“میٹھے بول میں جادو ہے” نہ صرف ایک ضرب المثل بلکہ ایک حقیقت بھی ہے اور اس کا مشاہدہ ہم میں سے ہر ایک وقتا فوقتا کرتا رہتا ہے۔ میٹھے بول میں وہ طاقت ہے جو گئے گزرے انسان کو بھی متاثر کرتی ہے، دشمنی میں طاق، مخالف سے مخالف انسان کا دل اس سے جیتا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر ملک عزیز میں جہاں ایک طرف فضاؤں میں زہر گھولا جارہا ہو اور آئیڈیالوجی اور فکر ونظر کے اختلاف کی بنا پر انسانوں سے دشمنی کا پاٹھ پڑھایا جارہا ہو، ایسے ماحول میں مضبوط کردار اور مثالی اخلاق کے ساتھ میٹھے بول کے ذریعے اپنا تحفظ بھی کیا جاسکتا ہے اور اسلام کی سچی تصویر بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ اس وقت رائے بریلی کے سفر سے واپسی میں ریل گاڑی پر ہوں اور ایک پٹری کی وجہ سے سامنے سے آنے والی گاڑی کے انتظار میں ہوناور اسٹیشن پر ہماری گاڑی کھڑی ہے، عشرے بھر کے اس سفر کی خوش گوار یادیں ذہن میں دستک دے رہی ہیں، گزشتہ کل اسی ٹرین پر پیش آنے والا ایک واقعہ خاص طور پر ہمیں یاد آئے گا… آئیے آپ بھی پڑھیے… جھانسی سے کل دوپہر بارہ بجے ہم منگلا ایکسپریس پر سوار ہوئے، آج کل کے حالات میں بالعموم اے سی اور اس میں بھی اے سی ٹو کے سفر کو ترجیح دی جاتی ہے، چناں چہ ہمارا ٹکٹ بھی اے سی ٹو پر تھا اور گزشتہ ہفتے کے مقابل آج بھیڑ کچھ زیادہ تھی، جیسے ہی ہم ٹرین پر سوار ہوئے اور اپنی سیٹوں پر پہنچے جو ایک ہی کیبن میں تھیں، چار سیٹوں کے کیبن کی وجہ سے اس سے دوسروں کی تکلیف کا امکان نہ تھا، اس سے متصل علاحدہ جو دو سیٹیں تھیں ان پر ایک عدد غیر مسلم میاں بیوی براجمان تھے، جیسے ہی ہم مولویوں پر ان کی نظر پڑی بس کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی عجیب کیفیت ہوگئی، لرزہ بر اندام اور حواس باختہ ہمیں دیکھے جارہے ہیں، ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کو دیکھ کر اس طرح کسی پر ہیبت اور اعضا پر رعشہ طاری ہوجائے، اس ماحول کی تخلیق میں سب سے زیادہ کردار ملک عزیز کی گودی میڈیا کا رہا ہے۔ سب سے زیادہ انھیں خوف اس کا ستا رہا تھا کہ ہمارے بعض ساتھیوں کے چہرے کا ماسک ذرا ہٹا ہوا تھا، وہ عجیب دیوانگی کے ساتھ کپکپاتے اعضا کے ساتھ لجاجت سے کہے جارہے تھے کچھ انگریزی کچھ ہندی کے ملے جلے الفاظ میں کہ آپ لوگ فورا ماسک درست کریں، ورنہ بڑا خطرہ ہے، گویا کورونا یہیں کہیں گھات لگائے بیٹھا ہو۔ یوں تو ماسک کی تلقین کے مناظر بہت دیکھے جاچکے ہیں مگر ان کی کیفیت جو تھی اسے دیدنی کہیے یا نادیدنی، گفتنی یا ناگفتنی۔ بس ٹرین چلی اور دھیرے دھیرے ان کے خوف میں کچھ کمی آتی گئی مگر پھر بھی ہیبت طاری تھی۔ پھر جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا گیا ان سے بات کرنے کے مواقع ہم تلاش کرتے رہے، مگر وہ اپنی ہٹ پر قائم تھے اور جہاں ذرا ماسک کھسکا فورا متنبہ کرتے رہے۔ بالآخر مناسب موقع ملنے پر ہم ان کی خیریت معلوم کرتے رہے اور ان کی ضروریات کی فکر کرتے رہے، یوں تو آج کل مسافروں کے سامنے کوئی چیز پیش کرتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے مگر پھل وغیرہ میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اس لیے انسانیت کے ناطے ہم نے ان کے سامنے پھل پیش کرنے چاہے تو بس اس کے بعد سے وہ ہمارے سامنے ڈھیر ہوگئے، یوں ہم نے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دیا بس پھل پیش کرنا چاہا اور انھوں نے معذرت بھی کی اور ہمارے پاس کوئی کمی بھی نہیں ہوئی مگر صرف پیش کش اور مسکراہٹ کے انداز سے وہ ہمارے اسیر ہوئے اور اس کے بعد اس قدر کھل گئے کہ بہت ساری دل کی باتیں کہہ ڈالیں، اپنا تعارف اور اپنا احوال سب کچھ سنانے لگے، یہاں تک کہ جب ہمارے ساتھیوں کو ذکر و نماز میں مشغول پایا تو ذکر وتسبیح اور نمازوں کے اوقات اور رکعات کے متعلق بہت کچھ استفسار کر ڈالا۔ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جس میں ہماری مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے نتیجے میں ایک سخت دل انسان پسیج جاتا ہے اور تھوڑی دیر پہلے جو ہم سے ہیبت کھا کر ہمارے سائے سے بھی ڈر رہا تھا اب وہ دل کھول کر ہم سے باتیں کرتا ہے۔ ایک اور واقعہ اسی سفر میں اس وقت پیش آیا جب ہم رائے بریلی سے باندہ جارہے تھے، راستے میں ایک جگہ چائے پینے کے لیے رکے اور چائے پی کر چلتے بنے۔ پھر شام کو واپسی میں بھی تلاش کرکے اسی دکان پہنچے اور چائے پی، اب کی بار ہمارے ساتھی مولوی جنید فاروقی ندوی جو چھوٹی سی چھوٹی باتوں میں مخاطب کا دل جیتنے کا ہنر جانتے ہیں اور ان کی اس خوبی کی وجہ سے اللہ تعالی نے انھیں کئی فتوحات سے نوازا ہے، انھوں نے اس موقع پر ان کی چائے کی تعریف کی اور کہا کہ بھائی! آپ کی چائے واقعی اچھی تھی جبھی تو ہم صبح کے بعد اب شام میں بھی تلاش کرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچے، ہم لوگ مختلف ریاستوں کے ہیں کوئی کرناٹک کوئی مہاراشٹرا کوئی تلنگانہ کا، باندہ جاتے ہوئے آپ کے یہاں رکے اور اب واپسی میں بھی آپ کی محبت ہمیں کھینچ لائی اور ہم نے طے کیا کہ آپ ہی کے یہاں چل کر چائے پینی ہے۔ اتنا سننا تھا کہ اس نے پوچھا کہ آپ لوگ بابا جی کے پاس گئے تھے؟ ہم نے جواب میں کہا کہ ہاں ہم لوگوں کا حضرت باندوی سے تعلق ہے اور ان کے نواسے ہمارے دوست تھے تو اس دکان دار نے خود کہا کہ ہاں، جن کا ڈیڑھ سال قبل انتقال ہوا تھا اور اسی راستے سے بے شمار لوگ ان کے جنازے میں پہنچے تھے۔ جنید بھائی کی باتوں سے متاثر ہوکر اور حضرت باندوی کا نام سن کر اس دکان دار نے ہاتھ جوڑنے شروع کردیے اور اپنی عقیدت اور احسان مندی کا مظاہرہ کرنے لگا ۔ ایک چھوٹا سا موقع، ہمیں خود احساس نہیں تھا کہ یہ شخص اس قدر متاثر ہوگا۔ پتہ نہیں ایسے چھوٹے موٹے کتنے مواقع ہماری روزمرہ کی زندگی میں آتے رہتے ہیں اور ہم ان کا فائدہ اٹھاکر اسلام کی مثالی اخلاقی تعلیمات کو پیش کرنے سے چوک جاتے ہیں۔ آج ضرورت اسی کی ہے کہ ہم سراپا دعوت بن جائیں، قول وعمل اور کردار و گفتار کے ذریعے اسلام کی مثالی تعلیمات اور سیرت رسول کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں، پھر وہ دن دور نہیں کہ دنیا ہمارے قدموں پر آگرے۔ کیوں کہ دنیا محبت کی پیاسی ہے، محبت کے آبِ حیات کی دو بوند کوئی اس کو پلادے تو اگلے لمحے دلوں کے بند دروازے کھلتے چلے جائیں جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ
(محمد سمعان خلیفہ ندوی۔ منگلا ایکسپریس۔ 8 جون 2021)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں