محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک( قسط نمبر 01 )

آفتاب عالم دتگیر پٹیل کروشی

برِ صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تاریخ ایک ایسی روشن مینار کی مانند ہے جس کی روشنی میں موجودہ دور کامسلمان اپنے مستقبل کو سنوار سکتا ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ بر صغیر میں بسنے والے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دورِ ماضی کے واقعات سے نا آشنا ہے یا سرے سے اسے فراموش کرچکا ہے۔اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کے اُن تک وہ مواد ہی نہیں پہنچا ہو جو مسلمانوں کے شاندار دورِ حکومت کو بتلا سکے۔ محمد بن قاسم سے ہند و پاک بٹوارے تک'' یہ اسی ضمن کی ایک کوشش ہے جس میں قسط وار مسلمانوں کے شاندار ماضی کو بتلایا جائے گا۔زمانہ قدیم ہی سے عرب اور ہند کے درمیان تجارتی تعلقات تھے جو ایک لمبے عرصے تک قائم و دائم رہے، محمد بن قاسم سے قبل بھی برصغیر میں مسلمانوں کی آمد ہوتی رہی جس کا مختصر تذکرہ کرنا ضروری ہے۔

برصغیر پر عرب مسلمانوں کے حملوں کا آغاز

ایک روایت کے مطابق ہند پر مسلمانوں کی طرف سے فوج کشی کا آغاز رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و سلم کے وصال سے چار سال بعد ۵۱ھ میں ہوا، جب کے حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت عثمان بن ابوالعاص ثقفیؓ کو بحرین اور عمّان کا والی مقرر کرکے بھیجا۔ حضرت عثمان بن ابوالعاصؓ نے اپنے بھائی حضرت حکم بن ابوالعاصؓ کو ایک لشکر کا کماندار بنا کر ہندوستان کی ایک بندرگاہ ''تھانہ ''پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا۔ موجودہ جغرافیائی اعتبار سے یہ بندرگاہ ممبئی کے قریب تھی۔اب بھی اسے ایک چھوٹی سی بندرگاہ کی حیثت حاصل ہے۔ دیبل ایک مشہور تجارتی شہر تھا جو سندھ کے موجودہ شہر ٹھٹھ کے قریب واقع تھا۔ جب مسلمان اور غیر مسلم فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں میدان جنگ میں اتریں تو اسلامی فوج کے کمانڈر حضرت مغیرہ بن ابوالعاص نے تلوار میان سے نکالی اور بسم اللہ فی سبیل اللہ کا نعرہ لگا کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔عہدِ فاروقی میں بعض صحابہ کرام کرمان اور مکران کے علاقوں میں بھی وارد ہوئے، وہاں جنگیں لڑیں اور اس نواح کے بہت سے حصوں کو فتح کیا۔یہ علاقے اس وقت حدودِ سندھ میں واقع تھے۔وہاں دربارِ خلافت سے بعض صحابہ باقاعدہ والی اور گورنر مقرر ہو کر آتے رہے۔

