مولانا سمعان خلیفہ ندوی کے سفرناموں کا مجموعہ ’’ رہ نوردِ شوق ‘‘ کا اجرا مولانا سید بلال حسنی ندوی اور مولانا عمیر الصدیق ندوی کے ہاتھوں عمل میں آیا

بھٹکل (فکروخبر نیوز) جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے فارغین کے لیے جمعرات کی شب منعقد ہونے والی ایک خصوصی نشست میں استادِ جامعہ مولانا سمعان خلیفہ ندوی کے سفرناموں کا مجموعہ ’’رہ نوردِ شوق‘‘ کا باضابطہ اجرا مولانا سید بلال حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلماء لکھنو اور رفیق دار المصنفین مولانا عمیر الصدیق ندوی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ یہ سفرنامہ تقریبا چار سو صفحات پر مشتمل، افریقہ کے کئی ممالک نیز سرزمین چین ونیپال اور گجرات کے اسفار کی داستان اور ایک جامع اور روح پرور روداد ہے، جس میں وہاں کے دینی و سماجی حالات کی عکاسی کی ہے ، ساتھ ہی ساتھ وہاں کی دعوتی فضا، تعلیمی ضرورتوں اور امتِ مسلمہ کے فکری چیلنجز پر بھی گہرے اور بصیرت افروز تبصرے کیے ہیں خصوصاً سفرِافریقہ محض سیاحت نہیں بلکہ ایک دعوتی تجربہ تھا، جس نے انہیں اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ افریقہ کی سرزمین آج بھی ایمان، اخوت اور جذبۂ دین سے معمور ہے۔ انہوں نے مختلف ملکوں میں مدارس، دینی مراکز اور عام مسلمانوں سے ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے لوگ علم و دین کے پیاسے ہیں اور امت کے اہلِ علم و اہلِ خیر کی توجہ کے شدت سے منتظر ہیں۔’’رہ نوردِ شوق‘‘ محض ایک سفر کی داستان نہیں بلکہ ایک فکری دعوت ہے اور امت کے ہر طبقہ سے اپیل ہے کہ علم و ایمان کے چراغ دنیا کے ہر گوشے میں روشن رکھنے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
مولانا سید بلال حسنی ندوی اس سفر نامہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ’’ یہ کئی سفر ناموں کا مجموعہ ہے جو مختلف زمانوں میں کیے گئے اور مختلف ملکوں کی مسافتوں کو اس نے سمیٹ دیا۔ سفر نامۂ چین پہلے بھی شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اس میں عم مخدوم و معظم مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے دعائیہ کلمات بھی ہیں اور اس کے علاوہ ادیب و صحافی مولانا عمیر الصدیق ندوی در یابادی حفظہ اللہ کا بھرپور مقدمہ بھی۔ اگلے سفرنامے پر بھی مولانا عمیر صاحب نے دل کھول کر داد دی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ عزیز موصوف سفر کرتے رہیں اور ان حقائق سے پردے اٹھاتے رہیں جو بہت سی نظروں سے مخفی ہیں۔‘‘
مولانا عمیر الصدیق ندوی نے تبصرہ کرتے ہوئے اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ مولانا موصوف نے انہیں (مولانا سمعان صاحب کو) نوجوان ابن بطوطہ کے خطاب سے نوازتے ہوئے یہ تبصرہ کیا ہے ’’ چائنا میرے آگے ” میں مشاہدات و تاثرات پڑھنے کے بعد ایک احساس یہ قلم کی زبان پر آیا تھا کہ چین کے سفر میں نوجوان سیاح کے سامنے لطف ولذت اور حیرت و مسرت کی ایک فضا تھی جس کو آباد کرنے میں وہ اور اس کے قاری دونوں برابر کے شریک تھے۔ اس سیر نے کچھ اور کی طلب میں تڑپ پیدا کر دی۔ دل سے دعا اٹھی کہ عصر حاضر کے ہمارے نوجوان ابنِ بطوطہ کا ذوق دید و شنید پھر کسی ایسے مقام سے ہم کو آشنا کرادے، جو نظر کے ساتھ فکر اور حیرت کے ساتھ حسرت کا وہ آئینہ ہو جس میں اس معلوم دنیا میں انسانوں کی نامعلوم دنیاؤں کی دریافت کا مزہ ہو۔ جہاں ایسے انسانوں کے وجود کی خبر ملے جو لمحوں کو گرفت میں لانے سے حاصل ہوتی ہے۔ جو بتائے کہ سیاحت اور بنجارے پن کی ذمے داری ہوتی کیا ہے؟
آگے لکھتے ہیں ’’ اندھیروں میں روشنی کی کرنوں کی چاہت لیے اور اُس کے درد کا احساس ہی نہیں، درماں کی ہمت لیے ہوئے سیاحوں اور مسافروں کا افریقہ انتظار ہی کرتا رہا کہ کوئی تو ہو جو اُس کے اندرون کی پر اسراریت اور اُس کی سچائیوں کو جاننے اور سمجھنے کی ہمت رکھتا ہو اور اس ہمت کے لیے اُس کے دل کو دھڑکنے کا فن اور سلیقہ بھی آتا ہو۔
شاید یہ سوالات ہمارے اپنے تصورات ہی سے وابستہ ہوں لیکن یہ کہنے میں مبالغہ نہیں کہ یہ سارے تصورات یا آرزوئیں اُس وقت مجسم ہو گئیں جب ہمارے نوجوان ابن بطوطہ نے پہلی بار ۲۰۱۹ء میں افریقہ کے ملک تنزانیہ کا رخ کیا۔،،
واضح رہے کہ مذکورہ کتاب ادارہ ادبِ اطفال بھٹکل کے شعبۂ نشریات کی طرف سے منظر عام پر لائی گئی ہے۔

جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے طلبہ کے ترجمان ’’ الزھرہ‘‘ اور’’ ارمغانِ جامعہ ‘‘ کا عمل میں آیا اجرا۔

کرناٹکا : گیزر سے گیس لیکیج کے باعث دو بہنوں کی موت