یوں بھی دیکھا جائے تو ہمارے یہاں سیاسی ڈائیلاگ اورانتخابی تقریروں کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ اس پر گرفت ہونی چاہئے۔ مودی صاحب بھی جو زبان بولتے ہیں وہ وزیراعظم کے منصب کے وقار کے منافی ہوتی ہے۔ لیکن راہل کو اپنے خاندانی وقار کے ساتھ یہ خیال بھی رکھنا چاہئے کہ مودی بہرحال وزیراعظم ہیں۔دنیا اس ملک کے بارے میں کیا رائے قائم کریگی جس کے وزیراعظم کواس ملک کا لیڈر’جھوٹا‘ کہتا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ مودی جی نے عوام کو مغالطہ دیا۔ ان کو اچھے دنوں کے خواب دکھائے۔جبکہ عمل الٹا ہورہا ہے۔ کہا تھا منگائی کم کردیں گے۔ مگر اس میں بے تحاشا اضافہ ہوتاجاتا ہے اوروہ بھی مصنوعی ہتھ کنڈوں سے۔ عالمی منڈی میں کچے تیل کی قیمتیں 110ڈالر فی بیرل سے گر کر 48ڈالر تک آگئی ہیں، مگر ہمارے ملک میں اس کو خاص اثردکھائی نہیں دیا۔ دالیں جو 55-50روپیہ کلو تھیں اب 200کے پارپہنچ گئی ہیں۔ یہی حال آٹے اورچاول کا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہارکی انتخابی مہم میں ان عوامی موضوعات کے بجائے جادوٹونا، گائے وغیرہ ادھر ادھر کی لچرباتیں ہورہی ہیں۔ راہل بھی روایت سے ہٹ کراسی رنگ میں رنگتے جاتے ہیں، حالانکہ گالی کا جواب گالی نہیں۔ لیڈروں کا یہ حال ہے تو عوام کا کیا ہوگا؟ یہ سوشل میڈیا پر جاکردیکھ لیجئے۔ مودی جی کے حمائتی ہوں یا مخالف ان کی زبان قابو میں نہیں۔
زبان قابو میں لیڈروں کی بھی نہیں رہتی ،ورنہ دلت بچوں کو زندہ جلائے جانے اور ان کی ماں کو موت کے منھ میں دھکیل دینے کے سنگین جرم کو مرکزی وزیر باتدبیر ’کتے کے پلے کو ڈلا ماردینے‘ سے تشبیہ نہیں دیتے۔ مودی جی نے لوک سبھا چناؤ سے قبل گجرات میں مارے گئے اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو ’کتے کے پلے ‘ سے تعبیر کیا تھا اوران کے وزیرصاحب نے ہریجنوں کو۔ اقلیت فرقہ کے افراداوردلتوں کے ظلم رسیدہ بچوں کے ذکر کے ساتھ اگر بھاجپا لیڈروں کو کتے کے پلے یاد آتے ہیں تو یہ کوئی اتفاقی امر نہیں۔ زبان وہی بولتی ہے جو ذہن میں رچا بسا ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی پوری فلاسفی ہی ذات برادری اورمذہبی تفریق ومنافرت پر قائم ہے۔اس لئے سارے انسان ان کو انسان نظرنہیں آتے، دبے کچلے اورمحروم طبقے کتے کے پلے نظرآتے ہیں۔
یاد کیجئے وہ وقت جب پورا ہندستان انگریزوں کے خلاف لام بند تھا۔ ہندو اور مسلمان سب نے گاندھی جی کواپنا قائد مان لیا تھا۔ ڈاکٹربھیم راؤ امبیدکر پوری طاقت سے ہریجنوں اوردلتوں کے حقوق کی آواز اٹھارہے تھے۔ گاندھی جی بھی ان کے موئد بن گئے اور ’ذات پات‘ کے نظام کے تحت ہزاروں سال سے دبے کچلے طبقے کو جب انہوں نے ہریجن کا نام دیا، چھوت چھات کے خلاف آواز اٹھائی اور اونچ نیچ کے خلاف ملک میں ماحول بننے لگا تواس ماحول میں آرایس ایس کاجو جنم ہوا اس کا مقصد کیا تھا؟ فرقہ ورانہ ہم آہنگی اورذات برادری کی برابری کا نظریہ اگر بھاتا تووہ بھی اسی رو میں شامل ہوجاتے جو ملک میں چل پڑی تھی۔ مگر ان کو اس نظام میں خطرہ نظرآیا۔ اس لئے الگ تنظیم کھڑی کرلی جس کا مقصود زمانہ قدیم کی اس ہندوکلچر کا احیاء اورحفاظت ہے جس میں برہمن سب سے اوپر اورشودر سب سے نیچے ہوتا تھا۔
آرایس ایس کا قیام 1925میں ہوا۔ اس کے بانی سربراہ ڈاکٹرہیڈگوار کا انتقال تو 1940میں ہوگیا۔ ان کے بعد 33سال تک مادھو سداشیو گولوالکر جی سرسنگھ چالک رہے ،جن کو سنگھی اپنا گرومانتے اور گروجی ہی پکارتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انتقال سے صرف چارسال پہلے 1969میں ایک مراٹھی روزنامہ ’نواکال‘ کو ایک انٹرویو میں قدیم زمانے کی ’ورن ویوستھا ‘ کی تعریف کی تھی۔ اس نظریہ کے تحت سماج کو چار طبقوں برہمن، اکشتریہ، ویشہ اورشودر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وشنو پران باب 1 :کھنڈ 6کے مطابق برہمن برہما جی کے سرسے پیدا ہوئے۔ ان کو مقام الوہیت حاصل ہے۔ سینے سے اکشترتیہ پیدا ہوئے ۔ ان کو راجاکا مقام ملا۔ کولہوں سے ویشیہ پیدا ہوئے، وہ تاجر ہوئے اورقدموں سے شودر پیدا ہوئے ۔ان کا کام پورے سماج خصوصاً برہمنوں کی خدمت کرنا ہے۔ گویا ہندونظریہ کے مطابق ذاتوں کی یہ تقسیم ابدی ہے اورمنجانب خالق ہے اور بافضیلت ہے۔ اس انٹرویو میں گروجی نے ’منواسمرتی‘ کی بھی تعریف کی جو اس ورن ویوستھا کے نظام کو چلانے کا منشورہے۔ جس کے مطابق شودر کو دولت رکھنے کی اجازت نہیں۔تینوں اعلا ذات کا کوئی بھی مرد ان کی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شودر دیگر ذات کی عورت کے ساتھ گستاخی کربیٹھا توسخت سزاکا مستحق ہوگا۔ برہمن کو یہ حق بھی ہے کہ اس کی دولت چھین لے۔
چارطبقوں پر قائم اس نظام کی تائید بھگوت گیتا بھی کرتی ہے (باب4: اشلوک 13) جس کومحترمہ سشما سوراج ’مقدس قومی کتاب‘کا درجہ دلوانا چاہتی ہیں اورسنگھی یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں گیتا کو اسکولوں میں پڑھایا جائے۔
آزادی کی تحریک کے دوران جب نئے ہندوستان کے خدوخال ابھررہے تھے اور نظام حکمرانی میں سیکولر جمہوریت کے آثار نمایاں ہورہے تھے، جس کے تحت سب شہریوں کا درجہ برابر تھا، دھرم اور ذات کی بنیاد پر تفریق ممکن نہیں تھی، آخر ایسی تحریک کی کیوں ضرورت پڑی جو قدیم کلچر اورنظام کو قائم کرنے کی دہائی دیتی ہے؟ اس ہندو تحریک کے قائدین نے اس تحریک آزادی میں جو ملک کو ایک نئے نظام کی طرف لے جارہی تھی، حصہ نہیں لیا اور اپنے لئے الگ راہ کیوں نکالی؟ کیوں ہٹلر کی عظمت کے گن گائے؟کیوں صہیونی اچھے لگتے ہیں؟ اسی لئے نا کہ وہ ذات پرستی اوراس کی بنیاد پر زورزبردستی کے نظریہ کے علمبردار ہیں۔ان چیزوں کو سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ پتہ چلے ٹکڑاؤ کن دو نظریوں کے درمیان ہورہا ہے اوراس کا ہمارے لئے کیا مطلب ہے؟
آرایس ایس کی قیادت اورسیادت پر برہمنوں کو کنٹرول حاصل ہے۔ البتہ یہ حیرت کی بات ہے جب مرکز میں اقتدار پراس کو اختیارحاصل ہوا تو وزیراعظم نریندر مودی کو بنایاگیا۔ حالانکہ مودی جی خود کو پسماندہ ذات کا فرد بتاتے ہیں۔ یہ بات عین ممکن ہے کہ ان کے پرکھوں نے مہنتائی کے بجائے کوئی ایسا پیشہ اختیارکرلیا ہو جس سے ا ن کو غیربرہمن سمجھاجانے لگا ہو۔ مودی جی ہرمعاملہ میں ڈی این اے تلاش کرتے ہیں۔ کیا حرج ہے کہ ان کے سلسلہ نسب کا تعین کرنے کے لئے بھی ڈی این اے ہو جائے؟ بہرحال ہوں وہ کسی بھی ذات اوربرادری سے، بولی تو وہی بولتے ہیں آرایس ایس کے برہمن بولتے ہیں۔
انہوں نے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ بڑے ہی زوردار طریقے سے لگایا تھا۔ ابھی اسی اتوار کو اپنی ریڈیو تقریر ’’من کی بات‘ ‘ میں انہوں نے کہا ہندستانی معاشرہ بڑا رنگارنگ ہے۔ بہت سے فرقے ہیں، ذات برادریاں ہیں، زبانیں ہیں۔ یہ رنگا رنگی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ ہمیں امن واتحاد اور خیرسگالی کے ساتھ رہنا چاہئے ۔ اس کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں۔‘‘
ان کی یہ بات سن کر اچھا لگا۔ لیکن دوسرے ہی دن ان کی زبان پر وہ بات آگئی جو ان کے دل کی مراد ہے۔ 26اکتوبر، بروزپیر بکسر میں ایک چناؤریلی کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ہندددلت اورپسماندہ طبقون کو غریب مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی چال چلی۔ انہوں نے کہا ’’سونیا، لالواورنتیش دلتوں کے ریزرویشن میں سے پانچ فیصد کاٹ کر دیگر فرقے کے لوگوں کو دینا چاہتے ہیں۔ میں یہ ہونے نہیں دونگا۔‘‘ ان کی اس تقریر نے سب کے وکاس اورفرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لئے ان کے دعووں کی پول کھول دی ہے۔
ارن شوری نے کیا کہا؟
باجپئی کابینہ میں اہم وزیر اورصحافی ارن شوری نے مودی سرکارکی خبرلیتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ یقین پختہ ترہورہا ہے کہ موجودہ سرکار کے لئے اقتصادی بندوبست کا مطلب سرخیوں کا بندوبست کرنا اورخود کچھ نہیں کرنا ہے۔سرکارانہی پالیسوں پر گامز ن ہے جو ڈاکٹرمن موہن سنگھ سے اس کو ملی ہیں۔ عوام سوا سال میں ہی ڈاکٹرمن موہن سنگھ کو یاد کرنے لگے ہیں۔ مودی کی سیاست گائے اورکانگریس تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔‘‘
مسٹرشوری کا یہ تبصرہ حقیقت کا مظہر ہے۔ مودی جو کہتے تھے وہ کیا نہیں جارہا ، بلکہ دائیں بائیں سے سنگھی نظریہ کو نافذ کیا جارہا ہے۔ زیادہ دیر نہیں لگے گی جو ریزرویشن کے پیمانے بھی بدلیں گے جن کا تجربہ وسنھدراراجے سندھیا نے راجستھان میں شروع کردیا ہے۔ مسٹری شوری نے مہذب انداز میں دانائی کے ساتھ جو کچھ کہا وہ اس سے کہیں سخت ہے جو راہل گاندھی نے کیا ہے۔
جواب دیں