چند غلط فہمیوں کا ازالہ 

محمد بن قاسم کے بارے میں چند غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔مشہور ہے کہ محمد بن قاسم رشتے میں حجاج بن یوسف کا حقیقی بھتیجا تھا یہ صحیح نہیں ہے وہ حقیقی بھتیجا نہیں تھا،دور کی رشتے داری میں بھتیجا ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ حجاج کی بیٹی زینب سے محمد بن قاسم کی شادی ہوئی تھی روایات سے یہ بات بھی پای? صحت کو نہیں پہنچتی۔
بعض مورخین کا کہنا ہے کہ محمد بن قاسم نے جب ہند اور سندھ کی طرف فاتحانہ پیش قدمی کی اس وقت اس کی عمر سولہ یا سترہ سال تھی، یہ قطعاً غلط ہے، ابن قیتبہ نے عیون الاخبار میں، یاقوت حموی نے معجم البلدان میں، بلا ذری نے قتوح البلدان میں اور دیگر مستند مورخین نے لکھا ہے کہ ۳۸ ؁ھ میں فارس اور شیراز کی ولایت اس کے سپرد کی گئی اور اس نے کردوں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔فتح سندھ اور ہند کا واقعہ اس سے دس سال بعد ۳۹ ؁ ھ میں ہوا۔ ۳۹ ؁ ھ میں اس کی عمر سترہ سال مان لی جائے تو ۳۸ ؁ ھ میں جب اس نے فارس کے علاقے زمام ولایت ہاتھ میں لی اور کردوں سے بر سر پیکار ہوا، اس کی عمر صرف سات سال تھی، اور یہ قطعاً غلط ہے۔ بعض شعراء نے اس کی بہادری اور شجاعت سے متاثر ہوکر اس کے محاسن اور مفاخر بیان کئے ہیں۔سندھ کے حملہ کے وقت محمد بن قاسم کی عمر ستائیس اٹھائیس سال تھی۔یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے چند سو فوجیوں کے ساتھ سندھ پر حملہ کیا تھا اس میں بھی کوئی سچائی نہیں، سندھ کے حملے کے وقت بری اور بحری فوج کی تعداد بیس ہزار تھی۔

محمد بن قاسم کا راجا داہر پر حملے کی وجہ

عرب کے چند مسلمان خاندان تجارت کی غرض سے سرندیپ (سری لنکا) میں زندگی بسر کر رہے تھے جب ان کے آبا و اجداد وفات پا گئے تو سری لنکا کے حکمران نے مسلمان عورتوں اور بچوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کا انتظام کیااور ان کا مال و اسباب کشتیوں میں لاد کر اپنے مخصوص سپاہیوں کے ساتھ انہیں روانہ کیا۔مسلمان عورتوں اور بچوں کے واپس اپنے ملک پہنچنے میں حاکمِ سیلون کا فائدہ تھا، چونکہ مسلمانوں کی فتوحات دن بدن بڑھتی جا رہی تھی اسے خوف تھا کہ کہیں مسلمان حملہ کرتے کرتے سری لنکا تک نہ پہنچ جائیں اور اس کی حکومت پر بھی قبضہ کریں، اسی ڈر کی وجہ سے حاکمِ سیلون نے عورتوں اور بچوں کے ساتھ حجاج بن یوسف اور عبدالملک بن مروان کے لئے قیمتی تحفے بھی دے کر بھیجے تھے۔مگر بد قسمتی ان کی کشتیاں طوفان کی وجہ سے سندھ کی بندرگاہ دیبل پہنچ گئی جہاں بحری ڈاکوؤں نے عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا اور ان کا سارا مال لوٹ لیا۔جہاز میں عرب کے قبیلے بنی یربوع کی ایک عورت بھی سوار تھی، جب جہاز کو لوٹا اور عورتوں کو گرفتار کیا گیا جا رہا تھا، اس عورت نے نہایت دردناک آواز میں حجاج بن یوسف کو پکارا ’’یا حجّاجاہ‘‘ یعنی ائے حجاج! تو کہاں ہے، ہماری مدد کو آ۔۔۔تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حجاج کو کسی نے اس پکار کے بارے میں بتایا تو اس نے جواب دیا! یا لبیّک۔! میں اپنی ان تمام فکری و عملی توانایؤں اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ حاضر ہوں۔
چونکہ یہ حادثہ راجاداہرکے علاقے میں پیش آیا تھا اس لئے حجاج بن یوسف نے راجا داہر کو پیغام بھیجا کہ ان بحری ڈاکوؤں کو سزا دی جائے مگر راجہ داہر نے اس بات سے انکار کیا۔اس جواب سے حجاج سخت ناراض ہوااور حملہ آوروں کو سبق سکھانے کے لئے یکے بعد دیگرے فوجی ٹکڑیاں روانہ کرتا گیا مگر ہر بار اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
کئی بار ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد حجاج نے ولید سے سندھ پر حملہ کرنے کی اجازت لی اس بار محمد بن قاسم کی زیر کمان فوج روانہ کی گئی، حجاج نے اس جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کی ضرورتوں کا ہر طرح سے خیال رکھا حتیٰ کے سوئی دھاگے کا بھی انتظام کیا تھا۔سندھ میں سرکہ نہیں ملتا تھا، اس لئے سرکے میں روٹیاں تر کر کے سائے میں خشک کی گئیں اور پھر سامانِ رسد میں نہایت احتیاط کے ساتھ رکھی گئی تاکہ فوجی میدانِ جنگ میں بھوک کے وقت پانی میں بھگو کر روٹی کھائیں تو اس میں سرکے کا ذائقہ محسوس ہو۔دیبل پہنچنے سے پہلے درمیان کے جتنے علاقے تھے ان سارے علاقوں کو محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا۔

