مرحوم کو سچا خراج عقیدت یہی ہے کہ ان کے مشن (دعوت دین اور وحدت امت) کو اپنا مشن بنایا جائے اور ہر سطح پر اعتدال کی راہ اختیار کی جائے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے ۔ان کے جلائے ہوئے چراغ کی روشنی کو عام فرمائے ۔آمین
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں