12 ربیع الاول بروز سنیچر رات گیارہ بجے برادرم نجم الحسن نے بذريعہ فون ماموں زاد بہن الهام بنت زبير نائطے کی طبیعت ناساز ہونے اور ڈاکٹروں کی تشويش کی خبر دی، تب میں ہکا بکا اور ششدر رہ گیا کہ ابھی جوانی کے مراحل میں ہی تھی، اب صرف اس وحدہ لا شریک لہ پر امید تھی جس کے قبضہ قدرت میں کن فیکون کا اختیار ہے۔
ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
اسی اثناء میں اپنے بہنوی کے ساتھ ہسپتال کا رخ کیا جہاں اپنے ماموں کی آنکھیں اشکبار تھیں دل غمگین تھا، نزع اور سکرات کا عالم صاف ظاہر ہو رہا تھا لهذا ہم نے سورہ یس اور کلمہ لا الہ الا اللہ کا ورد کرنا شروع کردیا، اسی اثناء میں حیات وموت کی کشمکش میں گزرتے ہوئے ربیع الاول کی 12 تاریخ جو اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن ہے داعی اجل كو لبیک کہا اور اپنے مشفق ومربی والدین اور متعلقین ولواحقین کو داغ مفارقت دیتے ہوئے ابدی سفر پر روانہ ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
یقینا موت ایک تلخ حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں. کلّ نفس ذائقة الموت یہ آیت بتاتی ہے کہ اس کڑوے گھونٹ کو پیے بغیر گزارہ بھی نہیں، اسی طرح اللہ تعالٰی ايک جگہ فرماتا ہے كلّ شي هالك الا وجهه له الحكم واليه ترجعون. یہ آیت مبارکہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ كسي ذی روح کو حیات دائمی نہیں دی گئی ہے بلکہ حیات کو داغ مفارقت دینا ہے لیکن ایک مومن ہميشہ كے لیے کبھی جدا نہیں ہوتا وہ ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف منتقل ہوتا ہے، اگر وہ اپنی عارضی زندگی میں اللہ کو راضی کر کے چلا گیا تو نم کنومة العروس کا اعلان ہوگا۔
الغرض ہماری ماموں زاد بہن ہم سبھوں کو چھوڑ کر دار فانی سے دار بقاء کی طرف چلی گئی
مرحومہ نے اپنی آنکھیں عمان کى سرسبز وشاداب فضا میں کھولی، یہیں پر پلی بڑھی، ابتداء سے انتہاء تک تعلیمی مراحل مسقط انڈین اسکول میں طے کی، اور ہر سال امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے کمپیوٹر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، وللہ الحمد
ماشاء الله دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر بھی توجہ مرکوز تھی حتی کہ ان کے والد محترم کی زبانی: قران مجید کے 15 پارے اپنے سینے میں محفوظ کیے تھے اور شریعت مطہرہ پر مکمل طور پر عمل كرنے کی کوشش کرتی، مزیدبقول ہمشیرہ: اپنے اہل خانہ کے لئے راے مشورے کے اعتبار سے سرپرست اور قائد کی حیثیت رکھتی تھی اسی طرح عصری تعلیم کے ساتھ تفہیم دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔
موصوفہ ہر وقت ہر لمحہ خوش باش اور ہشاش بشاش رہتی، انکی خوبصورت یادوں کے اجالے و لمحے اج بھی پھول کی خوشبو کی طرح مہک رہے ہے، موصوفہ کا نام الہام اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی بجاوری میں عجلت معاصی سے بچنےکی ہر ممکن کوشش کیا کرتی تھی، اسی وجہ سےہر ایک کی زبان میں ان کا ذکر خیر سننے کو مل رہا ہے جو اذکرو محاسن موتاکم کے اعتبار سے نبوی حکم ہے۔
ان العین حق کے مصداق کے مطابق نظر بد حق ہے چنانچہ اس بیماری کو سہتے ہوئے مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کیا،
موصوفہ بے شمار خوبیوں کی مالکہ تھی صوم وصلاہ نیک سیرت وبا کرداراور مہمان نوازی انکی ممتاز اور اعلی صفات تھی، قوت ایمانی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی شاید اسی بناء پر ان کے چہرے پر نورانیت عیاں تھی اوروالدین کی چہیتی اور ہر ایک کی دل عزیز تھی گھر والوں کے لیے مثالی بہن اور قابل تعریف تھی،
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
محترمہ مرحومہ کا جانا ایک سبق اور عبرت کا سامان ہے موت یہ نہیں دیکھتی کون جوان ہے کون بوڑھا ہے مقررہ موعود پر آجاتی ہے اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق عقلمند وہ ہے جو موت سے پہلے موت کی تیاری کرتا ہے
یاايتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية فادخلى فى عبادي وادخلى جنتى
آخر میں تعزیت مسنونہ پیش کرکے بارگاہ الہی میں مغفرت اور بخشش کی دعا کرتا ہوں کہ اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے سیئات کو حسنات میں مبدل فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں