مودی سرکار گائے کے گوشت پر پابندی کیوں نہیں لگاتی؟

اہم سوال یہ بھی ہے کہ مرکز اور ملک کے بیشتر ریاستوں میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ اس پر پابندی کیوں نہیں عائد کرتی؟ اس میں ہمت ہے تو گائے، بیل، بھینس کے گوشت پرمکمل پابندی عائد کرے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ اسی گوشت کو اکسپورٹ کرکے حکومت اربوں ڈالر کماتی ہے اور زرمبادلہ پاتی ہے۔ ریڈ میٹ کے تاجروں میں سنگیت سوم جیسے بی جے پی کے لیڈران شامل ہیں اور ان کی عیش وعشرت اسی کی مرہون منت ہے۔ خود مودی سرکار کے وزیروں میں سے ایک کرن رجیجو کہہ چکے ہیں کہ وہ بیف کھاتے ہیں، کوئی روک سکتا ہے تو روک لے، ایسے میں ریڈ میٹ پر پابندی نہ لگاکر حکومت سیاست کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتی ہے۔ 
ہندو بھی کھاتے ہیں بیف
بھارت میں مسلمانوں کی طرف سے گؤ کشی پر کبھی اصرار نہیں کیا گیا اور یہاں گائے کا گوشت کھانے والوں میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی، دلت، آدیباسی قبائیلی اور بعض دوسرے ہندو بھی بیف کھاتے ہیں۔ نارتھ ایسٹ کی ریاستوں آسام، میزورم ، ناگالینڈ، منی پور، تری پورہ، سکم وغیرہ میں بیف کھانا عام بات ہے۔ کیرل میں بھی بیف کھانے والے بڑی تعداد میں ہیں۔ مغربی بنگال میں غیرمسلموں کی ایک بڑی تعداد بیف کھاتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا صر ف اور صرف سیاست کا حصہ ہے۔حالانکہ بہف پر پابندی کی مخالفت کرنے والوں میں کئی ہندو شامل ہیں۔ مہاراشٹر میں اس کے لئے تحریک چلا رہے ہیں دلت لیڈر رام داس اٹھاولے۔ اداکار رشی کپور نے بھی بیباکی سے اپنی بات رکھی ہے۔ سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے بھی بیف خوری کا اعتراف کرکے سب و چونکا دیا ہے۔ کاٹجو نے گؤ کشی پر پابندی کی مخالفت کی ہے اور اسے غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ پابندی کا مطالبہ صرف سیاسی ہے۔ کاٹجو نے اپنے بلاگ میں گو کشی پر پابندی کی مخالفت میں پانچ دلیل دی
ہیں۔نھوں نے لکھا ہے کہ یہ سستے پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں بیف کی فروخت پر پابندی نہیں ہے۔ ناگالینڈ، میزورم، تریپورہ اور کیرالہ میں بیف کی فروخت پر پابندی نہیں ہے۔ان کا ماننا ہے کہ بیف پر پابندی سے دنیا کو ہم پر ہنسنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح کی پابندی سے ہماری جاگیردارانہ سوچ کا پتہ چلتا ہے۔گوکشی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ان گایوں کی پرواہ کرنی چاہئے، جنہیں ٹھیک سے کھانا نہیں ملتا ہے۔کئی بار میں نے گایوں کو ڑے کچڑے کے ڈھیر سے کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے بھی بیف کھایا ہے. لیکن اپنے خاندان کے لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے نہیں کھاتا ہوں لیکن موقع ملنے پر میں ضرور کھاؤنگا۔دنیا میں زیادہ تر لوگ بیف کھاتے ہیں۔کیا وہ تمام لوگ گنہگار ہیں؟مجھے بیف کھانے میں کچھ غلط نہیں لگتا ہے
160 فلم ساز مکیش بھٹ نے گو کشی کو لے کر حکومت پر تیکھاتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت لوگوں کو نہ بتائے کی وہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔انسان جو چاہے وہ کھانے کے لئے آزاد ہے۔ فلم ڈائریکٹر نے ٹوئٹر پر لکھا، بیف پر پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ میں کیا کھاؤں یہ حکومت طے نہیں کر سکتی۔لگتا ہے کہ ہندوستان کا جمہوری آئین تنوع میں یقینی نہیں کرتا۔بیف پر پابندی اس مایوس کن ہے۔ اداکار رشی کپور کا بھی کہنا ہے کہ میں ہندو ہوں اور بیف کھاتا ہوں۔ کھانا میری اپنی پسند ہے۔ اداکار فرحان اختر، ایوشمان کھرانا اور اداکارہ رچا چڈھا بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو بیف کھاتے ہیں اور اس پر پابندی کو پسند نہیں کرتے۔ 
بیف کے حامی امبیڈکر کو پاکستان بھیجیں گے؟
آئین ہند کے معمارڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو ان دنوں بی جے پی ہائی جیک کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔حالانکہ وہ کانگریس کے لیڈر تھے اور بیف کے حامی تھے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک مضمون ’’کیا ہندوؤں نے کبھی بیف نہیں کھایا؟‘‘ موجود ہے جو ان کی کتاب ’’اچھوت کون تھے اور وہ اچھوت کیوں بنے؟‘‘ میں ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر امبیڈکرویدوں کے حوالے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وید کال میں ہندو بیف کھاتے تھے ۔امبیڈکر نے قدیم دور میں ہندوؤں کے بیف کھانے کی بات کو ثابت کرنے کے لئے ہندو اور بودھ مذہبی کتابوں کا سہارا لیاہے۔ان کے مطابق، گائے کو مقدس مانے جانے سے پہلے گائے کو مارا جاتا تھا۔ تحقیق کی بنیاد پر امبیڈکر نے لکھا کہ ایک وقت ہندو گایوں کو مارا کرتے تھے اور بیف کھایا کرتے تھے جو بدھ مت کے ذرائع میں دیے گئے یشتھ کے رپورٹس سے صاف ہے۔ امبیڈکر لکھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کر سکتا کہ ایک وقت ایسا تھا جب ہندو، برہمن اور غیر برہمن دونوں تھے، جونہ صرف گوشت بلکہ بیف بھی کھاتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر بیف کے حامی تھے اور اس کے باوجود بی جے پی ان دنوں انھیں اپنا آئی کان بنانے میں لگی ہوئی ہے کہ صرف اس لئے کہ دلتوں کا ووٹ حاصل کیا جاسکے۔اب کیا مختار عباس نقوی انھیں بھی پاکستان بھیجنے کی بات کریں گے؟
بیف اکسپورٹ پر پابندی ؟
بھارت میں کؤ کشی کے الزام مسلمانوں پر لگائے جاتے ہیں مگربیف اکسپورٹ کرنے والی بیشتر کمپنیوں کے مالک غیر مسلمان ہیں اور سالانہ ہزاروں گایوں کو ذبح کرکے ان کے گوشت بیرون ملک بھیجتی ہیں۔ اس سلسلے میں دوارکا پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی نے مرکز کی مودی حکومت سے بیف کی برآمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے گوکشی قانون کو پورے ملک میں نافذ کرنے کا حکومت پر زور دیا ہے۔ اس معاملے میں شنکراچاریہ نے مہاراشٹر حکومت کے اقدامات کی تعریف کی۔انہوں نے گونش پابندی قانون کا دائر بڑھا کر اس میں سانڈوں اور بیلوں کو بھی شامل کرنے کے ریاستی حکومت کے اقدامات کے لئے فرنویس حکومت کو مبارکباد دی ۔شنکرآچاریہ کا کہنا تھا کہ ہندو اکثریتی قوم ہونے کے باوجود بھارت بیف کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔یہ شرم کی بات ہے۔برآمد فورا بند ہونا چاہئے۔ہمیں ہر قیمت پر گورکشا کرنی چاہئے۔حالانکہ ایک نئے معاہدے کے تحت بھارت سے روس کے لئے بھینسے کے گوشت کا برآمد شروع ہو گیا ہے، جبکہ دودھ سے بنی دیگر مصنوعات کا بھی برآمد جلد شروع ہو جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ صدر پرنب مکھرجی اور روس کے صدر بلادمر پوٹن کی موجودگی میں ہوا تھا۔
مسلم عہد حکومت میں بھارت میں گؤ کشی پر سخت پابندی تھی ۔مغل بادشاہوں نے اس کی کبھی اجازت نہیں دی۔بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی تھی کہ ہندو جنتا کو خوش رکھنے کے لئے گؤ کشی پر پابندی عائد رکھے۔ اکبر کے دور میں بعض اعلیٰ افسران اور جاگیرداروں کو گؤ کشی کے جرم میں سخت سزائیں دی گئی تھیں۔ دلی میں ’’غدر‘‘ کے دوران جب فاقہ کشی کی نوبت آچکی تھی تب بھی بہادر شاہ ظفر نے گوکشی کی اجازت نہیں دی تھی۔ اصل میں یہ معاملہ مسلمانوں سے جڑا ہوا نہ تو پہلے کبھی تھا اور نہ اب ہے۔ آج یہ ملک کی معیشت سے جڑا ہو امسئلہ ہے جسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے۔

«
»

دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے آخر کون۰۰۰؟

موہن بھاگوت: ہوئے تم دوست جس کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے