مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ جھارکھنڈ
اذان اللّٰہ تعالیٰ کی بڑائی ، عظمت وکبریائی، رسالت محمدی اور فلاح انسانی کی کامل اور مکمل دعوت کا اعلان ہے، یہ اعلان ہر کسی کے کان میں پہونچ جائے اس کے لئے ہر دور میں اذان بلند آواز سے دی جاتی رہی ہے، بعض کلمات پر دائیں بائیں گھوما جاتا رہا ہے، تاکہ یہ آواز ہر سمت میں گونجے، جو مسجد آنے والا ہے اسے نماز کے وقت کا احساس وادراک ہوجائے او روہ کاروبار زندگی اور مسائل حیات کو چھوڑ کر اللّٰہ کے گھر کا رخ کر لے، لیکن جو مسجد نہیں آ رہا ہے، اس کے کانوں تک بھی یہ آواز پہونچ جائے اور اس کا دل ودماغ بھی اللّٰہ کی کبریائی کے تصور سے معمور اور رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ذکر سے اس کے کان آشنا اور فلاح وکامیابی کے حقیقی خیالات سے اس کا ذہن شاد کام ہو۔
دنیانے ترقی کی اور تیز آواز کی مشین ایجاد ہوئی تو اب اونچی جگہ سے اذان دینے کے بجائے لاؤڈ اسپیکر سے اذان دیا جانے لگا ، تاکہ دور تک اس کی آواز پہونچے، مسلمانوں نے اس کا استعمال شروع کیا اور دوسرے مذاہب والوں میں بھی بھجن کیرتن اور دوسرے کاموں کے لئے اس مشین کا چلن عام ہوا ، سب کا مقصد یہی تھا کہ آواز دور تک پہونچائی جا سکے، اس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے ہارن کا دوسرے مذاہب والوں نے اس کثرت سے استعمال کیا کہ جب تک ان کے پوجا کا زمانہ ہوتا ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور بہت سارے کاموں میں یہ آوازخلل ڈالتی ہے، اس کے لئے سرکاری طور پر پابندی لگائی گئی اور دس بجے رات کے بعد اس کا استعمال کرنا بعض مخصوص حالتوں میں دی جانے والی اجازت کو چھوڑ کر ممنوع ہے ، تاکہ لوگوں کے معمولات میں خلل نہ پڑے۔
اذان جن اوقات میں دی جاتی ہے، ان اوقات میں لوگوں کے معمولات میں خلل کا سوال نہیں پیدا ہوتا ، پھر یہ اذان مختصر ہوتی ہے اور پانچ منٹ سے کم میں ہی مکمل ہوجاتی ہے۔ اذان کے کلمات میں صوتی ہم آہنگی اس قدر ہے کہ فضا میں گونج رہی یہ آواز دل کے اندر ارتعاش پیدا کرتی ہے اور انسان ان کلمات میں کھو کر رہ جاتا ہے، یہ حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اس کے معنی نہیں سمجھتے ، جو معنی سمجھتے ہیں ، وہ ان کلمات سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان کے پاؤں خود بخود مسجد کی طرف رواں ہوجاتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ اذان کے بعد ایک ہی دروازہ کھلا ہوتا ہے اور وہ اللّٰہ کے گھر کا دروازہ ہے۔
سینکڑوں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، سماج اس کا عادی ہو چکا ہے، بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس کی قدر کرتے ہیں، خصوصا فجر کی اذان اس لئے زیادہ مفید ہوتی ہے کہ لوگ بغیر گھڑی اور موبائل دیکھے ہوئے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ صبح ہو گئی ، سونے کا وقت ختم ہوا اور اب اللّٰہ ایشور کو یاد کرنے کا وقت ہے، اور اس کا م سے فراغت کے بعد حصول معاش کی تلاش میں لگ جانا ہے، جولوگ صبح سویرے اٹھنے کے عادی ہیں اور اس کو صحت کے لئے مفید سمجھتے ہیں، ان کے لیے اذان کی آواز بغیر خرچہ کے الارم کا کام کرتی ہے اور وہ اس کو سن کر بیدا رہوجاتے ہیں اور اپنی مشغولیات میں لگ جاتے ہیں،لیکن بُرا ہو اس ملک کی عدم رواداری کے اس ماحول کا جو گذشتہ چند سالوں میں اس ملک میں پروان چڑھا ہے، اس ماحول کے نتیجے میں اسلام اور مسلمانوں سے جڑی ساری چیزوں کو تنقید کا نشانہ بنا یاجا رہا ہے اور ہر کام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ ان دنوں اذان کے بارے میں چل رہا ہے ، الٰہ آباد مرکزی یونیورسٹی کی وائس چانسلر سنگیتا سریواستو نے ضلعی انتظامیہ کو تحریری شکایت دی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر فجر میں اذان کی وجہ سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے اور سردرد کی شکایت ہوتی ہے، اسے بند کرنا چاہیے، تاریخی لال مسجد کی انتظامیہ کو خبر ملی تو اس نے مائیک کی آواز کم کر دیا اور ان کے گھر کی طرف سے ہارن کو بھی ہٹا دیا، لیکن اس موضوع پر بحث اب بھی جاری ہے،اسی طرح کی بات چند سال قبل ہالی وڈ کے گائیکار سونو نگم نے بھی کہی تھی، حالاں کہ یہ ایسی نادانی کی بات ہے کہ جسے کوئی عقل مند آدمی زبان پر لانا پسند نہیں کرے گا ، کیوں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ میرے گھر کے پیچھے سے ٹرین گذرتی ہے اور اس کی آواز سے میری نیند میں خلل پڑتا ہے؛ اس لیے ٹرین کی آمد ورفت اور اس کی آواز کو بند کر دینا چاہیے، سڑکوں پر چل رہی گاڑی کو ہارن نہیں دینا چاہیے کیوں کہ اس سے نیند میں خلل پڑتا ہے ، ظاہر ہے کوئی عقل مندآدمی اس قسم کا مطالبہ نہیں کر سکتا ۔
الٰہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر سنگیتا شری واستو ہوں، یا سونو نگم انہیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو برباد کرنا ہے، ایک ایسی تہذیب جس میں اذان کی آواز بھی گونجتی ہے ، بھجن کیرتن بھی ہوتا ہے، سنکھ بھی پھونکے جاتے ہیں اور کئی کئی روز تک مائک پر تیز آواز میں ہرے کرشنا ، ہرے راما اور سیتا رام کا جاپ کیا جاتا ہے ، یہ ہندوستانی تہذیب کی شناخت اور پہچان ہے، جس کے حوالہ سے پوری دنیا میں یہ ملک جانا جاتا ہے ، وائس چانسلر صاحبہ نے اپنی درخواست میں لکھا ہے کہ میں کسی خاص مذہب کی مخالف نہیں ہوں ، لیکن اذان کی آواز سے میری نیند میں خلل پڑتا ہے، جب کہ یہ آواز تین اور زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ تک بلند ہوتی ہے، لیکن بھجن کیرتن اور گھنٹیوں کی آواز مسلسل جاری رہتی ہے، لیکن اس سے سنگیتا شری واستو کی نیند میں خلل نہیں پڑتا، خاص کر الٰہ آباد بنارس وغیرہ شہر جہاں یہ عمل دوسرے شہروں سے کچھ زیادہ ہی کیا جاتا ہے، سنگیتا شری واستو نے اگر اپنی عرضی میں صبح کی آرتی اور کیرتن کا بھی ذکر کیا ہوتا تو بات تھوڑی بہت سمجھ میں آسکتی تھی، لیکن جب وہ صرف اذان کا ذکر کرتی ہیں تو ان کی وضاحت کہ میں کسی خاص مذہب کے خلاف نہیں ہوں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ۔ سنگیتا سری واستو اور سونو نگم کا تعلق دوسرے مذہب سے ہے، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ نغمہ نگار جاوید اختر بھی اس سے پہلے انہیں حضرات کے ساتھ نظر آتے رہے ہیں اور ان کا موقف بھی وہی ہے جو ان دونوں کا ہے، معلوم ہوا کہ نام مسلمان کا رکھ لینا کافی نہیں ہے ، ذہنی تربیت بھی اسلامی انداز کی ہونی چاہیے ورنہ سنگیتا سری واستو، سونو نگم اور جاوید اختر کے فکر وخیال یکساں ہو جاتے ہیں۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ الٰہ آباد بینچ کے آئی جی نے پولوشن ایکٹ ، ہائی کوٹ اور سپریم کورٹ کی بعض ہدایات کا سہارا لے کر رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے اور مختلف اضلاع کے ڈی ام اور ایس پی کو اس پر سختی سے عمل کر نے کی تاکید کی ہے ۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں