یہ سانحہ راستہ نمبر 204پر اس مقام کے قریب پیش آیا جہاں یہ راستہ نمبر 223سے ملتا ہے۔ یہ جگہ جمرات سے کوئی چارکلومیٹر ہے جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اسی جگہ سے آگے وہ پانچ پل شروع ہوتے ہیں جو جمرات جاتے ہیں۔ حادثہ مقامی وقت کے مطابق صبح کے آٹھ بجے پیش آیا مگراس وقت بھی درجہ حرارت تقریباً47ڈگری سی سی تھا۔ اکثراموات گرمی کی شدت میں دم گھٹنے سے ہوئیں۔ یقیناًیہ ایک بڑاسانحہ ہے۔ حکومت سعودی عربیہ نے اس کی تحقیق فوراً شروع کردی ہے۔ایک نیوز ویب’آئرش ٹائمزڈاٹ نیٹ‘ کی رپورٹ مظہر ہے شاہ نے وزیرحج بندرالحجار، مکہ کے میئر اثامہ بن فضَّل البار اور شہر کے پولس سربراہ کو ان کے منصبوں سے ہٹادیا ہے۔ یہ غالباً اس لئے کیاگیا ہے کہ جانچ شفاف رہے۔ امکان یہ بھی ہے کہ بادی النظر میں ان کی کوئی کوتاہی نظرمیں آئی ہو۔ بہرحال ہفتہ عشرہ میں اصل صورتحال منظرعام پر آجائیگی۔ پورے نظام پر نظررکھنے کے لئے 7ہزار سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔یہ ایسے کیمرے ہیں کہ زوم کرکے ایک ایک چہرے کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کی چھان بین ہورہی ہے اوران سے کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس عظیم حادثہ پر، جو پوری ملت کے لئے بڑاسانحہ ہے، قبل اس کے کہ متوفین کی تدفین عمل میں آتی ، غیر مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر، افتراقی والزامی سیاست اوربیان بازی کی جانے لگی۔ جو سیاستدان اور دانشور اس میں پیش پیش نظرآئے، وہ سب اپنی بات ’وحدت امت‘ سے شروع کرتے ہیں اور’اتحاد ملت‘ کے نعرے پر ختم کرتے ہیں۔ یہ حضرات ذہنی تحفظات سے کام لینے کے بجائے اگر دلسوزی اورہمدردی کا اظہار کرتے، تعاون کی پیش کش کرتے تو یقیناًباہم قربت بڑھتی ۔ بات میں اثر پیدا ہوتا ۔ مشوروں پر توجہ ہوتی اور سب سے زیادہ یہ کہ یہ احساس قوی ہوتا کہ امت مسلمہ امت واحدہ ہے اورکم از کم مصیبت کی گھڑی میں سمجھداری سے کام لینا جانتی ہے ۔
سب سے پہلے یمن کے ایک اخبار’الدیار‘ نے جو باغیوں کے زیراثر ہے ، یہ رپورٹ شائع کی کہ شاہی قافلہ کو گزارنے کے لئے اچانک راستہ بند کردئے جانے سے یہ حادثہ پیش آیا۔ اسی کو ایرانی خبرنگار ’پریس ٹی وی ‘ نے دوہرایا۔ برطانیہ کے حج ٹیورآپریٹر محمد جعفری نے اس سے بڑھ کر کہہ دیا:’’ غلطی سعودی حکومت کی ہے کیونکہ جب بھی کوئی شاہزادہ گزرتا ہے ، سڑکیں بند کردی جاتی ہیں جس سے تباہی تو ہونا ہی ہے۔‘‘سوال یہ ہے کہ اگر دوران حج’جب بھی کوئی شاہزادہ گزرتا ہے ، سڑکیں بند کردی جاتی ہیں‘ تو پھر حادثہ ایک ہی بار کیوں ہوا؟ ہر بار کوئی نہ کوئی خبرآنی چاہئے تھی؟
اس کی تردید ایک دوسری رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ الجزیرہ کی موقر رپورٹربسمہ التاسی(Basma Attasi) نے جو وہاں موجود تھیں، شاہی قافلہ کے لئے راستہ روکے جانے کی بات کوقیاسی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ جولوگ اس علاقے اور حج انتظامات سے واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ قیاس حقیقت سے بعید ہے۔جہاں یہ حادثہ پیش آیا وہ مقام منٰی میں داخلہ کے راستے سے فاصلے پر ہے۔ اس جگہ بیرونی حجاج کی قیام گاہیں ہوتی ہیں۔ خصوصی مہمانوں اورشاہی خاندان کے افراد کی قیام گاہیں، منیٰ میں داخلہ کے مقام کے قریب ہوتی ہیں اورخاص مہمانوں کے آنے جانے کے لئے جو سرنگیں اورسڑکیں استعمال ہوتی ہیں وہ بالکل الگ ہیں۔ یہ قافلے ان راستوں سے نہیں گزرتے جن سے عام حجاج کرام گزرتے ہیں۔‘‘اس بیان سے ان رپورٹوں کی بھی تردید ہوتی ہے جو ’الدیار‘ میں یا ’پریس ٹی وی‘ نے شائع کیں۔
ایک بڑے اخبار ’’الشرق الاوسط‘‘ نے حج مشن حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ حادثہ اس وجہ سے پیش آیا کہ تقریباً تین سوایرانی حجاج نے حج انتظامات سے متعلق ہدایات کو نظرانداز کیا اوررمی جمرات کے بعد واپسی کے لئے راستہ صاف ہونے کا انتظارکئے بغیرواپسی کے لئے غلط راستہ اختیارکیا اور اس راستہ میں گھس گئے جس سے دیگرعازمین رمی جمرات کے لئے آرہے تھے۔ یہ رپورٹ بعض دیگر زرائع سے بھی آئی ہے۔ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ نائجیریائی حجاج نے بھی ہدایات کی خلاف ورزی کی ۔
وہ حج انتظام کیا ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی؟ اس سال زاید از بیس لاکھ افراد نے مناسک حج ادا کئے ۔یہ ممکن نہیں سبھی عازمین ایک ساتھ رمی جمرات کرسکیں ۔ چنانچہ یہ عمل گروپوں میں ادا کیا جاتا ہے اورہرگروپ کے لئے ایک وقت مقررکردیا جاتاہے کہ کس ملک کے حجاج کس وقت جائیں گے اورکس وقت تک ان کو واپس جاناہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ایرانی حج انتظامیہ نے اپنے عازمین حج تک یہ ہدایات پہچانے میں کوتا ہی برتی یاگرمی کی شدت کی وجہ سے ایرانیوں نے عجلت کی۔ سعودی وزارت حج یہ ہدایات حج کمیٹیوں اور حج آپریٹرس کو بھیج دیتی ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو ایرانی حج وفد مقررہ وقت کی پابندی نہیں کرسکا۔ اسی لئے سب سے زیادہ اموات بھی ایرانی عازمین حج کی ہوئیں۔ تحقیق اس کی بھی ہونی چاہئے کہ اس کوتا ہی کے لئے کون ذمہ دار ہے؟
ایران کے رہبرمعظم سید علی حسینی خامنہ ای مدظلہ نے تہران میں اور صدرحسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس سانحہ کے لئے سعودی انتظامات کی نکتہ چینی کی۔ بعض دیگرممالک نے بھی انتظامی خامیوں کی بات کہی ہے۔ یہ گزشتہ 25سال کا سب سے شدید سانحہ ہے۔ چنانچہ اس کے بعد اگر کچھ لوگ غم و غصہ کا اظہار بھی کریں تو ایک درجہ میں حق بجانب ہیں۔ لیکن یہ مطالبہ کرنا کہ حرمین شریفین اور حج انتظامات سے سعودی حکومت دستبردار ہوجائے، حق بجانب نہیں۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ حادثہ کسی انتظامی چوک کی وجہ سے ہوا ہے تب بھی سوال پید ا ہوتا ہے کہ ایسے عظیم مجمع کے لئے ایسے وسیع انتظامات کرنے کا تجربہ اورمہارت سعودی وزارت حج کے علاوہ اورکس کے پاس ہے؟یہ دلیل بھی محض نادانی ہے کہ حرمین شریفین کا تعلق کیونکہ پورے عالم اسلام سے ہے اس لئے ان کا نظم وضبط عالم اسلام کے تحت مشترکہ ہونا چاہئے ۔ بیشک ارض مقدس حجاز سے ساری دنیا کے مسلمانوں کا تعلق ہے۔ لیکن یہ تعلق عقیدت واحترام کا ہے، انتظامیہ کا نہیں۔ گزشتہ 14 صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں حرمین شریفین کا انتظام انہی حکام کے تحت رہا ہے جن کا سرزمین حجاز پر اقتدارواختیار رہا۔یہی صورت حال ہماری مساجد، مدارس، درگاہوں، خانقاہوں، زیارت گاہوں اورامام باڑوں کی ہے۔ عقیدت واحترام کا رشتہ اپنی جگہ مگر انتظامی معاملات میں سب دخیل نہیں ہوسکتے۔ یہ مطالبہ نہ اصولاً درست ہے اور نہ عملاً ممکن۔سنا ہے کہ اسی طرح کا مطالبہ ایک صدی قبل شاہ عبدالعزیر کے دورمیں بھی اٹھا تھا ۔کچھ ہندستانی علماء بھی، جو تحریک خلافت میں سرگرم تھے ،یہ مطالبہ لیکرمکہ مکرمہ تشریف لے گئے تھے۔شاہ نے سب کے دلائل سننے کے بعد اپنی تلوار میان سے نکالی اور اعلان کیا سرزمین حجاج پر اقتدار ہم نے تلوار سے حاصل کیا ہے۔ تلوار سے ہی اس کو چھینا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سب دم بخود ہوکررہ گئے ۔جو فیصلہ ایک صدی قبل ہوگیا ،اس کو بدلے جانے کی اب توقع کیسے کی جاسکتی ہے جبکہ عالم اسلام انتشار کا دوسرا نام بن کر رہ گیا ہے؟ کوئی ملک ایسا نہیں جس کے حکمراں خود اپنے یہاں کے انتظامات کو درست رکھ سکیں۔ وہ حج انتظامات میں بس اتنی ہی مدد کرسکتے ہیں کہ ان میں مداخلت کا ارادہ نہ کریں۔
اس طرح کے شوشے دراصل یا تو سیاسی مقاصد سے چھوڑے جاتے ہیں یا اس لئے کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے اورہم فضول بحثوں میں الجھ کر رہ جائیں۔امید کی جانی چاہئے کہ تحقیق کے بعد جو خامی سامنے آئیگی اور جہاں کسی سے بھی چوک ہوئی ہوگی ، سعودی حکام آئندہ اس کی پیش بندی کے لئے پختہ بندوبست کریں گے۔
مفقودالخبر شوہر کا معاملہ
گزشتہ ہفتہ اس کالم میں بعنوان ’’اسلامی قانون ، اختلاف مسالک اور اصلاح معاشرہ‘‘ ہم نے کانپور کے شہر قاضی مولانا رضا خان نوری صاحب کے اس فیصلے پر اپنی گزارشات پیش کی تھیں جو انہوں نے دوخواتین کے استغاثہ پر دیا تھا اور جس میں چار سال سے مفقودالخبرشوہر کی بیوی کے نکاح کو فسخ فرما دیا گیا تھا۔ہم نے اس فیصلے کی تحسین کرتے ہوئے اس کو ایک تاریخی فیصلہ لکھا تھا۔ ہماری ان گزارشات پر ہمارے کرم فرما مولانا نورالحسن راشد صاحب کاندھلوی نے، جو بڑے محقق ہیں، اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا ہے:
’’جناب من! یہ کوئی نیا فیصلہ نہیں ہے۔ فقہی، ہنداسلامی کی تاریخ میں کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ حنفی علماء اور مفتیان کرام نے اس مسئلہ پر حنفی مسلک سے ہٹ کر، فقہاء مالکیہ کے مطابق فتویٰ دیا اور چار سال کے بعد زوجۂ مفقود الزوج کو دوسرے نکاح کی اجازت دیدی۔ عہد مغلیہ کے آخری دور کے علماء میں سے، مولانا مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی [وفات: ۱۲۸۵ھ۔ ۱۸۶۸ء] اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور ان سے قبل ان کے پرنانا، مولانا قاضی سراج الدین گنگوہی اسی پر فتوی دیتے تھے۔ بعد میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی [وفات:۱۳۶۳ھ۔۹۴۳ء] نے اس کو مسلسل فکر وتوجہ کا موضوع بنایا۔ برسوں تک خود اس پر غور کیا اور اس مبحث پر ایک جامع مفصل تحریر کتابی صورت میں مرتب کرکے ، متحدہ ہندوستان کے تمام علماء کی خدمت میں بھیجی۔ ان سے رائے اورتجویزات بلکہ تنقیدات کی گذارش کی۔ جوابات کے لئے لفافے ارسال فرمائے، جو جوابات آئے ان پر مزید غور وفکر کیا۔ ان تمام مشوروں کی روشنی میں ، اس کتابچہ یا فیصلہ کو دوبارہ مرتب کیا۔ جب اکثر علماء نے اس سے پوری طرح اتفاق کرلیا، تب اس کو حرمین شریفین کے علماء کی خدمات میں تصدیق وتنقیح کے لئے بھیجا۔ ان سب کی تصدیقات سے مزین ہوکر، یہ کتاب ایک متفق علیہ فتوے کی صورت میں ’’الحلیۃ الناجزہ للحلیۃ العاجزہ‘‘ کے نام سے 1353ھ[1934-35ء] میں مکمل صورت میں شائع ہوئی۔یہ کتاب اسی وقت سے اس سلسلے کے تمام مفتیان کرام ، علماء ، قاضیوں،دارالقضاء اور شرعی پنچایتوں کے لئے رہنما اور معمول بنی ہوئی ہے،اور برصغیر ہند کے علاوہ دنیا کے متعدد ملکوں میں اسی پر عمل ہے۔‘‘
ہم ان گرانقدر معلومات کے لئے برادرگرامی مولانا نورالحسن راشد صاحب کے ممنون ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ قاضی مولانا رضاخان نوری صاحب کے فیصلے کے بعد برصغیر کے تما م احناف اس مسئلہ پر ایک رائے پر جمع ہوگئے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ ایک تاریخی فیصلہ ہی قرار پائیگا۔مولانا راشد صاحب نے جن حضرات کے حوالے دئے ہیں ان میں مولانا اشرف علی تھانوی ؒ (1863-1943)، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ (1829 150 1905)تو مولانا احمدرضا خان ؒ فاضل بریلوی (1856-1921) کے ہم عصر تھے۔ باقی تمام حضرات ان حضرات سے قبل دور کے ہیں۔ اللہ ان تمام صاحبان علم وتقوٰی کو اپنی خصوصی رحمتوں سے نوازے۔ آمین۔
جواب دیں