ہندوستان میں کافی عرصہ سے اس موضوع پر بحث ہورہی کہ مذہب کا سیاسی استعمال کس حد تک مناسب ہے۔ آئے دن پارلیمنٹ کے اندر اور اس کے باہر بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ ایسے عناص جو سیاست بالخصوص الیکشن کے موقع پر لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر ان کا استعمال کرتے ہیں ایسے لوگوں پر پابندی عائد کی جائے۔ بظاہر قانون کی رو سے ایسی پابندی عائد بھی ہے لیکن عملاً سیاست داں اس طرح کے عمل کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھتے بلکہ ضرورت کے مطابق سیاست میں مذہب کو داخل کردیتے ہیں کچھ سال پہلے سماجوادی پارٹی کے ایک ممبر پارلیمان موہن سنگھ نے پارلیمنٹ میں ایک پراؤیٹ بل پیش کرکے مذہب کے نام پر الیکشن میں حصہ لینے والوں پر پابندی عائد کرنے پر زور دیاتھا اور اس بل کی بھارتیہ جنتاپارٹی کے بعض ارکان کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی تھی۔ مذہب کو سیاست سے غیر مربوط کرنے کا نقطہ نظر نیا نہیں کافی پرانا ہے، آزادی سے پہلے ہندومہا سبھا اور آزادی کے بعد جن سنگھ کے قومی سیاست میں اثر ونفوذ کے بعد سے ہی اس کی ضرورت برابر محسوس کی جارہی تھی کہ ایسا قانون بنایاجائے جو سیکولرازم پر ہندوبنیاد پرستی کو غالب آنے سے روک سکے۔ پنڈت نہرو کی زندگی تک سیکولرازم کے اصول قومی سیاست پر غالب رہے لیکن لال بہادر شاستری نے پاکستانی حملہ کے وقت ۵۶۹۱ء کے دوران آر ایس ایس کو راجدھانی دلی میں داخلی سلامتی کے کاموں میں شریک کرکے اس ہندو انتہا پسندی کو نئی زندگی دی جو گاندھی جی کے قتل کے ساتھ مردہ ہوچکی تھی۔ اندراگاندھی کے دور میں ہندوکٹر پرستی نے مزید زور دکھایا، خاص طور پر اس وقت جب جن سنگھ نے بھارتیہ جنتاپارٹی کا چولا پہن کر اول اول سیکولرازم کی راہ اپنائی لیکن اس وقت کے حالات میں اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تو مایوس ہوکر اس نے ”کامن سول کوڈ“ اور ”رام جنم بھومی“ کا موضوع ابھارنا شروع کردیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی طاقت بڑھنے گی، یہاں تک کہ وہ ملک کی دوسری بڑی طاقت اور آج سب سے بڑی طاقت بن کر پورے ملک میں بھگوا جھنڈا لہرانے کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کررہی ہے۔ مذہب کو سیاسی سے الگ کرنے کی بات ہندوستان جیسے کثیر مذاہب اور مذہبی اقیتوں کے ملک میں اس لئے بھی سمجھ میں آتی ہے یہاں سیاست و مذہب سے جوڑ کر داخلی اتحاد قائم رکھنا بہت دشوار ہے، ملک کا دستور بھی یہی کہتا ہے کہ یہاں کی حکومت کسی مذہبی عقیدے یا عبادت کے طریقے سے سروکار نہیں رکھے گی نہ مذہبی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک اپنائے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو اکثریت جو عام طور پر جمہوری ممالک میں حکمرانی کرتی ہے اس کا مذہبی غلبہ ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں آئین کا سیکولر ڈھانچہ ہی درہمبرہم ہوکر رہ جائے گا، ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے پرسنل لا کے تحفظ میں اسی لئے جدوجہد کی کہ اگر اس کی جگہ ”کامن سول کوڈ“ نافذ ہوگیاتو اکثریتی فرقہ کے مذہبی عقائد ورسومات کو اقلیتوں پر ادنے کی کوشش ہوگی۔ آج جو عناصر مذہب کو سیاست سے غیرمربوط کرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور ماضی میں بھی اس طرح کے قوانین سازی کو ہندوتوا کے خلاف قرار دیتے رہے ہیں ان کا مقصد یہی ہے کہ ملک کی سیاست وحکومت کو معیشت نیز اس سے متعلق پالیسی وپروگرام پر چلانے کے بجائے فرقہ واریت اور مذہبی جانبداری پر استوار کیاجائے تاکہ ان کا اقتدار مستحکم ہوسکے اور مذہبی تعصب سیاست کا اہم جزو بن جائے۔ اب تک فرقہ پرستی کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لینے پر تو پابندی رہی ہے لیکن الیکشن میں مذہب کے نام کے استعمال پر خاطر خواہ قدغن نہ لگنے سے ماحول بہت خراب ہورہا ہے سیکولر ذہن وفکر کے حامل دانشور اور سیاست داں عرصہ سے زور دے رہے ہیں کہ مذہب کے نام پر الیکشن میں حصہ لینے پر روک لگائی جائے، یعنی مذہب کو سیاست بننے نہ دیاجائے، کیونکہ ضروری نہیں کہ سیاست یا الیکشن میں مذہب کو ایک اشتعال انگیز تقریر کے ذریعہ ہی داخل کیاجائے، تعصب ومنافرت کے دوسرے طریقے بھی ہوسکتے ہیں جن کو بروئے کار لاکر یہ کام انجام دیاجاسکتا ہے لہذا ایسے تمام طریقوں کے استعمال کو قانون سازی کرکے اور قانون کا نفاذ عمل میں لاکر روک لگائی جائے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں