ناصرالدین مظاہری
سورج کےنکلنے اور ڈوبنے کا قدرتی نظام خدا معلوم کب سے جاری ہے لیکن یہ سورج نکلنے سے ڈوبنے تک خدا جانے کتنی غم ناک خبریں لے کر آتا جاتا رہاہے، رات کی تاریکیاں اور دن کے اجالے ان خبروں کی لمبی تاریخ رکھتی ہیں۔
تکیہ رائے بریلی کا حسنی خاندان حضرت شاہ علم اللہ اور حضرت سید احمد شہید سے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تک اور پھر ان سے اس خانوادہ کی تاریخ حضرت مولانا سید جعفر حسنی ندوی تک پہنچی، مجھے یاد نہیں ہے کہ اس خاندان کا کوئی فرد اتنی اچانک ہم سے اچک لیا گیا ہو، ویسے ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے اس نے جب تک چاہا خاندان کے آفتاب و ماہتاب کے ذریعے دین کی ترویج واشاعت کا عظیم الشان کام لیا ، مجھے نہیں معلوم کہ اکتیس دسمبر انیس سو ننانوے عیسوی میں اس خاندان کا سب عظیم آفتاب ماہتاب کیا ڈوبا کہ سیاروں کے ڈوبنے اور رخصت پذیر ہونے کا سلسلہ بڑی تیزی سے چل پڑا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حضرت مولانا واضح رشید ندوی، حضرت مولانا سید محموحسنی ندوی ،حضرت مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی وغیرہ کے علاوہ حضرت مولانا جعفر مسعود ندوی کی شکل میں جو چمکدار ستارہ تھا وہ بھی آج ڈوب گیا۔
میں ایک پروگرام میں تھا وہیں اچانک موبائل کی اسکرین پر یہ المناک خبر ابھر کر سامنے آگئی کہ مولانا جعفر مسعود ندوی کو ایک شراب میں دھت کارسوار نے پیچھے سے ٹکر ماردی اور مولانا موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔
ویسے حسنی خاندان میں شہادت کی بھی ایک تاریخ ہے ، خود حضرت حسن اور حضرت حسین رضہ اللہ عنہما سے ہی یہ زریں سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، اور پھر بالاکوٹ کے میدان میں آپ کے جد امجد حضرت سید احمد شہید نے آنے والی نسلوں کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اس کی نظیر اس ڈھائی سو سالہ دور میں ملنی مشکل ہے۔
میں غم کروں تو کس کا ؟ندوے کا ؟کہ وہ ایک بہترین دماغ سے محروم ہوگیا ، ابنائے ندوہ کا؟کہ وہ ایک بہترین مربی سے محروم ہوگئے، رابطہ ادب اسلامی کا کہ وہ ایک بیدار وبے داغ انسان سے محروم ہوگیا ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ؟ کہ وہ اپنے ایک ہمدرد و غمگسار سے محروم ہوگیا۔یا ندوہ کے دارالعلوم اور تحریک ندوہ کی سائیں سائیں کرتی اس تحریک کا جو زبان حال سے بچشم نم عامر عثمانی کی زبان میں گنگنارہی ہے۔
وہ ایک تارا جو ضوفگن تھا،حیات کے مغربی اُفق پر
سیاہیئ شب کے پاسبانو! خوشی مناؤ کہ وہ بھی ڈوبا
وہ اِک سفینہ جو ترجماں تھا،بہت سی غرقاب کشتیوں کا
ہماری حالت پہ ہنسنے والوں! ہنسی اُڑاؤ کہ وہ بھی ڈوبا
وہ ایک دل جو دمک رہا تھا،خلوص و ایماں کی تابشوں سے
خلوص و ایماں کے دشمنوں کو،خبر سناؤ کہ وہ بھی ڈوبا
میں مولانا کا شاگرد نہیں ، خوشہ چین نہیں ،کوئی براہ راست تعارف نہیں ، خاندانی رشتہ نہ روحانی سلسلہ، نہ علیک نہ سلیک لیکن یقین جانئے مولانا کی حیثیت میرے نزدیک گھنگھور گھٹاؤں میں ٹمٹماتے اس چراغ کی تھی جو ہواؤں کی تیزی کے باوجود ڈٹا ہوا تھا جما ہوا تھا اپنے پیش روؤں کی یاد تازہ کئے ہوئے تھا اپنے چچا زاد بھائی اور ناظم ندوۃ العلماء مولانا بلال عبدالحئی حسنی ندوی کو حوصلہ اور سہارا دئے ہوئے تھا۔آہ کس سے اظہار تعزیت کروں، مولانا بلال حسنی کو؟ سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ،ان کے اوپر کیا بیت رہی ہوگی۔سارے بڑے جاچکے ہیں جو دو ایک چھوٹے موجود تھے اور بڑوں نے انھیں بڑوں کی جگہ پر لابٹھایا تھا اور امید تھی کہ یہ دور تک دیر تک دینی خدمات انجام دے کر بڑوں کے خلا کو پر کریں گے لیکن یا اللہ ! آپ تو بے نیاز ہیں ، ہماری محدود سوچ تو دھری کی دھری رہی اور آپ کا فیصلہ آگیا اور ہم تمام پسماندگان کے درمیان فاصلہ کرگیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شیء عندہ باجل مسمی فلتصبر والتحتسب۔
(چودہ رجب المرجب چودہ سو چھیالیس ھجری بعد نماز عشاء