یہاں کے حالات کو اگر غور سے دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ پنجاب ایک بار پھر آتش فشاں کے دہانے پر ہے۔ ایک بار پھر یہاں بدامنی کی آگ لگنے والی ہے۔ ایک بار پھر خالصتانی کی تحریک زور پکڑنے والی ہے۔ وہ چنگاری جو اب تک راکھ کی ڈھیڑ میں دبی ہے،ایک بار پھر شعلہ بننے والی ہے۔
گروگرنتھ صاحب کی توہین کے واقعات
پچھلے دنوں پنجاب میں ایک مدت کے بعد کرفیوکا نفاذ ہواکیونکہ گرو گرنتھ صاحب کی بے ادبی کے واقعہ کے بعد پنجاب میں حالات دھماکہ خیز ہوگئے اور احتجاج کا سلسلہ بڑھ گیا۔کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کرنا پڑا اور امرتسر، لدھیانہ، جالندھر اور ترن تارن میں مرکزی سیکورٹی فورس تعینات کرنے کی نوبت آگئی۔اسی کے ساتھ ہی امرتسر میں فوج نے فلیگ مارچ بھی کیا ۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں ان کی فوری گرفتاری ہو۔ گزشتہ دنوں فریدکوٹ میں اس معاملے میں بھیڑ پر پولیس کی فائرنگ میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے پورے معاملے کی معلومات لی ۔ وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل نے کابینہ کی ہنگامی میٹنگ بلائی ۔بی جے پی اور شرومنی اکالی دل کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے تاکہ پنجاب میں بدامنی کا ماحول پیدا ہو۔ وزیر اعلی بادل نے کہا کہ پنجاب میں بدامنی کے پیچھے کچھ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔
پنجاب میں تشدد ، کشیدگی اور بگڑتی صورت حال کے لئے پولیس اور حکومت نے اپنی بلا ٹالتے ہوئے اس میں غیر ملکی طاقتوں
کا ہاتھ بتادیا ہے۔ پنجاب پولیس نے دعوی کیا ہے کہ سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کرنے میں بیرون ملک سے فنڈنگ ہوئی تھی اور اس کے پختہ ثبوت ملے ہیں۔
خالصتانی تحریک کی آہٹ
ابھی کچھ دن قبل پنجاب میں دہشت گردانہ حملے بھی ہوچکے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے۔ بھارتی سرکار کا ماننا ہے کہ انھیں پاکستانی خفیہ ایجنسی کی حمایت حاصل تھی، اسی کے ساتھ یہ سوال اٹھنا بھی لازمی ہے کہ وہ بھارت میں کسی شہہ کے بغیر کیسے آسکتے ہیں؟ کیا کوئی انڈین ان کی مدد کر رہاتھا؟ اور کیا اس حملے کے پیچھے خالصتانی تحریک کی کچھ آہٹ بھی ہے؟ اصل میں پنجاب ایک مدت سے پرسکون ہے مگر یہ سکون کسی بڑے طوفان کے پیش خیمہ جیسا ہے۔ یہاں ایک مدت تک بد امنی رہی ہے اور خالصتان کی تحریک چلتی رہی ہے مگر حکومت کے سخت رویہ کے سبب کسی طرح اس پر قابو پایا گیا۔ اس کے لئے ملک نے بہت سی قربانیاں بھی دیں۔ فی الحال پنجاب کے حالات بہت خوش آئند نہیں لگتے۔ عوام میں بڑے پیمانے پر مایوسی ہے۔ ریاستی حکومت سے یہاں کے باشندے نالاں ہیں۔ بے کاری اور بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور پریشان حال نوجوان نشیلی دواؤں میں خود کو ڈبونے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس وقت ریاست میں نشے کے عادی نوجوانوں کی تعداد اس کثرت سے بڑھ رہی ہے کہ منشیات کا دھندہ سب سے منافع بخش کام ہوگیا ہے اور الزام ہے ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے افراد اس کالے کاروبار میں ملوث ہیں۔ نئی نسل میں بڑھتی مایوسی خالصتان کے لئے سازگارماحول فراہم کررہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھنڈراں والا کو ایک بار پھر مقبولیت مل رہی ہے، نوجوانوں میں اس کی تصویر والی شرٹ بے حد مقبول ہے اور گھروں میں اس کے کلینڈر نظر آنے لگے ہیں۔یہ علاحدگی پسند شخص تھا جس کو حکومت نے آپریشن بلیو اسٹار کے دوران دہشت گرد کہہ کر مارڈالا تھا مگر آج ایسا لگتا ہے کہ اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ امرتسر میں اس کا مجسمہ نصب کیا جارہاہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان ، خالصتان کی آگ میں پٹرول ڈالنے کا کام کرتا ہے اور کشمیر میں منہ کی کھانے کے بعد وہایک بار پھر خالصتان کی تحریک کو زندہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کے لئے سازگار ماحول ہم ہی فراہم کر رہے ہیں۔ ایسے میں گرداس پور کے آتنکی حملہ کو خالصتان سے الگ کرکے دیکھنا شتر مرغ کے ریت میں سر چھپانے جیسا ہے۔بھارت سرکار، پنجاب سرکار اور پولس و جانچ ایجنسیاں اب تک ایسے بیانات دے رہی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔
کیا وہ خالصتان نواز تھا؟
دہشت گرد انہ حملے کی تحقیقات میں مصروف پولیس کے ہاتھ ایسے اہم سراغ لگے ہیں، جن سے واضح ہے کہ پنجاب کو دہلانے کے پیچھے کسی بھارتی کا بھی ہاتھ ہے۔ اب تک کی تفتیش سے لگ رہا ہے کہ کسی مقامی شخص نے دہشت گردوں کی مدد کی تھی۔ اس سے متعلق بہت سے پختہ ثبوت پولیس کو مل چکے ہیں۔ان کی بنیاد پر اب پولیس نے تحقیقات کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔ ریلوے
پولیس نے 2004 میں ریل ٹریک پر ہوئے دھماکے کی کیس فائل نکلوا کر تحقیقات شروع کر دی ہے۔پولیس نے خانہ بدوش گجروں کے خیمہ میں رہنے والے تمام لوگوں کے موبائل نمبر لے کر ان کی کال ڈیٹیل اور لوکیشن کی جانچ شروع کر دی ہے۔ڈی جی پی سمیدھ سینی کا کہنا ہے کہ ابھی معاملے کی جانچ چل رہی ہے، کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگی۔ ہماری کئی ٹیمیں مختلف تھیوری سے ورک کر رہی ہیں اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان دہشت گردوں کی مدد کسی نے کی ہے۔سینی کا بیان بہت کچھ اشارے دے رہا ہے۔ مگرکیا ہم یہاں یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ جس شخص نے پنجاب میں ان دہشت گردوں کی مدد کی اس کا تعلق کسی خالصتان نواز گروپ سے ہے؟ ظاہر ہے اس سوال کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اب اگر ایک بار پھر اس ملک میں الگ خالصتان کی تحریک زور پکڑتی ہے تو یہ ملک کے لئے بدقسمتی کی بات ہوگی کیونکہ اسے بہت مشکل سے دبایا گیا ہے اور اس کے لئے ملک نے بہت سی قربانیاں دی تھیں۔
ایک بار پھر ’’خالصتانی‘‘ خطرے کی گھنٹی
کیا ایک بار پھر ’’خالصتان‘‘ کا بھوت بوتل سے باہر آئے گا؟ کیا پھر علاحدگی پسندی کی تحریک شروع ہوگی؟ کیا ایک بار پھر پنجاب میں آگ لگنے والی ہے؟کیا پھر ملک کو ٹوڑنے کی کوشش ہوگی؟اس قسم کے سوالات کی معونیت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ سکھوں کے ایک طبقے کے اندر بھنڈراں والا کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔اسے سنت و مہاتما کا درجہ دیا جارہا ہے اور ایک روحانی رہنما وشہید کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حالیہ دنوں میں سکھ نوجوانوں میں بھنڈراں والا کی تصویر والی ٹی شرٹس پسند کی جارہی ہیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب ایک خاص پروگرام اور مقصد سے کیا جارہا ہے۔
بھنڈراں والا کی مقبولیت میں اضافہ
بھنڈراں والا ۱۹۸۰ء کی دہائی میں پنجاب کا علاحدگی پسند لیڈر تھا جس نے گولڈن ٹمپل میں ہتھیار جمع کرلئے تھے ۔ اس کے خلاف اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ایکشن لینا پڑا تھا ۔ فوج نے ۱۹۸۴میں ۳۔۸ جون کے دوران یہاں کارروائی کی تھی جس میں بھنڈراں والا اور اس کے ساتھی علاحدگی پسند مارے گئے تھے۔سکھوں کے مقدس ترین گردوارے گولڈن ٹمپل کو بھی اس سے نقصان پہنچا تھا جس کے وجہ سے اس طبقے میں نارضگی پھیل گئی تھی اور اندار گاندھی کے قتل کا سبب بھی یہی ناراضگی بن گئی۔ ان دنوں ایک بار پھر جس طرح بھنڈراں والا کی مقبولیت سکھوں میں بڑھ رہی ہے اسے خطرے کی گھنٹی مانا جارہا ہے۔آل پارٹیز سکھ کوآرڈینیشن کمیٹی کے صدر جگموہن سنگھ رینا نے کہا، پولیس نے غیر ضروری طور پر جموں میں ہمارے لیڈر بھنڈراں والے کے پوسٹر ہٹا کر ماحول کو بگاڑا۔وہ ایک سکھ لیڈر تھے اور سکھوں میں مذہبی تعلیم عام کرنے میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔
جواب دیں