محمد بن قاسم کا دیبل پر حملہ اور اور فتح

محمد بن قاسم کا اگلا نشانہ دیبل تھا جو کہ ایک بہت بڑا شہر تھااور ساحل سمندر پر واقع تھا،یہی وہ شہر تھاجہاں سے بحری ڈاکوؤں نے ان کشتیوں کو لوٹا تھا۔ ۳۹ ؁ ھ رمضان کے مبارک مہینے میں محمد بن قاسم نے اس شہر کی حدود میں قدم رکھا۔اس وقت محمد بن قاسم کی عمر اٹھائیس سال تھی۔اسلامی لشکر نے دیبل پہنچتے ہی شہر کا محاصرہ کرلیا اور ارد گرد خندق کھود ڈالی، یہ خندق حجاج بن یوسف کے حکم سے کھودی گئی تھی۔ فوج کے ساتھ ایک منجنیق تھی جس کا نام عروس تھا، یہ اتنی بڑی اور وزنی تھی کے اسے پانچ سو آدمی کھینچتے تھے اسے نہایت موزوں مقام پر نصب کیا گیا۔ دیبل شہر کے عین درمیان میں ایک بہت بڑا بت خانہ تھا، جس کی چھت پر بہت لمبا بانس کھڑا کیا گیا تھا،جس پر ایک بہت بڑا جھنڈا لہراتا تھا۔ جب زیادہ تیز ہوا چلتی تو وہ جھنڈا تمام شہر پر لہراتا تھااس پر اپنا سایہ ڈال دیتا تھا۔حجاج بن یوسف کا دھیان ہر وقت سندھ کے محازِ جنگ کی طرف رہتا تھا۔حجاج کا حکم تھا ہر تیسرے دن سندھ کی صورتِ حال اسے بتائی جائے۔ وہ عراق میں بیٹھا ہوا محمد بن قاسم کو جنگ کے سلسلے میں باقاعدہ ہدایت دیتا تھا۔جب حجاج کو بت خانے اور جھنڈے کے متعلق بتایا گیا تو اس نے جواب میں لکھ بھیجا کہ منجنیق عروس کو شہر دیبل کی جانب مشرق میں نصب کرو اس بات کا خاص طور سے خیال رکھو کہ اس کا دہانہ اوپر کی طرف ہو، منجنیق چلانے والے کو حجاج نے ہدایت کی کہ اس جھنڈے کو ہی نشانہ بنائے تاکہ باشندگانِ دیبل کے دلوں سے بت خانے کی شان و شوکت کا خیال بھی نکل جائے۔منجنیق چلائی گئی تو نشانہ ٹھیک لگا، گولے سے بت خانے کا لمبا بانس ٹوٹ گیا اور جھنڈا زمین بوس ہوگیا۔جب جھنڈا زمین پر گر گیا تو باشندگان دیبل پریشان اور نہایت غصے میں جنگ کے لئے نکل آئے مگر مسلمانوں کے زبردست حملے نے دیبل کے باشندوں کو دوبارہ شہر میں داخل کروادیا۔اسلامی فوج شہر کے اندر داخل ہونا چاہتی تھی مگر شہر کے اطراف بنی ہوئی مضبوط دیوار کی وجہ سے انہیں دشواری ہو رہی تھی۔آخر کار محمد بن قاسم نے فصیل پر لمبی لمبی سیڑیاں لگانے کا حکم دیا مسلمان فوج شہر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔تھوڑے سے عرصے میں دیبل فتح ہو گیا اور راجا داہر شہر چھوڑ کر بھاگ گیا۔اس جنگ میں شامل ہونے والے راجا داہر کے سپاہیوں اور مندر کے پچاریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیااور شہر میں مسجد کی تعمیر کی گئی اس فتح سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔اس شرم ناک شکست کے بعد راجا داہر حدودِ سندھ سے نکل کر راجا راسل کی راجھدانی ’’کچھ‘‘ کے مقام پر پہنچ گیا۔یہ علاقہ ہندوستان میں شامل تھا جو موجودہ دور میں گجرات کاٹیاواڑ کا حصہ ہے۔یہاں راجا داہر نے راجا راسل سے مل کر محمد بن قاسم سے بدلے کی پوری تیاری کر لی تھی۔چنانچہ محمد بن قاسم نے دریائے سندھ پر لکڑی کا پل بنا کر دریا پار کرکے اپنی فوج کا رخ راجا داہر کی طرف موڑ لیا۔اس زمانے میں جنگ کا ایک عجیب طرز رائج تھا جنگ کے دوران سب سے سرکش ہاتھی کی سونٹ پر خنجر باندھ دیا جاتا تھاجسے کٹارا کہا جاتا ہے، اور پوری سونٹ لوہے کی زر میں چھپا دی جاتی، ان ہاتھیوں کو ایسی تربیت دی جاتی تھی کے بیک وقت کئی کئی صفوں کا صفایا کردیتے تھے۔گرمی کا موسم تھا راجا داہر کا ہاتھی پیاس کی وجہ سے بے قابو ہوگیا جس کی وجہ سے داہر کو ہاتھی سے اتر کر لڑنا پڑا، مگر یہاں بھی راجا داہر کی بد قسمتی نے ساتھ نہ چھوڑا،مسلمانوں کی طرف سے ہونے والے وار کو داہر اور راسل کے فوجی برداشت نہ کر پائے اور میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگنے لگے اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر راجا داہر کا سر تن سے جدا کیا گیا۔وہاں عراق میں حجاج سندھ کے حالات جاننے کے لئے بے قرار تھا آخر کار داہر کے کٹے ہوئے سر کو حجاج کی خدمت میں بھیجا گیا۔اس طرح محمد بن قاسم کی رہنمائی میں ایک عظیم جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔محمد بن قاسم نے نہ صرف دیبل اور گجرات کا علاقہ فتح کیا بلکہ الوریا، ارور، برہمن آباد، ملتان، کھیڑا کے علاقوں کی فتح بھی محمد بن قاسم کے نام آئی۔

محمد بن قاسم کی گرفتاری اور موت

برصغیر میں محمد بن قاسم نے بڑی ہی بہادری دلیری کے ساتھ انتظامی امور کو سنبھالا۔ ۵۹ ؁ ھ کے ماہ رمضان میں حجاج بن یوسف نے وفات پائی، ۶۹ ؁ ھ میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے انتقال کیاجس کے دور خلافت میں محمد بن قاسم کو سر زمین ہند پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ولید کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک تخت نشین ہوا۔اسے حجاج اور اس کے چنے ہوئے جرنیلوں سے خاصی دشمنی تھی، سلیمان بن عبدالملک کا یہ نہایت ہی برا فعل تھا اس نے محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور اسے قتل کروایا گیا۔فاتح سندھ کی زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لئے بجھ گیا، حکمرانوں کی تاریخ ہمیشہ تلوار کے قلم اور خون کی سیاہی سے لکھی جاتی ہے۔

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:30؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

«
»

جنگ احد کے بعدمسلمان تلواروں کے سایہ میں۔

آج نہیں تو کل سچائی سامنے آئے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے